ایڈیپس ریکس، از، سوفیکلیز ( پنجم و آخری حصہ)
ترجمہ: نصیراحمد
گلہ بان: تھیبس کے معزز شُرَفاء
کیا ہی وحشتیں تمھارے دیکھنے کو بچی ہیں؟ کیسے غم تمھیں سہنے ہوں گے جو لبڈاکوس کی نسل پر آن پڑے ہیں؟ہمارے دریاؤں کے مقدس پانی بھی ہمارے آلودہ شہر کو پاک نہیں کر سکتے؟ تم جلد ہی اس بات سے آگاہ ہو جاؤ گے کہ توہین محرم میں ارادہ بھی شامل تھا۔ اذیت دہ دکھ وہی ہوتے ہیں، جو ہم اپنے لیے بوتے ہیں۔
نمائندہ عوام: بجا کہا، اے دوست۔ ہم تو پہلے ہی سے غم زدہ ہیں، نئے دکھوں سے تیری کیا مراد ہے؟
گلہ بان: ملکہ مر گئی ہے۔
نمائندہ عوام: جوکاسٹا، مگر کس کے ہاتھوں؟
گلہ بان: اپنے ہی ہاتھوں۔ اس سانحے کی دہشت سے تم واقف نہیں ہو کیوں کہ تم نے دیکھا نہیں مگر میرا تو یہ سانحہ چشم دیدہ ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اس کا موت کا واقعہ تمھیں تفصیل سے بتا سکوں۔
جب وہ یہاں سے گئی تھی، دربار سے گزرتے ہی اس نے اپنے بال اپنے دونوں ہاتھوں میں جکڑ لیے تھے اور دوڑتے ہوئے اپنی خلوت میں گھس گئی تھی۔ اس نے دروازے مقفل کر لیے تھے۔ پھر اس بستر کے پاس وہ مر گئی جس پر بہت عرصہ پہلے اس نے اپنا یہ ہلاکت خیز بیٹا جنا تھا۔ وہ بیٹا جو اپنے باپ کا قاتل بنا۔ اس نے اپنی شادی کے دہرے پھل کو پکارا۔ یعنی وہ خاوند جو اس کے خاوند کا بیٹا تھا اور جس بیٹے سے جوکاسٹا نے مزید اولاد پائی، اس خاوند کو، اس بیٹے کو جوکاسٹا نے پکارا۔
میں صحیح طرح سے تو نہیں جانتا کہ وہ کیسے مری کیونکہ ایڈیپس سسکتے ہوئے مجھ سے پہلے دروازہ توڑ کر جوکاسٹا کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ میں ٹھیک طرح سے جوکاسٹا کی موت دیکھ نہ پایا کیونکہ ایڈیپس درمیان میں حائل ہو گیا تھا۔ وہ ایک طوفانی غصے کی لپیٹ میں تھا۔ ہم میں سے ہر ایک سے وہ شمشیر کا خواہاں تھا۔ وہ اپنی اس شریک حیات کو گالیاں دے رہا تھا جو اس کی ماں ہوتے ہوئے اپنے بطن میں ایڈیپس کے بچے پروان چڑھاتی رہی جبکہ اس کے رحم میں ایڈیپس خود بھی رہ چکا تھا۔ ہم نے تو اسے شمشیر نہیں دی مگر میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا۔ شاید دیوتا حرکت میں تھے کیونکہ اچانک ایڈیپس ایک بھیانک انداز سے چیخا۔ اپنی تمام تر دیوانگی کے ساتھ اس نے دروازوں کے پٹ اکھاڑ ڈالے اور اندر گھس گیا۔ محل کے اس راحت کدے میں ایڈیپس نے اپنی ملکہ کو چھت سے لٹکتے ہوئے دیکھا۔ ملکہ کا جسم جھول رہا تھا۔ اس کے گلے کے گرد پھندا مضبوطی سے لپٹا ہوا تھا۔ جب ایڈیپس نے ملکہ کو چھت سے اتار کر فرش پر ڈالا اور پھندے سے ملکہ کا مردہ جسم آزاد کیا تو ایڈیپس کے ہونٹوں سے ایک دلدوز جگر توڑ آہ نکلی جس کے سننے کا کانوں کو یارا نہ تھا۔ اس کے بعد جو پیش آیا وہ مجھے اپنے دماغ سے نکال دینا چاہیے تھا مگر میں تمھیں وہ سب کچھ بتا رہا ہوں۔ بادشاہ نے ملکہ کے لبادے سے جڑاؤ ہار کھینچ لیے، ملکہ کی زینت کا یہ سامان، یہ جڑاؤ ہار بادشاہ نے ہاتھوں میں اٹھائے اور سیدھے اپنی آنکھوں میں بھونک دیے اور چلایا۔
اور کچھ بھی نہیں۔ میری آنکھو، میری بے چارگی کا مزید تماشہ تم دیکھ نہ پاؤ گی کہ یہ میری کرنی کا بھرن ہے۔ تم نے وہ چہرے مجھے دکھائے جن کا دیکھنا میری بربادی بنا۔ پھر میں اس سے اندھا رہا جو میرے سامنے موجود تھا۔ پھر تمھارا کیا فائدہ؟
اس لمحے تم ہمیشہ کے لیے تاریکی میں کھو جاؤ۔ جیسے ہی ایڈیپس نے یہ کہا اس نے اپنی آنکھوں میں کئی مرتبہ نوکیلے جڑاؤ ہار پیوست کیے۔ اور خون سے اس کی داڑھی تر ہو گئی۔ آہ، وہ اس کی آنکھوں کے تباہ شدہ حلقوں سے بہتا ہوا لہو، وہ سرخ دوزخ کی طرح بہتا ہوا لہو۔ بادشاہ اور ملکہ آخرکار اس الم ناک بربادی کی پکڑ میں آ گئے۔ دونوں، مردوزن، دیوتاؤں کے معتوب بنے۔ ہائے لبڈاکوس کے شاہی خاندان کے وہ مسرت انگیز شب وروز کہاں چلے گئے؟
یہ ماتم کی گھڑی ہے۔ یہ بربادی، تذلیل اور ابدی موت کا وقت ہے۔ دیکھ تو سہی بنی نوع انسان پر نازل ہونے والی تمام مصیبتیں کیسے لبڈاکوس کے گھرانے کی تقدیر بنیں۔
نمائندہ عوام: کیا ایڈیپس اب بھی تکلیف میں ہے؟ کیا اس کے لیے کہیں بھی سکون نہیں ہے؟
گلہ بان: ادھر دیکھو، وہ کسی کو پکار رہا ہے کہ وہ اسے شہر کے دروازے تک چھوڑ آئے۔ وہ پکار رہا ہے تاکہ کادموس کی ساری اولاد اس پر حقارت آمیز، نفرت خیز نگاہیں ڈال سکے کیونکہ وہ اپنے باپ کا ہتیارا اور اپنی ماں کا قاتل ہےاور اب وہ تھیبز سے اپنا منہ کالا کرے گا۔ نہیں، مجھے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے۔
ہائے ایڈیپس کی خود ساختہ جلاوطنی تاکہ وہ اپنی قسم پوری کرتےہوئے شہر سے رخصت ہو جائے۔ اب وہ کمزور ہے اور اسے کوئی بھی راہ نہیں دکھا رہا۔ ٹھہر جاؤ، تم ابھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ دروازوں کے کھلتے ہی تم وہ نظارا تماشا کرو گے جو پتھروں کو توڑ دینے والے غم اپنے دامن میں لیے ہے۔ (صدر دروازہ کھلتا ہے اور ایڈیپس اندر لایا جاتا ہے)۔
نمائندہ عوام : یہ منظر دیکھنا تو کسی طرح بھی دہشت دیکھنے سے کم نہیں۔ میں نے تو اس سے بڑھ کر وحشت اثر منظر تو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
