ایک ہی سیاسی پارٹی
ڈاکٹر شاہ محمد مری
ٹی وی چینلوں کی طرف سے نواز شریف اور اداروں کے بیچ شکر رنجی کے بارے میں مغز خوری کی حد تک غلغلہ کیا گیا۔ اور اینکر و تبصرہ نگار حضرات و خواتین دو ’’کیمپوں‘‘ میں بٹ جانے کا تاثر دیتے رہے۔ کچھ نے نواز شریف کو عقل و فہم اور کامن سینس کے لیے اجل قرار دیا، اور کچھ نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو نجات کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے خود کو، اور نواز شریف کو خیر کا آخری سہارا قرار دیا۔
چونکہ تیسری آواز موجود نہیں اس لیے پوری آبادی اس ذہنی ہڑا دھڑی میں جکڑی رہی۔ بنیادی طور پر ’’دایاں‘‘ بازو اور ’’بایاں‘‘ بازو دونوں کیپٹلزم کے نظام کے وضع کردہ ٹرم ہیں، اور اُسی استحصالی نظام کو سہارا دینے والے ستون ہیں۔ اور یہ سب سماج میں کسی بنیادی تبدیلی کے رونما ہونے کی سخت مزاحمت کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو چند کونوں کھدروں کو چھوڑ کر بقیہ پوری دنیا میں بس ایک ہی سیاسی پارٹی کی حکمرانی ہے : دائیں بازو کی سیاسی پارٹی کی۔ دائیں بازو کی پارٹی وہ ہوتی ہے جو سماج کو آگے لے جانے کے بجائے اُسے جوں کا توں رکھنے کی کوشش کرے۔ جو ظلم و استحصال کو جائز ثابت کرتی رہے۔ جو رویوں پالیسیوں میں رجعت پسند ہو، جو روایت پرستی کا جھنڈا سر بلند رکھے اور ترقی کی قوتوں کا گلا گھونٹتی رہے۔
دائیں بازو کی پارٹی کی مختلف شکلیں، صورتیں ہیں۔ اور اس کے بے شمارذیلی طفیلی بچے بچونگڑے ہیں۔ مگر وہ سب کے سب ایک ہی ماں کے بچے ہیں۔ امریکہ میں اِس دائیں بازو کی دو پارٹیاں ہیں: ڈیموکریٹک اور رپبلکن ، برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر ، جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی۔ فرانس میں سوشلسٹ پارٹی، ہندوستان میں بی جے پی اور کانگریس۔
اسی طرح پاکستان میں اِس دائیں بازو کی تین پارٹیاں ہیں: بھٹوکی پیپلز پارٹی ،نواز کی مسلم لیگ، اور عمران کی تحریک انصاف۔ ان تین بازوؤں کے مزید چھوٹے چھوٹے علاقائی، صوبائی یافکری بازو ہیں۔ کوئی سیاست میں زور زبردستی کرنے کو جائز سمجھتا ہے، کوئی ووٹ الیکشن پر یقین جتلاتا ہے، کوئی ملک یا اُس کے ایک ٹکڑے میں تارے توڑ کر لانا چاہتا ہے، اور کوئی چچنیا، دھلی اور کابل سمیت ساری دنیا پہ جھنڈے گاڑنے کی باتیں کرتا ہے۔ یوں اِس وقت جتنی بھی سیاسی پارٹیاں پاکستان میں ہیں وہ سب اپنے ’’بڑے بڑے‘‘ اختلافات کے باوجود دائیں بازو کی پارٹیاں ہیں۔ سرمایہ دار، فیوڈل اور قبل از فیوڈل نظام کو بر قرار رکھنے کے معاملے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
یعنی دائیں بازو کی ایک ہی سیاسی جماعت کے کئی دائیں بازو ہیں۔ کچھ توبہت زیادہ دائیں بازو ہیں، کچھ ’’محض‘‘ زیادہ، کچھ ’’درمیانہ‘‘، کچھ کم اور کچھ ’’بہت کم‘‘ دائیں بازو ۔ یعنی اس دائیں بازو کے ڈار کے اندر فاختہ سے لے کر باز اورعقاب تک سارے شیڈموجود ہیں۔
لیکن یہ بہرحال ہیں سب کی سب دائیں بازو کی پارٹیاں۔ اسی دائیں بازو کے بے شمار دانشور ہیں۔ کچھ کو لبرل کہتے ہیں، کچھ کو سیکولر، کچھ کو بنیاد پرست۔ کچھ خود کو ایتھیسٹ کہتے ہیں، کچھ اگناسٹک، کچھ جمہوریت نواز ہیں اور کچھ مارشل لاء والے۔ اور کچھ بنا تنظیمی اور فکری شناخت کے ایسے لال بجھکڑ دانشور ہیں جو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ دائیں بازو کی مالکی بھی کرتے ہیں، اور اُسی اعتماد کے ساتھ خود کو انقلاب، آزادی، گوریلا گیری اورعقلِ کل کی ایجنسی کا مالک قرار دے کر باقی ساری دنیا پہ تنقید کیے رہتے ہیں۔
سارے ٹی وی چینل اسی دائیں بازو کے ہیں۔ جیو، اے آر وائی، دنیا، ایکسپریس… سب کے مالکان کی کروڑ پتی گیری اسی دائیں بازو کی خدمت و اطاعت کے طفیل ہے۔ اُن چینلوں میں موجود بڑے بڑے اینکر و علامہ لوگ لاکھوں روپے ماہانہ لے کر اِس بالائی رجعتی دائیں بازو کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ اِن کی ٹائیاں، عینکیں، گھڑیاں اور کار موٹریں سب اسی دائیں بازو کی پارٹی کی خدمت کا معاوضہ ہیں۔
ان کا فریضہ محض یہ ہے کہ وہ سماج کے کسی بنیادی تضاد کو چینل کے قریب پھٹکنے نہ دیں۔ اور عام فضول فروعی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بریکنگ نیوز کی صورت عطا کرتے ہیں۔ اصل مسائل کو منظرِ عام پہ نہ آنے دینے والے بڑے دانشور!
اسی طرح سارے اخبار ، سارے ریڈیو اور سارے ادارے، یعنی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اسی واحد دائیں بازو کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی اور بازو اِس ملک میں موجود نہیں۔ کوئی اور بازو پوری دنیا میں موثر انداز میں موجود نہیں۔
بشکریہ: سنگت اکیڈمی