(سالار کوکب)
تاریخ کو سیاق و سباق سے ہٹا کر بیان کرنا میڈیائی دانشوروں کا کمال ہے- دو انتہائیں حسن نثار اور اوریا مقبول جان ہیں- حسن نثار مغرب دوستی میں اور اوریا مقبول جان مغرب دشمنی میں تاریخی حقائق کا اس قدر ہنر مندی سے استعمال کرتے ہیں کہ ان کےتعصب تک پہنچنےکےلیے تحریرکی کئی پرتیں کھنگالنا پڑتی ہیں-
اوریا مقبول جان ان دنوں اپنے فن کی انتہا پر ہیں – آج صبح ان کے حالیہ کالم تفصیل سے دیکھے۔ ایک کالم کے اس حصّے پرنظر جم سی گئی، فرماتے ہیں:
“انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصا پنجاب میں آبادی کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا – ایک با عزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار ، کاشتکاروں میں وہ اعلی نسل نواب ، چودھری ، سرادر ، وڈیرے ، اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں ، اور جائیدادیں حاصل کی تھیں– جب کہ غیر کاشت کاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار ، ترکھان ، جولاہے ، موچی وغیرہ – انہیں عرف عام میں کمی یعنی کم ترین کہہ کر پکارا جانے لگا – پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہہ پر ہوتا ہے – ریونیو ریکارڈ میں ایک ‘فہرست کمیاں’ مرتب کی گئی جس میں لوہار ، ترکھان ، اور موچی ، جولاہے ، کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمیوں کے حصّے میں آئ مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔”
اوپر والا پیراگراف میڈیائی دانشوری کی بد دیانتی کی ایک مثال ہے جس میں کچھ حقائق لے کر ان سے اپنی مرضی کا نتیجہ نکالا جاتا ہے۔انگریز نے جاتی اور ورن کو ملا کر caste کا تصور تخلیق کرکے مردم شماریوں اور محکمہ مال کے ذریعے اسے مستقل کیا۔ دِلّی اور اس کے نواح میں ‘مولوی ‘ نے اٹھارہ سو ستا ون کی جنگ آزادی کو مستحکم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہ تاریخی حقائق ہیں۔ لیکن جو نتائج اوریا مقبول جان نے نکالے ہیں وہ بہت مشتبہ ہیں ۔
کیا پنجاب کی آبادی کو انگریز نے کاشتکار اور غیر کاشتکار میں تقسیم کیا یا یہ تقسیم اس سے پہلے بھی موجود تھی ؟ بظاہر یہ تقسیم موجود تھی لیکن یہ مستقل تقسیم نہیں تھی– لوگ کاشت کار سے غیر کاشت کار، اس سے الٹ یا غیر کاشتکاروں کے تحتی گروہوں میں جا سکتے تھے۔ چونکہ پیشے fluid تھے اس لیے ان میں hierarchy کمزور تھی۔ انگریز نے صرف اس تقسیم کو مستقل کر کے ایک گروہ سے دوسرے گروہ میں جانے کے امکانات معدوم کر دئیے۔ ایک خاص صورتحال میں صرف کچھ گروہوں کو ہی کاشت کاری کا قانونی حق اس مفروضے کی بنیاد پر دیا گیا کہ اس طرح سود خور کسانوں کی زمین نہیں ہتھیا سکیں گے۔
کیا سب کاشت کاروں خصوصا جاٹوں ، گجروں ، راجپوتوں ، آرائیوں ، کمبوھوں ، بلوچوں ، پٹھانوں وغیرہ کو زمینیں انگریزوں نے ہی دی تھیں اور اگر دی تھیں تو کیا وفاداری کے صلے میں دی تھیں ؟ بظاہر نہیں – سیالکوٹ گجرات کے چاہی علاقوں میں بیشتر خاندانوں کے کاشتکاری کے حقوق کم از کم رنجیت سنگھ کے دور سے ہیں (انگریز دورمیں ملکیت کی نوعیت پرفرق پڑا) – چناب کالونی (فیصل آباد اور اس طرف کے دوسرے علاقے ) میں زمین کو آباد کرنے کے لیے جالندھر ، ہوشیار پور ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، گجرات وغیرہ سے کاشت کاروں کو incentive دے کر لایا گیا – نواب بہاولپور نے بھی انہی علاقوں سے کاشت کاروں کو بہاولپور لانے کے لیے ایسی ہی حکمت عملی اختیار کی۔ اس میں انگریز سے وفاداری نہیں کاشت کاری میں مہارت کا زیادہ عمل دخل تھا– ٹرینوں کے کچھ روٹس خاص طور پر چک امرو ، سیالکوٹ ، وزیر آباد ، فیصل آباد ، خانیوال ، بہاولپور ، سمہ سٹہ کو ملانے والی سمہ سٹہ ٹرین کاشت کاروں کی سپلائی اور ڈیمانڈ کے علاقوں کو ملانے کی ایک کوشش تھے۔
