دیار غیر میں آباد ہم وطنوں کے سیاسی فکری زاویے

MH Chauhan
پروفیسر محمد حسین چوہان

دیار غیر میں آباد ہم وطنوں کے سیاسی فکری زاویے

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

برطانیہ، میں آباد پاکستان و کشمیر سے تعلق رکھنے والے باشندے مقامی برطانوی سیاست سے اتنی دل چسپی نہیں لیتے جتنی وہ اپنے ملک کی سیاست سے لیتے ہیں کیوں کہ ترقی یافتہ ممالک میں جمہوری سسٹم اتنا بالغ ہو چکا ہے کہ وہاں دل چسپی لینا اور نہ لینا ایک جیسا عمل سمجھا جاتا ہے۔ اداروں کی آزادی و خود مختاری اور کار کردگی نے سیاسی وابستگیوں کو ایک اضافی امر قرار دے دیا ہے۔

دوسری بات یہ کہ سب جماعتوں نے ایک جیسا ہی کام کرنا ہوتا ہے، کسی آدمی کو کسی ادارے سے خدمات حاصل کرنے کے لیے کسی سیاست دان اور کھڑپینچ کی منت سماجت کرنی نہیں ہوتی، اس آزادی کو کچھ ہمارے تقدیس ثنا خوانانِ مشرق بے حیائی اور بد تمیزی سے بھی تعبیر کرتے ہیں، جن کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا مسئلہ عورت کے سر سے دوپٹہ سرکنا اور گنگنانا ہے۔ اور کچھ پرانے وقتوں کی ایسی سیاسی نشانیاں بھی ہیں جن کا کام پاکستانی سیاست دانوں کے لیے چندے اکھٹے کرنا اور پروٹوکول کا بند و بست کرنا ہوتا ہے جن کی ساری زندگیاں اس سیاسی مقدس فریضہ کی ادائیگی میں گذر گئی ہیں۔ جب کہ علمی و تجربی ماحول میں پروان چڑھنے والے ان صنعتی معاشروں میں ذہانت و محنت کی تو قدر کی جاتی ہے مگر خاندان اور کنبے کے بڑوں کی نہیں چاہے وہ عمر اور وزن میں کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔

بحیثیت مجموعی انسان کو صرف و صرف انسان ہونے کے حوالے سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ برطانیہ میں آباد اپنے ہم وطنوں کی اکثریت سوشل ڈیموکریسی کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے۔ مگر اب بھی کچھ لوگ ہندہ کے حسد ابو جہل کی جہالت و تعصب کی زندہ مثال بنے ہوئے ہیں۔ تعصب اور انا ضد و ہٹ دھرمی چاہے وہ مذہب میں ہو یا سیاست میں یا پھر رسم ورواج میں، انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔

عید مشترکہ طور پر اکثریت نے اکٹھی منائی مگر اپنی شناخت اور مفاد کے لیے بعض گروہوں نے دوسرے دن منانا ضروری سمجھا، اسی طرح ملک میں تحریک انصاف کی الیکشن میں کام یابی پر پاکستانیوں کی اکثریت نے خوشی کے شادیانے بجائے، جلوس نکالے، گاڑیوں کی ریلیاں نکالیں، کرائے پر مہنگی گاڑیاں لی گئیں۔ اس میں سب سے زیادہ خوشی برطانیہ میں پیدا ہونے والے پاکستانی بچے ہیں جو ٹی وی پر عمران خان کی تصویر دیکھ کر جھوم اٹھتے ہیں اب بھی نو جوانوں نے تحریک انصاف کی ویڈیو کیسٹ گاڑی میں لگائی ہوتی ہے، ابرار الحق کے گانوں پر جھومتے رہتے ہیں۔ اب بیرونی ممالک میں آباد پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق مل گیا ہے، تو امید ہے جنہوں نے زندگی میں ایک بار بھی مقامی امید واروں کو ووٹ نہیں دینا تھا وہ ضرور تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن جائیں گے۔

بیرونی ممالک میں آباد ہم وطنوں نے دیکھ لیا ہے کہ لبرل یا سوشل ڈیموکریسی کیسی ہوتی ہے، اس بنا پر علمی و تجربی اور منظم معاشروں میں پروان چڑھنے والی نسل کو پاکستان کی روایتی سیاست سے گھن آتی ہے۔ مگر اس کے با وجود روایتی سیاست دان ان کی جان نہیں چھوڑتے۔

روشن خیالی اور آزاد خیال جمہوریت کے حسین نظارے تو ایک طرف تو یورپ میں موجود ہیں مگر دوسری طرف روایتی استحصالی سوچ رکھنے والے اکا دکا افراد بھی سوشل میڈیا پر کالک ملتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ اپنے لیے یہاں کی سوشل ڈیمو کریسی کے تمام فوائد و ثمرات حاصل کرنا چاہتے ہیں، مگر اپنے وطن میں تبدیلی کے نام پر اتنے خائف ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا سب کچھ ضائع ہو گیا ہے۔ برطانیہ میں آباد ان انا پرست اور ضدی لوگوں کا سیاسی و سماجی پس منظر مراعات، کمیشن، زمینوں کی الاٹمنٹ، جعلی سفارشی تقرریوں سے بھرا پڑا ہے جن سے تحریک پاکستان سے پہلے ان کے آبا و اجداد مستفید ہوتے رہے ہیں۔

