افیونی رومانویت کا چلن عام ہے
از، نصیراحمد
زینادو میں کبلائی نے
اک شاہانہ
گنبدِ لطف ترتیب دیا
جہاں ایلف دریا
ان گنت غاروں سے
گزر کر
بے آفتاب سمندر میں
گرتا تھا
یہ عظیم برطانوی شاعر کولرج کی مشہور نظم کا آغاز ہے۔ رومانویوں پر کی گئی بی بی سی کی ایک ڈاکیومینٹری دیکھ رہے تھے۔ ڈاکیومینٹری میں انھوں نے بتایا کولرج کچھ علیل تھے اور علالت کا علاج افیون سے کر رہے تھے اور افیون ہَفت اِقلیم کی سیر تو کرا ہی دیتی ہے۔ پھر منگولوں سے رومانوی رشتہ یورپ کی روایات میں کولرج سے پہلے کی صدیوں میں بھی موجود تھا۔ پہلے منگولوں کی بادشاہی کو ایشیا کے یحیٰی کی حکومت سمجھا گیا۔کچھ مورخین کے مطابق امریکہ کی دریافت ایشیا کے اسی یحیٰی کی تلاش کا نتیجہ تھی۔ پھر مارکو پولو کے سفر نامے نے بھی اس رومانس میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد مارلو کے کھیل تیمور نے بھی افسانے کی شدت میں اضافہ کیا۔
بہر حال ہمارا مسئلہ ایک شان دار ماضی کے بارے میں نشہ آور دروغ گوئی ہے جو ضروری نہیں افیون کا نتیجہ ہو لیکن نشے سے ملتی جلتی ہی کیفیت ہوتی ہے جو تخیلاتی دنیا میں حسن و جمال کی انتہائی شکلوں کے ذریعے زندگی کے حقائق سے فرار کی راہ اپنا لیتی ہے۔
ان میں سے ایک مثال قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے نظام انصاف کی ہے جو رومانویوں کے مطابق سادہ لوح قبائلی کی وہ کامیابی ہے جس کا مہذب دنیا میں بھی نعم البدل نہیں۔ غیور جنگ جُو قبائلی فطرت میں رچی بسی ایسی شان دار زندگی گزارتے ہیں جس کی صرف تمنا ہی کی جا سکتی ہے۔ اور ہمیں بھی اس شان دار زندگی کی پیروی کرنی چاہیے۔
وہ گھڑ سوار چاندنی میں جن کی شمشیریں چمکتی ہیں اور کافروں کے کٹے کانوں کی جو مالائیں پہنتے ہیں۔ اس طرح فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرتے ہیں اور جن کے تکیے مقتول دشمنوں کے بالوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی کچھ ہو لیکن پھر تصورِ انصاف کے ساتھ کافی کھلواڑ کرنا پڑتا ہے کیونکہ اعداد و شمار کسی اور طرف نشان دہی کر رہے ہوتے ہیں۔ آٹھ ہزار لوگوں کے لیے ان علاقوں میں ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ اس علاقے کی تینتالیس فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں ہے۔ ان علاقوں میں تعلیم کی شرح بائیس فی صد ہے۔
اگر روایتی انصاف اس قدر شان دار ہوتا تو اس طرح کے اعداد و شمار بھی نہ ہوتے۔ یہ تو اچھا ہوا ستر سال کے بعد ہم قبائلیوں سے متعلق اس رومانویت سے باہر آ گئے اور ان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھا نے پر رضا مند ہو گئے اور انصاف کے تصور کو بھی تھوڑی بہت جدت دینے کے لیے کوشاں ہو گئے۔ اسی طرح طالبان سے بھی ایک رومانویت وابستہ ہے۔ انھوں نے افغانستان کو متحد کیا۔ سادہ سے دین داروں نے عالمی طاقتوں کو شکست دی۔ یہ انھی کا دم تھا کی ہر طرف انصاف کا دور دورہ ہو گیا۔
