ایڈیپس ریکس ، از، سوفیکلیز (حصہ اول)
ترجمہ: نصیر احمد
زی اس کی نسلو، کادموس کی سرزمین پر پلنے والو، تم ان قربان گاہوں پر کیوں اپنا ماتھا رگڑتے ہو؟ تم نے عاجزی سے یہ ہار، یہ شاخیں کیوں اٹھائی ہوئی ہیں؟ کیا بات ہے کہ وحشت کی سانس نوحوں اور دعاؤں کے جلو میں شہر سے ابھر رہی ہے؟
میرے بچو، میں تم سے منادی کرنے والوں کے واسطے نہیں ملنا چاہتا تھا، میں بہ نفس نفیس، تمھاری گزارشات سننے آ گیا ہوں۔ میں ایڈیپس جسے ایک زمانہ جانتا ہے۔
کاہن، تم سب سے بزرگ ہو، سب کی بات تم ہی کرو۔ تم لوگوں پر کیا گزری ہے؟ تمھیں کس خوف نے آن گھیرا ہے؟ کیا تم کسی مہربانی کے امیدوار ہو؟ مجھے بتاؤ اور یقین رکھو میں تمھاری مدد کروں گا۔ اگر میں بے درد ہوتا ، تمھاری دلجوئی کے لیے یہاں آتا ہی کیوں؟
کاہن: عظیم ایڈیپس، تھیبز کے پرجلال بادشاہ
ہم تمام عمروں کے لوگ تمھاری قربان گاہ کے ارد گرد موجود ہیں۔ یہاں وہ بچے بھی ہیں جو کسی سہارے کے بغیر کھڑے ہی نہیں ہو سکتے۔ اور میرے جیسے کشیدہ سر، باراں دیدہ کاہن بھی۔ اور وہ نوجوان بھی جو سیجوں کے منتظر ہیں۔
یہ تمام ہجوم آنولے کی ٹہنیاں اٹھائے کھڑا ہے۔پالاس کے دومعبدوں کے درمیاں جہاں اپا لو دہکتے انگاروں کے درمیاں نوید دیتا ہے۔ تمھاری آنکھیں گواہ ہیں کہ تھیبز آفت زدہ ہے۔ تھیبز موت کے سامنے اپنا سر نہیں اٹھا سکتا۔ دھول زمین سے اگنے والے پھل اور پتیاں کھا گئی ہے۔ ریوڑ بیمار ہیں۔ بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ محنت بے سود ہے۔ طاعون اور بربادی کے دیوتا نے بجلی کی صفت شہر پر حملہ کیا ہے۔ کادموس گھر ویران اور تاریک ہیں۔صرف موت بچی ہے جو تھیبز کی بے حال سرزمین کو ٹھوکریں مارتی ہے۔
تم لافانی دیوتا تو نہیں، پھر بھی عرض گزارنے تمھارے دوارے آئے ہیں کہ تم برے دنوں کے ساتھی ہو اور خدا کے اشارات سب سے بہتر سمجھتے ہو۔تم نے ہمیں بلی جیسی سمع خراش گانے والی سے، جسے ہم طویل مدت تک خراج دیتے رہے تھے، نجات دلائی تھی۔تم تو ہم سے کچھ زیادہ اس کے بارے میں جانتے نہ تھے۔ نہ ہم نے تمھیں اس سے نپٹنے کے لیے کوئی جادو سکھایا تھا،کسی دیوتا کی روح تم میں حلول کر گئی تھی کہ تم نے ہمیں اس سے آزادی بخشی۔ اس لیے اے سطوت اور حشمت والے بادشاہ ہم تمھاری اور پھرے ہیں۔ہماری حفاظت کا سبب بنا۔ ہمارے درد کا درماں کر دے۔چاہے دیوتاؤں سے بشارت لے یا انسانوں سے مشورے، ہماری مدد کر۔
ماضی میں آزمائے گئے دانش مند بادشاہ۔ تمھی ہو جو ابتلاؤں کے دور میں کچھ کر سکتے ہو۔اور تم نے کر کے دکھایا بھی ہے۔ تم شریفوں میں سب سے زیادہ شریف ہو۔ لوگ تمھیں نجات دہندہ جانتے ہیں۔ ہمارے شہر کو تم زندگی لوٹا دو۔ تاکہ تمھاری حکومت کو یاد کر کے کوئی یہ نہ کہے کہ اس بادشاہ کے دور میں پہلے تو ہم اٹھے لیکن بعد میں گر گئے۔
ریاست کو طوفانوں سے بچا لو۔ سالوں پہلے تم ہی ہمارے لیے خوش بختی لائے تھے۔ یہ بار اک بار پھر تم پر آن پڑا ہے۔ تمھاری طاقت اور حکومت پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن حکومت تو انسانوں پر ہی کی جاتی ہے، دیواروں پر نہیں۔انسانوں کے بغیر بحری بیڑے بھی محض ڈھانچے اور بستیاں بے رونق ہوتی ہیں۔ اور جب زندگی راہوں پر موجزن نہیں ہوتی، تو بے دلی ہی بچتی ہے۔