ایڈیپس، تجھ پر کیا دیوانگی چھائی تھی؟ اور کونسی آسمانی بلا تجھ پر نازل ہوئی تھی جس نے تجھے ایسی سزا دی جسے کوئی بھی فانی انسان سہہ نہیں سکتا؟
نہیں، اے بے چارے تباہ حال بادشاہ، میں تیری سمت دیکھ ہی نہیں سکتا۔ میں تو تجھ سے کچھ پوچھ بھی نہیں سکتا۔ تمھیں دیکھ کر ہی میرے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔
ایڈیپس: اے خدائے عظیم، اے خدائے عظیم
مجھ سے زیادہ غم گین کوئی نہیں ہے۔
اس وسیع کائنات میں میرے لیے کوئی پناہ ہے تو بتا؟ میرا حق انتخاب تو پیش گوئیوں کی تاریک آندھیاں چھین لے گئیں۔
اے میرے خدائے عظیم، تو نے میرے ساتھ کیا کرڈالا۔
نمائندہ عوام: ایک ایسا ڈراؤنا کھیل جسے نہ کوئی کھیل سکے اور نہ کوئی دیکھ سکے۔
ایڈیپس: اے رات کی سیاہ بدلیو، کہیں تم بھی منہ پھیر نہ لینا۔ رات تو اور گہری ہونے والی ہے۔ مجھے نہیں علم کہ کیسے مگر رات تو اور گہری ہونے والی ہے۔ شاید کسی سیاہ خلعت کی مانند۔ آہ، میری قسمت کی آندھیاں مجھے کہاں کھینچ لائی ہیں۔ اے خدا میرے دیدوں میں جہاں کہیں نظر کے موتی تھے وہاں سیلاب کی طرح تندوتیز درد بپا ہے۔ ہاں آنکھیں تو نکال لیں مگر یاد، اس یاد کو میں کیسے دماغ سے نکالوں۔
نمائندہ عوام: یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب کوئی دہرے دکھ سے گزرتا ہے۔ تکلیف میں پچھتاوا اور پچھتاوے میں تکلیف۔
ایڈیپس: ہاں، اے عزیز۔ کیا تم اب بھی میرے وفادار ہو؟کیا تم میرے قریب ٹھہرنا گوارا کرو گے؟ایک اندھے شخص کا خیال رکھو گے؟اندھا تو ہو گیا ہوں مگر تمھیں تمھاری آؤاز کے انداز سے پہچان گیا ہوں اگر چہ میری ظلمت نو میرے غم گسار کا چہرہ چھپا چکی ہے۔
نمائندہ عوام: کتنا دل دہلا دینے والا المیہ ہے؟یہ تو بتا کس دیوتا نے تجھے آنکھیں پھوڑ لینے پر مجبور کیا؟
ایڈیپس: اپالو، میری رعایا، اپالو، وہی تو میری مجروح تقدیر کا مالک ہے۔ مگر اپنی نابینائی کا ذمہ دار میں خود ہوں۔ ہر نظارہ ہر کہیں دہشت سے بھرپور تھا مجھ میں کچھ بھی دیکھنے کی ہمت ہی نہیں رہی۔
نمائندہ عوام: دہشت سے بھرپور، ہر کہیں۔ ہاں تو نے سچ کہا۔
ایڈیپس: اور اب باقی کیا بچا ہے؟تصورات؟ محبت؟ روح و دل کے لیے کوئی شیریں پیغام؟ کیا ان میں کچھ باقی بچا ہے؟دوستو، مجھے شہر سے باہر گھسیٹ لے جاؤ، شہر سے بہت دور۔ پامال ایڈیپس کو در بہ در کردو جسے دیوتا لائق نفرت جانتے ہیں۔
نمائندہ عوام: تمھارا انجام واضح ہے۔ تم اس سے واقف ہو۔ کاش تم کسی کو کچھ بھی بتا نہ سکو۔
