بوڑھا فوٹوگرافر اسلام آباد کے بِیتے دنوں کو یاد کرتا ہے
از، زاہد یعقوب عامر
برطانیہ کے مشرقی حصے میں ایک بہت مشہور علاقہ “کانسٹیبل کنٹری” کہلاتا ہے۔ اس علاقے کا اصل نام “ڈیڈم ویلے” ہے۔ 1776 کو اس علاقے میں ایک معروف مصور جان کانسٹیبل نے جنم لیا اور پھر وہ تاریخ میں برطانیہ کا عظیم رومانوی مصور کہلایا۔ جان کانسٹیبل نے اس علاقے کی خوبصورت پینٹینگز بنائیں۔ اسے بہت عزت اور پذیرائی ملی۔ اسے برطانیہ سے ہٹ کر پوری دنیا میں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ مگر جان کانسٹیبل اپنی زندگی کے باون سالوں تک کبھی خوشحال نہ ہوا۔ اسے 1929 میں رائل اکیڈمی کے لیے منتخب کرلیا گیا اور پھر اس کے دن پھرنا شروع ہوئے۔
جان کی تخلیقات کو نمائشوں کے لیے رکھا گیا۔ اسے مراعات دی گئیں اور پھر اپنی زندگی کے معروف چھ سالوں کے بعد جان کانسٹیبل انتقال کر گیا۔ جان کانسٹیبل کی کہانی یہیں ختم یا دفن نہیں ہوتی۔۔۔ برطانوی قدر دانوں نے ڈیڈم ویلے کو کانسٹیبل کنٹری کے نام سے موسوم کیا۔ اور سب سے اہم بات کہ انہوں نے اس علاقے کے خوبصورت مناظر کو کانسٹیبل کی تصاویر کی طرح محفوظ کرلیا۔ وہ مناظر جن کو کانسٹیبل نے اپنے برش اور قلم کے ساتھ تصاویر کی شکل دی انہوں نے کوشش کی کہ وہ کئی سو سال کے بعد بھی اسی طرح محفوظ رہیں۔ وہ لینڈ سکیپ کبھی وہاں سے ہٹائے نہیں گئے۔ وہ مناظر تباہ نہیں کیے گئے۔ وہاں کے ندی نالے، درخت، مکانات اور بہت سے اہم مقامات آج بھی کانسٹیبل کی تصاویر طرح محفوظ ہیں۔
اور پھر منظر بدلتا ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ شکرپڑیاں کے مقام پر اہم سرکاری مہمانوں کے لگائے درختوں کے پاس کھڑا ہوں۔ مجھے اسلام آباد اپنی تمام رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ ایسے میں مجھے ایک بوڑھا فوٹوگرافر نظر آتا ہے۔ میں اسے کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ میرے قریب آتا ہے۔ وہ مجھے ایک تصویر لہرا کر تصویر بنوانے کا کہتا ہے۔ میں اسے اپنا موبایل فون لہرا کر احساس دلاتا ہوں کہ میں اب اپنی تصویر خود بنا سکتا ہوں۔ اچانک اس کی طرف دیکھ کر میں پوچھتا ہوں کہ چاچا آپ بہت عرصے سے یہاں فوٹو گرافی کر رہے ہیں، آپ کو کتنا عرصہ ہوگیا ہے۔ وہ بزرگ زیادہ سوچے بنا کہتا ہے بیٹا، سنتالیس برس!
