نئے چین کا ایک گاؤں جو اب تک سرخ ہے

نئے چین کا ایک گاؤں جو اب تک سرخ ہے

از، سالار کوکب

کہتے ہیں وقت اس گاؤں میں ٹھہر گیا ہے۔ ہر چیز گاؤں کے رہاشیوں کی مشترکہ ملکیت؛ ہر فرد کے لیے مفت رہائش، مفت خوراک، مفت علاج اور مفت تعلیم؛ صاف سڑکیں؛ چند کاریں اور چند بیٹری سے چلنے والے سکوٹر؛جرائم نہ ہونے کے برابر؛ وسطی چوک میں ماؤزے تنگ کا مجسمہ اور اس کے اطراف میں مارکس، اینگلز، لینن اور سٹالن کی قد آدم تصویر اور ہرصبح فضاؤں میں ‘مشرق سرخ ہے’ کی گونج۔ یہ گاؤں نانجیا ہے جس نے منڈی کی معیشت اور اپنے گاؤں کے سماجی اور معاشی ڈھانچے کے درمیان ایک آہنی دیوار چن رکھی ہے۔ باہر کی دنیا نانجیا سن کو چین کے سب سے سرخ گاؤں یا پھر آخری  ماؤئسٹ گاؤں کے نام سے جانتی ہے۔

لینن اور سٹالن کے مجسموں کے پاس سستانے کے لئے بیٹھے لوگ۔ فوٹو کریڈٹ: اٹلانٹک ڈاٹ کام

اسی کی دہائی میں جب چین میں معاشی اصلاحات متعارف کرائی گئیں تو دوسرے دیہات کی طرح نانجیا سن میں بھی زمین گھرانوں میں تقسیم کر دی گئی اور گاؤں کے مشترکہ کاروبار ٹھیکے پر دے دئیے گئے۔ تاہم نانجیا سن میں یہ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا۔ کم زمین، زرعی آلات کی عدم دستیابی یا کاروبار میں زیادہ مواقع حاصل ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے جلد ہی کاشتکاری بند کردی۔ نتیجتا زرعی پیداوار تقریبا ٦٠ فی صد کم ہو گئی- ٹھیکے پر دی جانے والی اینٹوں کی فیکٹری اور آٹا پیسنے کی مل میں ٹھیکے داروں نے تو بہت منافع کمایا لیکن اس اضافی منافع سے کارکنوں اور گاؤں کے ویلفئر فنڈ کو کوئی حصّہ نہیں دیا گیا۔ گاؤں میں ان سب کا شدید رد عمل ہوا اوراصلاحات کے صرف تین سال بعد انیس سو چھیاسی میں گاؤں کے لوگوں نے زمین سمیت دوسرے وسائل کو دوبارہ گاؤں کی مشترکہ ملکیت میں لینے کا فیصلہ کر لیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد زرعی پیداوار میں اضافہ دو سو فیصد تک جا پہنچا اور پہلے سے موجود فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ مقامی آٹے کے صنعتی استعمال کے لیے ایک نئی نوڈل فیکٹری قائم کر دی گئی۔

ایک بچی ماوزے تنگ کے پورٹریٹ کے قریب بیٹھے ہوئے۔ فوٹو کریڈٹ: اٹلانٹک ڈاٹ کام

اجتماعی ملکیت کے تحت وسائل کے انتظام کے لیے گاؤں کو ایک رہنما نظریے کی ضرورت بھی تھی جو فکر ماؤزے تنگ کی صورت میں پہلے ہی ان کے پاس موجود تھا۔ اصلاحات کے بعد لوگوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ انفرادیت اور لالچ تھا جو منڈی کی معیشت کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس کا توڑ ان لوگوں نے ‘خود غرضی کے خاتمے اور عوامیت کی تشکیل’ کی مہم سے نکالا- گاؤں میں عزت اور وقار کا پیمانہ ستاروں کی تعداد کو بنایا گیا جو لوگوں کو ‘اشتراکی روحانی تمددن’ کی ضروریات کی پاسداری پر دئیے جاتے ہیں۔ ایسے دس ستاروں کا حامل ہونے کا مطلب معاشرتی رتبے کی بلند ترین سطح پر پہنچنا ہے۔