ایڈیپس: غریب رعایا، یقین کرو میں تمھاری حالت زار سے بے خبر نہیں ہوں۔ تم اجل گرفتہ اور بیمار ہو لیکن تمھاری اس پریشانی پر مجھ سے زیادہ شہر میں غمزدہ بھی کوئی نہیں۔تم میں سے ہر کوئی اپنا غم اٹھاتا ہے جبکہ میں پورے شہر کے لیے افسردہ ہوں۔
میں سو نہیں رہا تھا۔ میں کافی عرصے سے پریشان ہوں۔ اور میری بے تاب فکر کئی راستے تلاش کر رہی ہے۔اپنی جستجو سے میں ایک مددگار ذریعہ ڈھونڈ نکالا ہے اور اس ذریعے کو عملی شکل بھی دے ڈالی ہے۔ ملکہ کے برادر، مونیکس کے فرزند، کریون کو کو الہام گاہ میں بھیج دیا ہے کہ وہاں وہ رویائے صادق کی مدد سے معلوم کرے کہ میں کون سا عمل ہمارے شہر کو شر سے بچا سکتا ہے۔ میں اس کی واپسی کے دن گن رہا ہوں۔ میں بے چین بھی ہوں کہ نجانے کیا ہو کہ وہ الہام گاہ سے ابھی تک لوٹ کے نہیں آیا۔ اسے بہت دیر ہو گئی ہے۔ دیوتا جو بھی بشارت دے گا میں اس پر عمل سے دریغ نہیں کروں گا۔
کاہن: یہ برحق وعدہ ہے۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ کریون آ گیا ہے۔
ایڈیپس: اے خداوند اپالو، کریون کی خبر بھی اس کے روشن چہرے کی طرح امید افزا ہو
کاہن: یہی ہو گا، اس کے علاوہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کریون دن کا تاج پہنے ہے اور اس کی شاخ بھی بیریوں سے لدی ہے۔
ایڈیپس: ابھی جانے لیتے ہیں۔ وہ ہمارے اتنے قریب پہنچ گیا ہے کہ ہماری باتیں سن سکتا ہے۔(کریون آجاتا ہے)
کاہن: مونیکس کے فرزند، تم دیوتاؤں کی طرف سا کیا پیام لائے ہو؟
کریون:پیام سازگار ہے، ابھی تمھیں بتاتا ہوں۔ احسن کام کا انجام بھی احسن ہو گا، اگر اس پر خوبی سے عمل کیا گیا تو
ایڈیپس: پیش گوئی کیا تھی؟ تمھارے مبہم الفاظ مجھے خوف و بیم کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔
کریون: کیا تم ان سب کے سامنے اپنی خوشی سے میری بات سننا چاہتے ہو؟ میں کہنے کو تیار تو ہوں مگر تخلیہ مناسب ہو گا۔
ایڈیپس: انھیں جان لینے دو کیونکہ انھی کی مصیبت کا غم میں اٹھائے ہوئے ہوں۔
کریون: میں کہے دیتا ہوں ڈلفی کے معبد میں میں نے جو سنا، سیدھے صاف لفظوں میں۔ بات یہ ہے کہ دیوتا ہمیں حکم دیتا ہے کہ ایک پرانا گم کردہ راہ ہمارے شہر میں پناہ گزین ہے، اسے شہر بدر کر دیا جائے۔
ایڈیپس: کون ذلت نصیب؟ ہماری اس سے کیسے جان چھوٹے؟
کریون: شہربدری یا موت۔ خون کے بدلے خون کہ کسی بے گناہ کا قتل شہر پہ طاعون کی وبا لایا۔
ایڈیپس: کس کا خون؟ کیا دیوتا نے مقتول کا نام بتایا ہے؟
کریون: میرے آقا، برسوں پہلے، تمھارے یہاں آنے سے پہلے، لائیس یہاں کا بادشاہ تھا۔
ایڈیپس: میں آگاہ ہوں۔ میں نے اسے دیکھا تو نہیں لیکن اس کے بارے میں سنا ہے۔
کریون: اسے مار ڈالا گیا ہے۔ دیوتا کا فرمان ہے کہ ہم اس کے قاتل سے بدلہ لیں۔
ایڈیپس: کس سے؟ قاتل کون ہے؟ ہمیں کہاں سے سراغ ملے گا؟ ایک ایسے جرم کا پتا کیسے چلے گا جسے مرتکب ہوئے برس بیتے۔
کریون: اسی شہر میں۔ دیوتا نے کہا تھا کہ قاتل اسی شہر میں ہے۔ اگر ہم کھوج کریں تو ان باتوں کا پتا چل سکتا ہے جو ہماری نگاہ میں نہیں آ سکی تھیں۔
ایڈیپس: مجھے بتاؤ کیا لائیس، اپنے محل میں موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا؟ کسی خیمہ گاہ میں یا کسی دور دراز ملک میں؟
کریون: وہ زیارت کو عازم سفر ہوا تھا لیکن لوٹا نہیں۔
ایڈیپس: کوئی چشم دید شاہد نہیں ہے؟ کوئی ہم سفر جس نے لوٹ کر بادشاہ کی خبر دی ہو؟
کریون: نہیں اس کے سارے ہم سفر قتل ہو گئے تھے۔ صرف ایک بچا تھا لیکن وہ اس قدر دہشت زدہ تھا کہ بس صرف ایک بات ہی دھیان میں رکھ سکا۔