ایڈیپس: اجل گھیرے اس شخص کو جس نے پہاڑیوں کے نزدیک میرے پیروں کی رسیاں کھول دیں۔ اور مجھے موت سے زندگی کی طرف لے آیا۔ مگر یہ کیسی زندگی ہے؟اگر میں مرجاتا، کم از کم اس عفریت عذاب کا بار میرے پیاروں کو تو نہ اٹھانا پڑتا۔
نمائندہ عوام: کاش ایسے ہی ہوتا۔
ایڈیپس: آہ، اپنے باپ کے لہو سے رنگے ہاتھوں کو لے کر میں یہاں نہ آتا، اپنی ماں کا شوہر بننے کے لیے۔ کاش میں یہاں کبھی نہ آتا۔ اے داغ توہین حرم شاہی، اے بدی کے بیٹے کاش تو اس مکروہ بستر میں داخل نہ ہوتا جہاں تو خود پیدا ہوا تھا۔
یہ تو گناہ سے بھی وحشیانہ اذیت ہے جو میں سہہ رہا ہوں۔
نمائندہ عوام: میری تو سمجھ ہی گڑبڑا گئی ہے کہ تجھے کیا تسلی دوں؟ مگر مر جانا ہی تیرے حق میں بہتر تھا نہ کہ زندہ رہ کر اندھی زندگی بسر کرنا۔
ایڈیپس: مجھے مزید مشورے نہ دو۔ جو سزا میں نے اپنے آپ کو دی ہے، منصفانہ ہے۔ میں بیت اجل میں اپنے باپ کی شکل کیسے دیکھ پاتا اگر میری آنکھیں سلامت رہتیں۔ یا اپنی ماں کی صورت کیسے سہہ پاتا کہ میں نے دونوں کو گناہ آلود کر دیا ہے۔ ہائے میں نے ان کے ساتھ کتنی شقاوت برتی۔
اگر میں اپنی زندگی کا گلا دبا دیتا، تب بھی مجھے چین نہ پڑتا۔ کیا میرے بچے میرے لیے باعث تسکین رہتے؟ نہیں، کبھی نہیں۔ نہ ہی بلند دیواروں والا یہ شہر اور نہ ہی دیوتاؤں کی مقدس شبیہیں مجھے قرار دے پاتیں۔
کیونکہ میں سہہ بار آفت زدہ ایڈیپس، کادموس کے شجرے کا سب سے زیادہ معزز مرد، ان تمام چیزوں کے لطف و لذت سے خود کو محروم کرتا ہوں۔ اور اپنے فرمان کے مطابق اس شخص کو شہر بدر کرتا ہوں جو شہر کے لیے ذلت اور بے چارگی کا باعث ہے۔ اپنے جرم کی پراگندگی کا پول کھلنے کے بعد میں کیسے انسانوں کو دیدہ دلیری سے دیکھ سکتا تھا، اس لیے میں نے اپنی آنکھیں چھین لیں۔ میں قسم کھاتا ہوں، اگر میں اپنے منبع سماعت کو اکھاڑنے پر قادر ہوتا تو کب کا اکھاڑ چکا ہوتا اور اس تن کو نورو آہنگ سے محروم بے کسی کا ایک زندان بنا دیتا تاکہ اس سیاہ ابتلا میں خود کو میں تمام یاداشتوں اور بازگشتوں سے محفوظ رکھ سکوں۔
آہ اے کتھاریون، تو نے مجھے کیوں پناہ دی؟جب میں تیرے دامن میں پڑا تھا تو موت سے آشکار کیوں نہ ہوا؟اگر ایسا ہوجاتا تو دنیا میرے ناپاک وجود کو جان بھی نہ سکتی۔
اے پولی بس، اے شہر کورنتھ جسے میں اپنے باپ دادا کی بستی جانتا تھا اور جس کی اولاد میں سمجھا جاتا تھا ہر چند کہ میری سلطانی اذیت میرے ساتھ تھی، میں بیمار ہوں، روز کے معمولات میں بیمار، اپنے آغاز میں بیمار۔