مقامی آرٹ کے مرکز میں لڑکیاں بالیاں رقص کی مشق کرتے ہوئے۔ فوٹو کریڈٹ: اٹلانٹک ڈاٹ کام

نانجیا سن میں کارکنوں کو مفت سہولیات کے ساتھ اضافی ضروریات کے لیے تنخواہ دی جاتی ہے۔ بونس یا اوور ٹائم کا تصور اس لیے نہیں متعارف کرایا گیا کہ کہیں لوگ کام کا محرک گاؤں کی مجموعی ترقی کی بجائے پیسے کو نہ بنا لیں۔ ضروریات کی اشیا جن میں بیئر اور سگریٹ بھی شامل ہیں کا گھرانے کے ارکان کے حساب سے ایک کوٹہ مقرر ہے۔ لیکن گندم کا آٹا لوگ جتنا استعمال کرنا چاہیں لے سکتے ہیں۔ کسی طرح کی خیانت ، کام میں اپنی استعداد سے کم کارکردگی یا کم دلچسپی اس خاندان کے اعزازی ستاروں میں کمی کی وجہ بن سکتی ہے۔ کم ستارے والے خاندانوں کا مفت اشیا کا کوٹہ کم کر دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں کچھ اشیا بازار کی قیمت پر خریدنا پڑتی ہیں۔ پارٹی کے عہدیداروں کی تنخواہ منیجرزاور بعض ماہر کارکنوں سے کم ہوتی ہے۔ اکثر صورتوں میں پارٹی کے عہدے دار اپنی تنخواہ سے زیادہ کام کرتے ہیں اور سہولتوں کی فراہمی کی ترجیح میں خود کو دوسروں سے نیچے رکھتے ہیں – کارکن کی تنخواہ کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے کتنی ‘محنت’ صرف کی نہ کہ اس بات سے کہ اس نے جن ذرائع پیداوار پر محنت صرف کی انہوں نے پیداوار کتنی دی۔ اس طرح مخلتف فیکٹریوں میں تنخواہ کا پیمانہ یکساں ہے۔

ایک رہائشی فلاحی گھر کی بالکونی پر۔ فوٹو کریڈٹ: اٹلانٹک ڈاٹ کام

گاؤں میں اس وقت اٹھائیس فیکٹریاں ہیں جو اپنی کارکردگی کی بنا پر بہت سے ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ ان فیکٹریوں سے حاصل شدہ منافع رہائش، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات فراہم کرنے پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ گاؤں کی کمیونسٹ پارٹی کی کمیٹی کرتی ہے کہ منافع کا کتنا حصّہ دوبارہ سرمایہ کاری میں لگایا جائے- یہ فیکٹریاں ایک ہی کمپنی کے تحت کام کرتی ہیں جہاں خریداری اور فروخت مشترکہ طور پر ہوتی ہے- اسی طرح منافع ایک فیکٹری سے دوسری فیکٹری کو منتقل کیا جا سکتا ہے– یوں کوئی ایک فیکٹری خسارے میں بھی جا رہی ہو تو دوسری فیکٹریوں کے منافع کے بل پراس کو بھی چالو رکھا جاتا ہے- حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنی بنیادی پیداوار– نوڈلز میں نا نجیا سن نے اپنے معیارکو شہری صنعت سے بہتر ثابت کیا ہے۔

نوڈلز فیکٹری سے مصنوعات کی پیکنگ کے بعد لوڈنگ کی جا رہی ہے۔ فوٹو کریڈٹ: اٹلانٹک ڈاٹ کام