کیا لفظ کمّی واقعی انگریز کا دیا ہوا ہے اور کیا واقعی ‘کمترین’ اور تضحیک آمیز ہے ؟ تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں لگتی- بارٹر سسٹم پر مبنی پنجابی گاؤں میں کچھ خاندان کاشت کرتے تھے اور کچھ خدمات فراہم کرتے تھے جنہیں کامے / کمی کہتے تھے (بظاہر کام یا کم کی وجہ سے ) – انہیں کاشت کاروں سے ان کی روٹین کی خدمات کا معاوضہ kind میں ملتا تھا جسے ‘سیپ’ کہتے تھے۔ اس نظام میں hierarchy موجود تھی لیکن یہ ایک نیٹ ورک تھا جس میں لوگ ایک دوسرے پر انحصار کرتے تھے، مل جل کر رہتے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ انگریز نے جو اصلاحات متعارف کرائیں اس کے نتیجے میں hierarchy مضبوط ہوئی۔ لیکن کمّیں کا فلمی اور ‘ اوریائی ‘ تصور سرمایہ دارانہ اقدار کے تحت قیام پاکستان کے بعد بننا شروع ہوا۔
کیا پنجاب میں مولوی کو کسی سازش کے تحت کمیوں میں شامل کیا گیا ؟ بظاہر نہیں! بہت ہی سادہ لفظوں میں کمی وہ ہے جو اپنے کام کے عوض اناج براہ راست کاشت سے نہیں حاصل کرتا بلکہ کاشت کار سے ‘ سیپ ‘ کی صورت میں لیتا ہے – پنجابی گاؤں میں مولوی کاشت کار نہیں تھا بلکہ جنازہ پڑھانے ، مردے کی نہلائی ، بچے کے کان میں اذان دینے اور مکتب چلانے کی خدمات فراہم کرتا تھا– گاؤں کے نظام میں لوہار جیسے پیشوں کی زیادہ اہمیت تھی اس لیے مولوی یا تو جولاہے یا چھینبے جیسے پیشوں سے آتا تھا یا ذرعی سماج میں ان سے کم اہم پیشوں سے۔ انگریز دور میں ‘ملوانہ / ملّآ کی مستقل category بھی بنی – رنجیت سنگھ کے بعد چونکہ آہستہ آہستہ مدرسے ختم کر دئیے گئے اور ملاؤں کی اکثریت بطور اورینٹل ٹیچر سکولوں میں نوکری نہیں حاصل کر سکی اس لیے گاؤں میں ملّا کی خدمات کی نوعیت بدل گئی اور مولوی hierarchy میں اور نیچے آ گیا –
میں نے اوریا مقبول جان صاحب کی تشریحات پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ اوریا مقبول جان نے بظاہر اکبر ایس احمد صاحب کے کینال کالونی کے متعلق تجزیئے کا اطلاق ( اور وہ بھی غلط طریقےسے) پورے پنجاب پر کر دیا ہے – جب کہ اس مسئلے پر اکبر ایس احمد صاحب کے دلائل بھی قابل بحث ہیں۔ میرے دئیے گئے جوابات حتمی نہیں ہیں بلکہ مکالمے کو آگے بڑھانے کے لیے صرف ایک غیر حتمی رائے ہے۔ دوستوں سے ان سوالوں کے گرد تبصرے کی گزارش ہے۔
آپ نے بہت مفید معلومات فراہم کی ہیں آ پ کی رائے میں بہت سے جاگیرداروں کو زمینیں رنجیت سنگھ کے دور میں الاٹ کر دی گئی تھیں اور اس میں انگریزوں کا کوئی عمل دخل نہیںت و کیا سماجی نا انصافی برتتے ہوئے معاشرےکے ایک بہت بڑے حصے کو کو حق ملکیت سے محروم نہیں کیا؟ حالاںکہ اب تک یہی بے زمین دستکار (کمی کمین)مزارعین کی صورت میں ان جاگیرداروں کی زمینون کو کاشت کر رہے ہین ۔اور ان کا تعارف ایک گالی بن گیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ھے؟