ہمارے سوالات

Mubashir Ali Zaidi

ہمارے سوالات 

از، مبشر علی زیدی

ہمارے سوالات کا مقصد اعتراض کرنا، تنقید کرنا یا کسی کو پریشان کرنا نہیں۔ عام طور پر سوالات اس لیے کیے جاتے ہیں کہ ہمیں جواب درکار ہوتا ہے۔ اس لیے بھی کہ کچھ لوگوں کا خوف دور ہو سکے۔ اور اس لیے بھی کہ ان لوگوں کی ترجمانی ہو جائے جو کسی وجہ سے سوالات نہیں کر سکتے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ جس طرح کچھ سوالات کے جواب ماضی میں دیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح بعض سوالات کے جواب کا وقت مستقبل میں آئے گا۔ علاوہ ازیں خواہ مخواہ خود کو ہر سوال کا مخاطب نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ملحد، متشکک، لبرل، سیکولر، مارکسسٹ اور سوشلسٹ سب کو ایک سمجھ لیا جاتا ہے۔ سوال کرنے والوں پر حملہ آور ہونے سے پہلے تمام نقطہ ہائے نظر کو سمجھ لینا چاہیے۔

مذہب پرستوں کا رویہ نائن الیون کے بعد کے صدر بش جیسا ہوتا ہے۔ یعنی آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ہمارے خلاف ہیں۔ اگنوسٹک ملحد کی طرح منکر نہیں ہوتا۔ وہ تشکیک کا شکار یعنی اقرار اور انکار کے سرحد پر کھڑا ہوتا ہے۔ آپ دھکا دیں گے تو وہ سرحد کے دوسری طرف چلا جائے گا۔ اکثر دھکا ہی دیا جاتا ہے۔

ایک بات بار بار سننے کو ملتی ہے کہ قرآن پاک پڑھیں، اس میں تمام سوالات کے جواب ہیں۔ یہ بات کہنے والے بیش تر لوگوں نے خود کلام پاک نہیں پڑھا ہوتا۔ عربی جانے بغیر تلاوت کرنے سے قرآن سمجھ میں نہیں آتا۔ عربی نہیں آتی تو ترجمہ پڑھیں اور سیرتﷺ بھی۔ اگر یہ علم ہو جائے کہ کون سی آیت کس موقع پر اتری تو مطلب عمدہ طریقے سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔ کلام پاک پڑھنے کا مشورہ دینے والے سمجھتے ہیں کہ ہمیں پڑھنا نہیں آتا۔ بھائی، ہم تو کم علم اور کم عقل ہیں، لیکن آپ بھی اپنی معلومات بڑھائیں۔


مزید دیکھیے: ہمارا متوسط طبقہ، کھڑے پانی کے جوہڑ جیسا


کیا آپ نے نیاز فتح پوری اور جون ایلیا کا نام سنا ہے؟ کیا آپ ایاز نظامی اور ابن ورق کو جانتے ہیں؟ عربی کے عالم اور الہامی کتابوں کے حافظ۔ کیا آپ ان کے خیالات اور تحقیق سے واقف ہیں؟

پاکستان روز اوّل سے سنسرشپ کا شکار اور بند معاشرہ ہے جہاں چند مخصوص نظریات کے سوا سوچنا اور بات کرنا منع ہے۔ چُناں چِہ تنقیدی سوچ حرام ہے۔ اگر آپ کا کوئی رشتے دار امریکا میں رہتا ہے تو اس کے بچے سے بات کر کے دیکھیں۔ آپ کو پتا چلے گا کہ یہاں بچوں کو کریٹیکل تھنکنگ اور سوال اٹھانا سکھایا جاتا ہے۔ یہ بچے دلیل کے بغیر باپ اور استاد کی بات بھی نہیں مانتے۔ امریکا میں کئی والدین مجھ سے اس مشکل کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کے بچے مذہب کے بارے میں خوف ناک سوالات اٹھاتے ہیں اور وہ انھیں مطمئن نہیں کر پاتے۔ کیسے کریں؟ یہ کام ہمیں سکھایا ہی نہیں گیا۔

آپ کسی عالم سے کوئی مشکل سوال کریں، وہ جواب میں کہتا ہے، قرآنِ پاک میں یہ بات یوں لکھی ہے۔ جواب سننے والا اس ڈر سے خاموش ہو جاتا ہے کہ میں نے مزید بات کی تو مجھ پر الہام کی بے حرمتی کا الزام لگ جائے گا۔ حالاں کہ ضروری نہیں کہ سوال کرنے والا الہام پر یقین رکھتا ہو۔
اگر آپ اپنی مسجد میں بیٹھ کر اپنی کتاب سے ایک صفحہ پڑھ کر اپنے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو قائل کرنے پر خوش ہیں تو میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ لیکن آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نمازیوں کی تعداد کبھی نہیں بڑھے گی بَل کہ کم ضرور ہو سکتی ہے۔ اگر آپ تحمل کے ساتھ سوال سن سکتے ہیں اور غیب پر ایمان کی شرط لگائے بغیر حسن اخلاق سے کچھ دلائل فراہم کر سکتے ہیں تو پھر امکان ہے کہ چار چھ لوگ قائل ہو جائیں۔

عالم گیریت کے عہد میں دنیا کثیر الاقوامی معاشرے میں بدل گئی ہے۔ اس میں قوم پرستی یا مذہب کسی غیر کو اپنا نہیں بنا سکتا۔ معاشی فوائد کے علاوہ فقط ایک شے ہے جو یہ جادو کر سکتی ہے۔ اسے حسنِ سلوک کہتے ہیں۔ لیکن وہ مذہب پرستوں کے پاس نایاب ہے۔

About مبشر علی زیدی 15 Articles
مبشر علی زیدی کم لفظوں میں زیادہ بات کرتے ہیں۔ سنتے بھی ہیں اور سوچتے بھی ہیں۔ روز گار کے لئے براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں اور جیو نیوز سے وابستہ رہنے کے بعد اب وائس آف امریکہ سے منسلک ہو گئے ہیں؛ لیکن دل کی اور شعور کی گتھیاں لفظوں میں پرونے کو ادیب بھی ہیں۔ سو لفظوں میں کہانی لکھنا، لوگوں کو مبشر زیدی نے سکھایا۔

1 Trackback / Pingback

  1. تو لگا چھلانگ پھر — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.