ایسا کچھ نہیں تھا، بس اک قتل و غارت کا سلسلہ تھا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جس طرح کی قتل و غارت بوسنیا میں ہوتی تھی، اسی طرح کی غارت گری طالبان اپنی حکومت میں کرتے تھے۔ اب بھی وہی کچھ کرتے ہیں۔ لاکھوں لوگوں تک غذا کی رسائی نہیں ہونے دیتے تھے۔ اب حکومت کا کام غذا کی فراہمی یقینی بنانا ہوتا ہے، وہ ان کا مقصد نہیں تھا لیکن اگر عالمی ادارے غذا کی فراہمی کے لیے کچھ کریں تو اس کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ خواتین کے خلاف گھناؤنے جرائم اور بچوں کو قتل کرنے سمیت ہر قسم کے جرائم ان کی ریاستی پالیسیوں کا حصہ تھے، اب بھی انسانیت کے خلاف جرائم ان کی پالیسیوں کا حصہ ہیں۔
ان سے متعلق بھی ہماری رومانویت کچھ دھیمی ہو گئی ہے کہ آخر کار اپنا تَوسَن جُوئے خُوں میں شناور ہم نے دیکھ لیا، لیکن یہ رومانویت ختم نہیں ہو رہی۔ بحیثیت مجموعی ان معاملوں میں رومانویت میں کمی ایک حوصلہ افزا رجحان ہے لیکن زندگی کو کون سا پہلو ہے جس میں حقائق سے دور یہ رومانویت موجود نہیں ہے؟
موٹر سائیکل سوار دیبل فتح کرتے کرتے کسی گاڑی سے ٹکرا جاتے ہیں اور جانوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔ حکومتی عہدے داروں کی منظر میں اس طرح آمد ہوتی ہے کہ کُبلائی خان کا جاہ و جلال بھی شرما جائے لیکن جس کام کے لیے متعین ہیں، اس سے متعلق اعداد و شمار کی نوعیت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ پوری قوم شرما جاتی ہے۔ سڑک پر آتے جاتے وُزَرا اور دیگر حکام کا طَنطَنہ اور دب دبہ قابل دید ہو تا ہے۔ سواری پھول روندتے گزرتی ہے۔ مگر چند کٹھ مُلا سڑک بند کردیں تو سارے ادارے بے چارگی کی تصویر بن جاتے ہیں۔
ایک دوسرے پر جانیں فدا کرنے والے تھوڑی سی مشکل در پیش ہو تو ایک دوسرے کی جانوں کے درپے ہو جاتے ہیں۔ نیکی اور پا رسائی کے ارد گرد ایسی رومانویت ہے کہ اگر بس چلے تو شیری رحمان اور ملیحہ لودھی بکریاں چراتی ملیں کہ عُمال کی غلطیوں کی پرانے زمانے میں یہی سزا ہوتی تھی۔ لیکن پارسائی کا یہ وفور صرف سویلینز کے لیے ہی ہے، جب کسی جنرل کی غلطیوں کا مسئلہ سامنے آئے تو یہ رومانویت دم توڑ جاتی ہے۔
مزید دیکھیے: نصابات میں سے ’’تاریخ‘‘ کی حقیقت کھرچنے کا گھناؤنا اثر
دیکھے بھالے کا انکار کرنے کے لیے ہم لوگ بڑی کثرت سے رومانوی دروغ گوئی کا استعمال کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ معاملات کی درستی کی رضا، قوت، قابلیت اور صلاحیت ہی ختم ہو گئی ہے اس لیے ایک ایسی دنیا تراشنے کی ضرورت ہے جس میں حقائق کی تلخی نہ ہو، سب کچھ میٹھا ہو، سب کچھ ہرا ہو اور سب کچھ اعلٰی ہو۔
اسی ڈاکیومینٹری میں جان کیٹس کا بھی احوال ہے۔ کہتے ہیں سرجن تھا اور اس زمانے میں بے ہوش کرنے والی ادویات میسر نہ تھیں۔ سرجری کے دوران اس کا مریض اتنی تکلیف میں مبتلا ہوا کہ کیٹس کا سرجری سے دل ہی پِھر گیا۔ اور اس نے جراحی ترک کرتے ہوئے مدھر مدھر گیت لکھنا شِعار کیا کہ تکلیف سے تو نجات ملے۔ کیٹس کے نغمے تابندہ ہیں لیکن کیٹس کے فرار کے باوجود اس کے پیشے میں ایسے لوگ موجود رہے جنھیں حقائق کا سامنا کرنے کا حوصلہ تھا اور انھوں نے جراحی کا معیار بہت بہتر بنا لیا۔
لیکن، جہاں سب ہی دل جلے ہوں؟