اے تین راستو، اے تاریک وادی، اے جنگل، اے راہ جہاں تین سڑکیں ملتی ہیں تم میرے اپنے ہی ہاتھ سے میرے باپ کا لہو پی گئے۔ کیا تمھیں وہ ناقابل بیان حادثہ یاد ہے؟
اے رشتہ ازدواج، اے شادی، وہ شادی جس نے مجھے جنم دیا اور جس نے میرے بچے جنے۔
ہائے دام توہین محرمات، اس دام میں باپ، بھائی، بیٹے، عروس خوش جمال اور شریک حیات سب پھنس گئے۔ ظلم و ذلت سے بھرپور ایک ایسی برائی زبانیں جس کاذکر کرتے ہوئے شرماتی ہیں۔
خدائے عظیم کے صدقے، مجھے تھیبز سے دور لے جاؤ یا مجھے مار ڈالو یا سمندر میں پھینک دو۔ مجھے نسل انسانی کی نظروں سے پرے لے جاؤ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ آؤ مجھے راستہ دکھاؤ۔ ڈرو مت، میری بدی کا عذاب صرف مجھی پر پڑے گا۔
(کریون آتا ہے)۔
نمائندہ عوام: ہمیں فیصلوں کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ مگر کریون شاید تمھاری خواہش پوری کر سکے۔ تمھارے بعد شہر کی حفاظت کریون ہی کر سکتا ہے۔
کریون: ایڈیپس، میں تمھارا یہاں تمسخر اڑانے نہیں آیا۔ اور تمھیں احساس ندامت سے دوچار کرنا میری منشا نہیں ہے۔
(خدام سے)
اگر تمھیں انسان کی عزت کا ذرا بھی لحاظ ہے کم ازکم اپالو کے مقدس الاؤ کا تو احترام کرو۔ اس آلودگی کو لوگوں کی نظروں میں تو نہ آنے دو۔ روز روشن، زمین اور پرلی دنیا کو اس داغدار گناہ سے تو بچاؤ۔ جس قدر جلد ممکن ایڈیپس کو محل کے اندر لے جاؤ۔ یہی مناسب ہے کہ اقربا ہی اس کا دکھ دیکھ سکیں۔
ایڈیپس: میں تمھیں دیوتا کا واسطہ دیتا ہوں۔ تمھاری خوش نیتی میرے جرم سے چشم پوشی کا باعث بن جائے گی۔ تم کیوں ایک راندہ معبود گاہ پر اپنے کرم کی برسات برسانا چاہتے ہو؟ تم میری بہتری کا دھیان چھوڑو۔ اپنی اور شہر کی بھلائی کا سوچو۔
کریون: تمھارے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں شہر سے تمھیں کب کا نکال چکا ہوتا مگر دیوتا کی رضا مجھ پر مکمل طور پر ابھی تک منکشف نہیں ہوئی۔
ایڈیپس: مگر دیوتا کا حکم صاف ہے کہ اپنے باپ کے قاتل کو تباہ و برباد کر دیا جائے۔ اور میں ہی وہ تیرہ بخت قاتل ہوں۔
کریون: یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر کچھ اور چیزیں اس طرح الجھی ہیں کہ ہمیں غوروفکر کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔
ایڈیپس: تم مجھ جیسے خستہ حال شخص کے بارے میں مزید کیا جاننا چاہتے ہو؟
کریون: تم اب دیوتاؤں کے احکام سمجھنے لگے ہو۔
ایڈیپس: سن رہا ہوں، سب کچھ سن لوں گا۔ میں تم سے مدد کا طلب گار ہوں۔ تمھاری منت سماجت کرتا ہوں میری بات مان لو۔ خاتون یہیں ہے اور تم جس طرح چاہو اسے دفنا دو کیونکہ وہ تمھاری ہمشیر ہے مگر کریون مجھے جانے دو۔