مختلف تحقیقی مقالوں اور کتابوں میں اس گاؤں پر مندرجہ ذیل اعتراضات کیے گئے ہیں:
١- مشترکہ ملکیت والے اس گاؤں میں معاشی عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہو سکا- گاؤں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے تقریبا دس ہزار بیرونی کارکن ان سہولتوں سے محروم ہیں جو کہ وسائل کے مشترکہ مالک ہونے کی وجہ سے گاؤں کے تین ہزار سے زائد مقامی باشندوں کو فراہم کی جاتی ہیں – بیرونی کارکن جن ذرائع پیدوار پر کام کرتے ہیں ان سے جمع ہونے واے سرمایے پر صرف مقامی کارکن کا حق ہوتا ہے۔
٢- تمام کارکنوں کی تنخواہیں برابر نہیں بلکہ تنخواہوں کے تین سکیل ہیں جو کہ کارکردگی ، کام کی طرف روئیے اور مہارت کی بناید پر دئیے جاتے ہیں۔
٣- گاؤں کی ترقی مصنوعی ہے کیونکہ کمیونسٹ پارٹی کے اندر موجود ‘ کنزرویٹو’ رہنماؤں نے اس نمونے کو کامیاب بنانے کے لیے اس گاؤں کو بہت زیادہ وسائل فراہم کیے جب کہ چین کے تمام دیہات کو اس قدر وسائل فراہم کرنا عملا نا ممکن ہے۔
٤- گاؤں کا قرضوں پر بہت زیادہ انحصار ہے جو کہ گاؤں کے اصل سرمائے سے بہت زیادہ ہیں۔
٥- گاؤں کو نیم فوجی بنیادوں پر چلایا جاتا ہے جس کی ایک شکل روزانہ کی بنیاد پر سیاسی مطالعا تی نشستیں ہیں۔
٦-گاؤں کی کامیابیوں میں مشترکہ ملکیت کے نمونے کی بجائے پارٹی سیکرٹری کی غیر معمولی شخصیت کا زیادہ حصّہ ہے۔
٧ – گاؤں میں کرپشن موجود ہے جس کا ایک اظہار پارٹی کے ایک مرنے والے عہدیدار کے گھر سے بہت بڑی رقم کی برامدگی اور کئی عورتوں کا اس کی داشتہ ہونے کا دعوی تھا –

نانجیا سن کے تجربے میں جو کمزوریاں سامنے آتی ہیں بعض اوقات انہیں بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ بیرونی کارکن اور مقامی کارکن کے درمیان فوائد کا فرق حقیقت میں بہت زیادہ نہیں کیونکہ بیرونی کارکن کو مفت اشیا ،صحت تعلیم اور وغیرہ کی مفت سہولتوں کی بجایے خوراک اور رہائش کے ساتھ زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ بیرونی کارکن چھ سال تک گاؤں میں کام کرنے کے بعد رہائش کی سہولت اور دس سال کے بعد ‘مقامی ‘ کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ نانجیا سن میں بیرونی کارکنوں کو ملنے والا معا وضہ چین میں دوسری جگہوں میں نجی اداروں میں کام کرنے والے بیرونی کارکنوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ گاؤں کو نیم فوجی بنیادوں پر چلانے کا اعتراض اس حد تک صحیح ہے کہ نظریاتی تعلیم حاصل کرنا سب کے لیے لازمی ہے۔ لوگوں کو ماوزے تنگ کے مضامین پڑھنا ، یاد کرنا اور دہرانا پڑتے ہیں۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ گاؤں سے باہر پورے چین میں انفرادیت پر مبنی روئیے پنپ رہے ہیں۔ ماوزے تنگ کی تعلیمات گاؤں کو متبادل سوچ دیتی ہیں جس میں اجتماعی مفاد ذاتی مفاد پر مقدم ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ گاؤں کی ترقی میں پارٹی سیکرٹری کی ذاتی صلاحیتوں کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ لیکن پارٹی سیکرٹری کا کہنا ہے نجی ملکیت کی صورت میں چند افراد پورے وسائل پر قابض ہو جاتے لیکن اجتماعی انتظام کی صورت میں ان لوگوں کو ان کی صلاحیت کی بنا پر صرف کچھ زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔

ضعیف العمر افراد نرسنگ ہوم میں اپنا دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے۔ فوٹو کریڈٹ: اٹلانٹک ڈاٹ کام

نانجیا سن کا تجربہ ایک سے زیادہ حوالوں سے دیہی ترقی کا ایک اہم نمونہ ہے۔ یہ تجربہ ترقی کے شہروں میں ارتکاز کو رد کرتا ہے۔ اس نمونے میں خوراک پیدا کرنے والا ایک گاؤں مقامی طور پر صنعتیں قائم کرکے ترقی کے ان ثمرات کو گاؤں تک لے آتا ہے۔ جو اس سے پہلے صرف شہروں تک محدود تھے۔ اسی طرح چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہوئی زمین کو اجتماعی ملکیت کے ذریعے ایک بار پھر منافع بخش کاروبار میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ اپنی کمزوروں کے باوجود یہ تجربہ اس پراپیگنڈے کی نفی کرتا ہے کہ اگر لوگوں کو رہائش، تعلیم وغیرہ کی سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی تو لوگ ‘مفت خور’ بن جائیں گے۔ نانجیا سن میں غیر مادی ترغیبات ، ٹیم ورک، باہمی تعاون اور نگرانی کے موثر نظام کی وجہ سے ہر فرد پیدوار اور گاؤں کی ترقی میں اپنی استطاعت کے مطابق حصّہ ڈالتا ہے۔ چین کے نئے بائیں بازو کا حصّہ سمجھے جانے والے بااثر محقق، سوئے زایؤن کے مطابق نانجیا سن کے تجربے کی اہمیت یہ ہے کہ منڈی کو سوشل ویلفئر کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گاؤں میں موجود تھرمل بجلی گھر کا منظر۔ فوٹو کریڈٹ: اٹلانٹک ڈاٹ کام

اگرچہ چند دانشور اور محقق نانجیا سن کے تجربے کو کمیونزم کی طرف ایک قدم سمجھتے ہیں لیکن چین سے باہر کمیونسٹوں کا بڑا ایک حصّہ اسے سرمایہ داری کی ہی ایک قسم قرار دیتا ہے جس میں وسائل کے مشترکہ انتظام اور بیرونی کارکنوں کی محنت کا استحصال کرکے زیادہ منافع کمایا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت جو بھی ہو نانجیا سن چین اور چین سے باہر لوگوں کے لیے ‘ایک اشتراکی نمونے ‘ کے طور پر ہی کشش رکھتا ہے اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح نانجیا سن دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

Bibliography

Cheng, J.Y. ed., 2015. The Use of Mao and the Chongqing Model. City University of HK Press Day P., 2013. Nanjiecun: a village that still lives and works as Mao laid down. Available at: http://www.bbc.com/news/magazine-25019716 (Accessed on 14 December 2016)
Feng, S. and Su, Y., 2013. The making of Maoist model in post-Mao era: The myth of Nanjie village. Communist and Post-Communist Studies, 46(1), pp.39-51
Fewsmith, J., 2001. China since Tiananmen: The politics of transition. Cambridge University Press
Fitzgerald, J. ed., 2003. Rethinking China’s provinces. Routledge
Hou, X., 2011. From Mao to the market community capitalism in rural China. Theory, Culture & Society, 28(2), pp.46-68
Hou, X., 2013. Community capitalism in China: the state, the market, and collectivism. Cambridge University Press
Lu, J. and Wang, B. eds., 2012. China and New Left Visions: Political and Cultural Interventions. Lexington Books
Nathan, D. and Kelkar, G., 1997. Collective villages in the Chinese market (Vol. 5). DIANE Publishing