مجھے لگا میں نے اس شخص کو اپنا موبائل دکھا کر اس کی توہین کی ہے۔ وہ تو ہمارے لیے ہمارا جان کانسٹیبل ہے، وہ تو اس سادہ سے معاشرے کا ”لینارڈو“ یا ”پکاسو“ ہے۔ اس نے کتنے لوگوں، خاندانوں کی خوبصورت یادوں کو تصاویر میں محفوظ کیا ہوگا۔ اس کی سادگی اس کے چہرے سے عیاں تھی، وہ ایسے پارکوں میں بیٹھے لٹیروں کی مانند بالکل بھی نہیں تھا۔ میں نے اسے میری فیملی کی تصویر بنانے کا کہا۔ اس نے واقعی میرے خاندان کے ان لمحات کو ایک خوبصورت تصویر میں محفوظ کر دیا تھا۔ وہ نیچے کسی دکان میں رکھے پرنٹر سے پرنٹ لے آیا۔ میں نے اس کی سینتالیس سالہ خدمات کاسوچ کر اسے زیادہ پیسے دینا چاہے۔
میرے لیے بہت حیران کن تھا کہ اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ بولا کہ بیٹا، تم نے مجھے قدر دی ہے، میری خدمات کو قدر دی ہے۔ میرے لیے پیسے معانی نہیں رکھتے، میرے لیے میرے سینتالیس سال معانی رکھتے ہیں۔ یہ درخت میرے سامنے بڑے ہوئے ہیں، میں نے سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد، کشمیر، بلتستان کے لوگوں کو یہاں آکر خوش ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے محبت بھرے دلوں کو یہاں چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرتے دیکھا ہے۔ میں نے حکمرانوں اور عالمی لیڈرز کو یہاں درخت، پودے لگاتے دیکھا ہے، میں نے اسلام آباد کی اس پہاڑی سے درختوں، مناظر، اور خوبصورتیوں کا قتل عام دیکھا ہے۔ مجھے یہاں کے پرندوں سے بھی انسیت ہے۔
حاجی الیاس کہے جا رہا تھا، میں سنے جا رہا تھا۔ اور میں الوداعی الفاظ کے بعد آگے بڑھنے لگا تو اس نے مجھے روکا۔ بیٹا، آپ پھر پتا نہں واپس آئیں یا نہ آئیں، کبھی دوبارہ ملاقات ہو یا نہ ہو۔ میں آپ کی ایک اور تصویر بناتا ہوں۔ ہم پورے خاندان کو ایک مخصوص جگہ پر کھڑا کیا اور ڈیجیٹل کیمرے کے ساتھ بنائی تصویر کو لیے دوبارہ پرنٹ کرنے چلا گیا۔ واپسی پر ایک بڑے سائز میں تصویر تھامی ہوئی تھی۔ مجھے تھمائی۔ میں نے بہت اصرار کیا مگر اس نے پیسے نہیں لیے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ بس یہی کہہ رہا تھا کہ آپ نے مجھے عزت دی ہے۔
میں اسے گلے لگا کر آگے بڑھنے لگا۔ میں نے بڑے بیورکریٹک انداز میں کہا۔ چاچا میرا نمبر رکھ لیں، کبھی میرے لائق کوئی خدمت ہوتو ضرور بتائیے گا۔ وہ زیرلب مسکرایا اور کہا: بیٹا، اس کی ضرورت نہیں ہے، کبھی موقع ملے تو ملنے آجائیے گا۔
میں گاڑی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ چھوٹے چھوٹے روزگار کے ساتھ کتنے بڑے بڑے لوگ اس دنیا میں بستے ہیں۔ کتنے اہم لوگ ہماری زندگیوں کا حصہ ہیں۔ کیسے تاریخ ساز افراد ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ دوربینوں سے لے کر کالے سفید کیمرے اور اب ڈیجیٹل کیمروں کے ساتھ اپنی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔
ایسے لوگوں کی قدر کریں، شکرپڑیاں جائیں تو حاجی الیاس سے ضرور ملیں، اسے احساس دلائیں کہ تم معاشرے کا اہم حصہ ہو، اپنے اردگر تیس، چالیس، پچاس سالوں سے صفائی کرتے، گلیوں میں چیزیں بیچتے، اپنے سکولوں، سٹاپوں پہ چھوٹی چھوٹی دکانیں سجائے بزرگوں کو عزت دیں، وہ بہت پیار اور دعائیں دیں گے۔ یقین مانیں، ہم کوئی طرم خان نہیں ہیں۔ یہ دعائیں ہیں جو ہمیں سنبھالے پھرتی ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.