محض وجود حقیقی ہے
از، ابو بکر
دور دراز کسی سیارے پر ایک چالاک دوپایے نے ”جاننا” ایجاد کیا اور چند دن اس پر اتراتا پھرا۔ مگر پھر کائنات نے کروٹ بدلی، اس عیار جان ور کو اس کے سیارے سمیت برباد کر دیا اور کسی شے پر مطلق فرق نہ پڑا (ماخوذ)
محض وجود حقیقی ہے اور اس کے سوا کچھ حقیقت نہیں۔ شعور ایک حادثہ ہے اور علم اس حادثے کا ضمنی نتیجہ۔ خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب شعور علم کے معروض کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے اور اسی من گھڑت حقیقت پر اپنی بالا دست رسائی کو وجود پر فوقیت کا نام دیتا ہے۔ یوں کائنات کے بیچوں بیچ ایک فرضی کائنات سامنے آتی ہے جس کی حقیقت وہم کے سوا کچھ نہیں۔
یہاں شعور ایک اور چال چلتا ہے۔ وہ اپنے وہم پر یقین لا کر اسے حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ شعور کے جملہ افعال اسی یقین کی پیداوار ہیں۔ شعور وجود کے مقابل ایک شرک ہے اور اس کے حقائق وہ بت جنھیں وہ اپنے ہاتھوں گھڑتا ہے اور علم اس بت پر ایمان کا نام ہے۔
لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اس سے کسی شے پر مطلق فرق نہیں پڑتا۔ محض وجود حقیقت ہے جو علم اور شعور سے نہایت ارفَع ہے۔ اسے یہ جاننے کی ضرورت بھی نہیں کہ اس کے سوا کچھ حقیقت نہیں۔
اس انتہائی سطح پر علم اور وہم، موجود اور موہوم، مظاہر اور جادو میں کچھ فرق نہیں رہتا۔ شعور اپنی انتہا میں شعبدہ گری اور چال بازی کے سوا کچھ نہیں۔ غور کیجیے تو جادوگر کا تماشا بھی اپنی happening میں حقیقت ہی ہوتا ہے اور محض کسی بَر تر سطح سے دیکھنے پر ہی اس کی حقیقت کھلتی ہے۔
لیکن شعور خود اپنے آپ کو ایسی کسی بَر تر سطح پر جا کر دیکھنے سے قاصر ہے۔ وہ ایسا جادوگر ہے جس کی یاد داشت گُم ہو چکی ہو۔ اب اسے کون احساس دلائے کہ اس کا تماشا حقیقت میں کیا ہے اور خود حقیقت کیا تماشا ہے۔
لیکن شعور محض معذور یا حافظے سے عاری کوئی بے چارہ مریض بھی نہیں۔ شعور در اصل ایک شاطر جواری ہے جس کا مسلک عیاری و مفاد پرستی ہے۔ وہ محض تماشا نہیں دکھانا چاہتا بَل کہ تماشا گاہ اور تماشائیوں پر بھی غلبہ پانا چاہتا ہے۔
اسی مقام پر وہ وجود کے مقابلے میں اترتا ہے اور اپنی رسیاں سانپ بنا کر پھینکتا ہے۔ لیکن ہر فرعون کی طرح اس کا موسیٰ بھی وجود ہے۔ شعور کی یہ رسیاں وجود کا اژدھا نگل جاتا ہے اور حسبِ روایت، کسی شئے پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔
عقلیت پسندی یہی جادو ہے جو عصائے موسوی کے سامنے آزمایا جاتا ہے۔ اُلوہیّت بھی سِحَر کے سِوا کچھ نہیں مگر وہ اپنا حافظہ بِالرَّضا ترک کر دیتی ہے۔ عقلیت نرا جادو ہے جس کے کرنے والے اس کی حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی محض اس لیے اسے آزماتے ہیں کہ دیکھنے والی آنکھ ان کے حق میں گواہی دینے کو تیار رہتی ہے۔
اس سے وجود کا اژدھا تو پسپا نہیں ہوتا لیکن جادوگر اور اس کے تماش بِین باہمی اطمینان کی فضا پیدا کر لیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی، ایسی فضا سے کسی شئے پر کیا فرق پڑتا ہے۔
سب سے بھیانک چور وہ ہے جو خود چوکی دار کے بطن سے برآمد ہو۔ شعور جب وجود کو خود سے خارج پاتا ہے تو خود اپنے تصورات کو وجود سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے انسانوں نے خدا اپنی صورت پر بنائے ہیں ویسے ہی شعور کائنات اور وجود کو اپنی صورت پر تصور کرنے لگتا ہے۔
تصور کے اسی لمحے شعور خود میں تعقل کا نُطفہ داخل کرتا ہے، لیکن ایسے حمل سے اولاد کہاں ہو۔ محض پیٹ پھولا رہتا ہے۔
شعور اپنے ہی رِحم میں خود اپنا نُطفہ داخل کرتا ہے اور یہ سب بھی محض تصور میں ہوتا ہے: ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔ عقلیت، شعور کی مُشت زنی ہے۔ اب وہ سوچ ہی سوچ ہے۔ اپنا کنبہ جتنا بڑھا لے، رہتا تنہا ہی ہے۔