مجھے میرے باپ کے تھیبز کو کثافت سے آزاد کر لینے دو۔ میرے وجود کی غلاظت سے میرے باپ کا تھیبز دھو ڈالو۔ مجھے ان وحشی پہاڑیوں کی طرف نکل جانے دو جنھوں نے میری وجہ سے شہرت پائی ہے۔ میرے ماں باپ نے وہی پہاڑیاں ہی تو میری لحد کے لیے مقرر کی تھیں۔ مجھے وہیں مر کھپ جانے دو، جیسے میرے ماں باپ نے چاہا تھا۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ مجھے علالت یا کسی اور طبعی طریقے سے موت نہیں آئے گی۔ میں جس ناقابل تصور انجام کے لیے زندہ ہوں، اسے ہونے دو۔
جہاں تک میرے بیٹوں کا معاملہ ہے، تمھیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ وہ مرد بچے ہیں جینے کا کوئی بہانہ تراش لیں گے۔ مگر میری بے ہمت بیٹیاں، میرے ساتھ جو کھانے کی میز پر بیٹھتی تھیں اور جو کبھی اپنے باپ سے جدا نہیں ہوئیں، ان کا خیال رکھنا۔ کریون میرے لیے ان کا دھیان رکھنا۔ مجھے اجازت دو کہ میں اپنی بیٹیوں کو آخری بار چھو لوں، اپنے ہاتھوں میں ان کی خوشبو بسا لوں۔ ہم آخری مرتبہ اکٹھے رو تو لیں۔
کریون، تم میرے بادشاہ ہو، میرے آقا ہو۔ اے عظیم شہزادے، دو ایک پل انھیں میرے قریب آ جانے دو جیسے وہ میرے قریب ہوتی تھیں، جب میری بینائی سلامت تھی۔
(اینٹی گون اور ایسمینی داخل ہوتی ہیں)
کیا یہی میرے جگر کے ٹکڑے ہیں جن کی ماتم و فغان میں سن رہا ہو۔ کیا کریون کو مجھ پر رحم آ گیا کہ اس نے مجھے میری بیٹیوں سے ملوا دیا۔
کریون: ہاں، ایڈیپس، وہ ماضی میں تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔ آج تمھاری آنکھیں تو نہ رہیں مگر مجھے علم ہے کہ تمھیں تمھاری بیٹیاں آج بھی عزیز ہیں۔
ایڈیپس: دیوتا تم پر رحمت کی برسات کر دے اور مجھ سے کہیں زیادہ تم پر مہربان ہو۔ یہاں آؤ، میرے بچو، میرے ہاتھوں کی سمت تیزی سے آؤ۔ یہ تمھارے بھائی کے ہاتھ ہیں جنھوں نے تمھارے باپ کو ہاتھوں سے دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ہاں میرے عزیز ترین بچو۔
نہ تو مجھے خبر تھی، نہ ہی علم تھا کہ تمھارا باپ اسی کوکھ سے تمھارے جنم کا مجرم ہے جہاں سے اس نے خود زندگی پائی تھی۔ میں تمھارے لیے اشک بار ہوں کہ اذیت تا حیات تمھاری ہم سفر رہے گی۔ تم جس گھر میں بہر تقریب جاؤ گے، آنکھوں میں آنسو لیے تمھیں وہاں سے رخصت ہونا پڑے گا۔ جب تم شادی کی عمروں تک پہنچو گے تو کون اس مقاطعے کو توڑنے کی ہمت کرے گا جو تقدیر نے تمھارے لیے قائم کر دیا ہے۔