ایڈیپس: وہ کیا بات تھی؟ ممکن ہے کہ وہی بات اس پر اسرار قتل کا معمہ حل کرنے میں مددگار ثابت ہو؟
کریون: وہ بتاتا تھا کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کیا تھا، ان سب کو منتشر کر دیا تھا اور بادشاہ کو قتل کردیا تھا۔
ایڈیپس: عجیب، بہت ہی عجیب۔ ڈاکوؤں کا گروہ کیسے اتنا دیدہ دلیر ہوا کہ بادشاہ کو قتل کرڈالے؟ یہیں سے کسی فرد یا جماعت نے سازش کی ہے۔ ضرور کسی نے ڈاکوؤں کو مال کا لالچ دیا ہے۔
کریون: ہم نے اس بارے میں سوچا تھا مگر لائیس کے خاتمے کے بعد نئے فتنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہمیں شہر کو اس قتل کی مزید ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنا تھا تا کہ ہم دھتکارے نہ جائیں۔
ایڈیپس: کن آفات نے تمھیں قاتلوں کی تلاش سے باز رکھا؟
کریون: معمہ ساز بلی کے پراسرار گیت۔ ہم سب کچھ چھوڑ کر ان گیتوں کا بھید پانے میں جت گئے تھے۔
ایڈیپس: تو پھر مجھے تاریک کو روشنی میں لانا چاہیے۔کتنی خوش قسمتی ہے کہ اپالو ہم پر مہربان ہے۔ میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ تمھارے ساتھ ہوں۔ ہم اور اپالو دیوتا شہر کا انتقام لیں گے۔ میں کسی دور بسنے والے دوست کی طرح نہیں بلکہ اپنے لیے، شہر کے کے لیے اس برائی کا خاتمہ کروں گا۔ مجھے بتاؤ شاہ لائیس کا دشمن کون ہے؟ پچھلے بادشاہ کا قاتل تو مجھ پر بھی وار کر سکتا ہے؟ مرحوم بادشاہ کے ہتیارے سے بدلہ چکا کر میں اپنی زندگی بھی محفوظ کروں گا۔
آو میری رعایا، قربان گاہ کی سیڑھیاں خالی کر دو۔آنولے کی ٹہنیاں جھکا دو، کادموس کے تمام لوگوں کو یہاں بلاؤ۔ اپالو نے چاہا، ہم رہائی پائیں گے یا ہمیشہ کے لیے ذلت و گمراہی میں جا پڑیں گے۔
کاہن:اٹھو اے عزیزو، ہم نے بادشاہ سے اس کا قول پا لیاہے۔ اپالو نے اک نوید روانہ کی ہے۔ شاید وہ خود بھی آسمانوں سے ہماری مدد کو اترے۔ ہمیں طاعون سے آزاد کرے۔( وسطی دروازے سے ایڈیپس اور کریون نکل جاتے ہیں۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد گیت گار اور ان کے ہم نوا سازندوں کے ہمراہ سٹیج میں داخل ہوتے ہیں)
سخن عوام
ڈلفی سونے اور سایوں کی دنیا
تھیبز کے گہنائے گئے شہر کا معبد
خوف میرا حوصلہ توڑتا ہے
میرا دل اپنے قفس میں لرزاں
اے بلائیں نازل کرنے والے
عذاب کیا بادلوں کی طرح
اچانک رونما ہو گا
یا سیہ رات کی مانند آہستگی سے اپنا جال بنے گا
کہو، کہہ بھی دو
اپنی صدائے پاکیزہ میں
ہم پہ نظرکرو
ہم پہ کرم کرو
رحم اے دختر زیئس
رحم ا ے ارٹمیس
اے خواہر دختر زیئس
رحم اے ایتھینا،
اے گول بازار کے تخت کی مسند نشیں
رحم اے اپالو
فردوس کے آخری گوشے کے خدنگ آزما
اے دیوتاؤ
ہمارے دکھوں کی اگنی پر برکھا بن کر برسو
یہ آگ بہت اندھیاری ہے
کرم کرو اے دیوتاؤ
جیسے ماضی میں تم اترے تھے
میرے درماں کو
فلک کے اپنے خوشنما گھروں سے
فلک پہ بجلی، زمیں پہ باراں
اؤر دشمن رسوا ہوں
اپالو اے تیر انداز
سورج کی کماں میں سے روشنی کے تیر
ہماری بستی پہ برسا دے
اے ارٹمیس
اے شکاری خاتون
جلتی روشنیاں اٹھائے
کوہسار پہ آ
اے دیوی
اے سنہری پلکوں والوں
کوہسار پہ آ
اے تھیبس کے کے بیکس دیوتا
اجل پہ قہر بنو
لافانی نفرت کو فنا کرو
نعرہ تحسین بلند کرتے۔
جاری ہے
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.