الُوہیت اور عقلیت جیسا کہ عرض کیا دونوں ہی جادو ہیں مگر عقلیت ان میں کالا جادو ہے کیوں کہ اسے اپنی پراگندگی سدا یاد رہتی ہے۔ افلاطون سے لے کر ہِیگل تک کا سفر در اصل کالے جادو کے مکمل غلبے کی کہانی ہے۔
عقلیت آہستہ آہستہ الوہیت سے دور ہوتی ہے اور ہیگل پر آ کر بالکل دوسرے کنارے پہنچ جاتی ہے، یہاں وہ خود اپنے آپ کو ہی الوہیت قرار دیتی ہے۔ جادو اس کے سوا کیا ہے، ایک شئے وہ شئے ہونے کا دھوکا پیدا کرے کہ جو وہ نہیں ہے۔ اس مقام پر عقلیت کا مکَر اس قدر شدید ہے کہ تضاد میں اکائی دکھانے پر مُصر ہوتی ہے حالاں کہ وہ خود تضاد اور اکائی کو الگ الگ طے کر کے اس مقام پر پہنچتی ہے۔
آدمی بدن ہے اور سر اس کا ایک عُضو جو گردن کی بے گار پر کھڑا ہوتا ہے۔
تصور یعنی آئیڈیا کا کوئی بدن نہیں ہوتا۔ عقلیت محض مَنتر پھونک کر بدن کو تصور اور تصور کو سانس لیتی روح میں بدلنا چاہتی ہے۔ وہ سر دھڑ کی بازی لگاتی ہے کہ آدمی صرف عقل اور عقلِ کامل آدمی بن جائے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
شعور اپنا وقت گزار لیتا ہے اور بوریت کا شکار نہیں ہوتا۔ بوریت جو شعور کا جِینیاتی مرض ہے اور اس سے باہر کہیں نہیں پایا جاتا۔ مگر یاد رہے، شعور اپنی محدود وقت گزاری کی خاطر آدمی اور آئیڈیا دونوں کو رسوا کر دیتا ہے کیوں کہ یہ دونوں ایک نہیں ہو سکتے چاہے شعور ابد تک اپنے وہم کی دیوار چاٹتا رہے۔
ہیگل اسی ہیر پھیر کا سامری ہے جو سونے کے بچھڑے میں ہوا بھر کر اسے زندہ بتاتا ہے۔ لیکن وجود کے سامنے کیا ہیگل کیا سامری۔ پہلے روز ہی ان کا پول کھل جاتا ہے۔
آدمی عقلی نہیں ہے اور جو شخص بھی یہ دعویٰ کرے اس سے کم عقل اور کوئی شخص نہیں ہو سکتا۔ تاریخ عقلی نہیں ہے اور جو شخص یہ دعویٰ کرے وہ شاید حقیقت میں کبھی زندہ رہا ہی نہیں۔
ہیگل وہ مقدس کم عقل ہے جو پنگھوڑے سے خطاب کا ناٹک کرتا ہے، لیکن بے چارہ کیا جانے کہ مسیح علیہ السلام کا زمانہ گزر چکا۔
دوئستووسکی نے نوٹس فرام انڈر گراؤنڈ میں یہی نتیجہ نکال کر دوبارہ سے ہیگل کے مُنھ پر مارا ہے جو اس سے قبل بنی اسرائیل نے اپنے اور ہیگل دونوں کے خدا کے سامنے اس بے شرمی اور ڈھیٹ پنے کی ساتھ پیش کیا تھا جو محض انسانوں سے مخصوص ہے۔ خدایا، اے ابسولیٹ آئیڈیے، اے ورلڈ اسپرٹ! ہم ایمان لائے کہ تو ہم سب پر محیط ہے اور ہمارا نیک و بد ہم سے بہتر جانتا ہے مگر پھر بھی ہمیں مَن و سلویٰ نہیں پیاز اور ککڑی چاہیے۔
ہمیں تسلیم ہے کہ آسمانوں سے اترے من و سلویٰ سے خوش ذائقہ کچھ بھی اور نہیں اور پیاز ککڑی تو اس کے مقابل شرمندگی کا مقام ہے۔ لیکن تو سن لے، ہم تیری جنت سے اترے پکوان کو ٹھکراتے ہوئے یہی حقیر چیزیں طلب کرتے ہیں۔ محض اس لیے کہ ہم طلب کرنے پر قادر ہیں۔
فیصلہ قارئین پر ہے، جب خدا اور ملائکہ بنی اسرائیل کو مَن و سلویٰ کے مقابل پیاز ککڑی کی خواہش سے باز نہ رکھ پائے تو ہیگل کس کھیت کی مولی ہے جس پر منطق کے سبز پتوں کے سوا کوئی اور پردہ بھی نہیں۔
میں بدن ہوں، میں نفس ہوں، میں ارادہ ہوں… کون بے دماغ کہتا ہے کہ میں صرف ذہن، محض کلیہ ہوں… ہیگل نے یہ کہا؟ اجی چھوڑیے…اسی کا ہم وطن مجذوب فرنگی کہتا ہے
…the only thing the Germans take seriously—“the idea,” which is to say, something that is obscure, uncertain, full of intimations; that among Germans clarity is an objection, logic, a refutation.
اور اب جون بھائی کے شعر سنتے جائیے:
کبھی خود سے مکر جانے میں کیا ہے
میں دستاویز پر لکھا ہوا نئیں
میں خود سے کچھ بھی کیوں منوا رہا ہوں
میں یاں اپنی طرف بھیجا ہوا نئیں