کون برائی کا طلب گار ہوتا ہے؟ تمھارا باپ اپنے باپ کا قاتل ہے۔ اس زمین کو کاشت کرنے کا مجرم ہے جس سے اس نے خود نمو پائی۔ اس چشمے سے تمھاری آبیاری کی جو اس کے وجود کی پرورش کا سبب تھا۔ لوگ یہی باتیں تم سے کہتے رہیں گے۔ کون تم سے شادی کا آرزومند ہوگا؟
تمھارے لیے کہیں بھی دلہے نہیں ہیں اور تمھاری زندگیاں تلخ ترین خوابوں کے عذاب سہتی رہیں گی۔
کریون، مونیکس کے بیٹے، تم ہی میری بچیوں کے والد ہو کیونکہ ان کے ماں باپ ہمیشہ کے لیے کھو گئے ہیں، مٹ گئے ہیں۔ یہ بھی تمھارا لہو ہیں اور میں توقع رکھتا ہوں کہ تم انھیں ہاتھ پھیلانے نہیں دو گے، انھیں تنہا نہیں چھوڑو گے۔ تم انھیں مجھ سے وابستہ بدنامی سے بچا لو گے۔ ان پر ترس کھاؤ، ان کم سنوں کا تمھارے سوا کوئی مددگار نہیں ہے۔ مجھ سے وعدہ کرو اور ثبوت کے طور پر اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو۔
( کریون ایڈیپس کا دایاں ہاتھ تھام لیتا ہے)
میرے بچو کہنے کو داستان ختم ہو گئی مگر دعا کرتا ہوں کہ سدا خوش رہو اور مجھ سے کہیں زیادہ مسرتیں تمھارا نصیب ہوں۔
کریون: بس تم بہت رو چکے۔ اب چلنے کا وقت آ گیا ہے۔
ایڈیپس: ہاں جانا ہی ہو گا۔ مگر جانا اتنا آسان بھی تو نہیں۔
کریون: وقت زخم بھر دیتا ہے۔
ایڈیپس: مگر تمھیں ایک وعدہ کرنا پڑے گا۔
کریون: اپنی خواہش بتاؤ۔
ایڈیپس: مجھے تھیبز سے بہت دور بھیج دو۔
کریون: خدا مجھے اتنی ہمت تو عطا فرمائے۔
ایڈیپس: مگر خدا تو مجھ سے نالاں ہے۔
کریون: نہیں، وہ تمھاری التجا سنے گا۔
ایڈیپس: مگر تمھارا وعدہ؟
کریون: میں اپنے محدود علم کی حدیں نہیں پار کر سکتا۔
ایڈیپس: تو مجھے جانے دو۔
کریون: اچھا اب آؤ اور اپنے بچوں سے رخصت لو۔
ایڈیپس: خدا کے لیے، انھیں مجھ سے دور مت لے جاؤ۔
کریون: زیادہ تامل نہ کرو، تم یہاں پر حکم دینے کا مرتبہ کھو چکے۔ بلکہ غوروفکر کرو کہ جب تم تخت افروز تھے تب تم نے اپنی تباہی کا سامان کیسے کیا تھا؟
(سب چلے جاتے ہیں لوگوں اور نمائندہ عوام کے سوا)
نمائندہ عوام: تھیبز کے لوگو، ایڈیپس کے انجام کی طرف نظر کرو۔ یہ وہ بادشاہ ہے جس نے وہ مشہور معما حل کیا تھا۔ اور انسانوں میں ایک بلند مینار کی عظمت و جبروت کی علامت بن کر ایستادہ تھا۔ نگاہوں میں ایڈیپس کے رشک و احترام کے سوا کچھ نہ تھا۔ مگر اخیر میں اس پر بربادی نازل ہوئی۔
ناتواں انسانیت کے لیے اس کے آخریں ایام عبرت کی درس گاہ ہیں۔ انسان کو اپنی خوش طالعی پر نازاں نہیں ہونا چاہیے، جب تک اس کی زندگی موت سے ہم آغوش نہیں ہو جاتی۔
آخری وقت تک،کوئی درد سہے بغیر۔
ختم شد۔