اب بھی یہ طبقہ قانون کی بالا دستی، اداروں کی آزادی اور اصلاحات کے خلاف ہے اپنے ملک میں گِھسا پِٹا نظام دیکھنا چاہتے ہیں، برادریوں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ میرٹ کے بر عکس چور دروازے سے گھس کر فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ دقیانوس طبقہ ہے جن کا برطانیہ کی سوشل ڈیمو کریسی بھی کچھ تبدیل نہیں کر سکی۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ انہوں نے محرم آنے سے پہلے سوگ منانا شروع کر دیا ہے۔ کیوں کہ برائے نام تبدیلی کا نعرہ بھی اسٹیٹس-کو کو صور اسرافیل محسوس ہوتا ہے۔


متبادل آراء: مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے طرز سیاست کا موازنہ   از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

آزادی رائے، ریاست، سلامتی کے ادارے اور فرد  از، یاسر چٹھہ

سیاسی نظریات سے عاری انتخابات یا چُنیوں کی جنگ  از، ملک تنویر احمد

جراثیم سے پاک سیاسی نظام کی آمد آمد ہے  از، امر جلیل


پاکستانی عوام نے تبدیلی کو ووٹ دے دیا ہے، مگر عملی تبدیلی کا کٹھن سفر طے کرنا باقی ہے۔ برطانیہ میں آباد پاکستانی اسی سیاسی تبدیلی کو ایک بڑی سیاسی و سماجی جَست قرار دیتے ہیں جو نہ صرف کسی فرد واحد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے بل کہ اس کے لیے معروضی خارجی حالات پہلے سے ہی تیار ہو چکے تھے، یہ سیاسی و سماجی بیداری اور ارتقا ملک کے تمام طبقات میں پیدا ہو چکا تھا۔ روایت سے ہٹ کر عسکری و سویلین بیورو کریسی بھی جمہوریت و انصاف کی اقدار کو پنپنا دیکھنا چاہتی تھی۔ کیوں کہ سماجی ارتقا میں نہ صرف عوام شامل ہوتے ہیں بل کہ ملک کے تمام ادارے بھی اسے سے برابر متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں موڈریٹ جمہوری ارتقا و تبدیلی کی ایک خوب صورت مثال قائم ہوئی ہے، جس پر ہر ذی شعور اور محب وطن مطمئن نظر آتا ہے۔ خدانخواستہ اگر اس تبدیلی کا سفر رک جاتا تو قوم کے اندر ایک طویل مایوسی پھیلنی تھی جس کا کوئی تدارک نہیں تھا۔ مگر اس میں چیئرمین تحریک انصاف کی کرشمہ ساز شخصیت، فلاحی ریاست اور اصلاحی سیاست کا جذبہ، کرپشن کے خلاف بھرپور تحریک، تعمیر وطن کا جنون، فلاح و بہبود کے لیے انفرادی اقدامات بڑی اہمیت کے حامل ہیں دوسرا قوم اس پر اعتماد کرتی ہے کیوں کہ وہ قوم سے نہ جھوٹ بولتا ہے اور نہ ہی دھوکا دیتا ہے۔

پوری قوم کو بڑی مشکل سے یہ موقع ملا تھا اور اس میں انہوں نے کامیابی حاصل کر لی، سچائی کی اس تحریک میں قوم کے نو جوانوں کا کردار بھی کسی سے کم نہیں۔ تبدیلی اور تعمیر وطن میں ملک کے اعلٰی اداروں نے بھی عدل و انصاف کی روشن مثالیں قائم کی۔ مسلح افواج کا غیر جانب دارانہ کردار اور جمہوری رویہ نے بھی جمہوریت کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ شخصی آزادی کے تصور نے اجارہ دار سیاست کے قلعوں کو مسمار کر دیا، روایتی سیاست دانوں اور ملاؤں کی شعبدہ بازیوں کو عوام نے یک سر مسترد کر دیا۔

سوشل میڈیا نے پیغام رسانی کا انقلاب بپا کر دیا، جہاں ہر کوئی خود ایڈیٹر تھا، لوگوں نے ملکی نظام حکومت کا دوسرے ممالک سے موازنہ کرنا شروع کر دیا اور مقامی روایتی سیاست دانوں کے بیانیے نا کام ہو گئے۔ موجودہ سیاسی تحریک انقلابی سیاسی بیانیوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی بل کہ مسلسل مشق سے اس کی آبیاری کی گئی، تبدیلی کے لیے خارجی معروضی حالات پہلے سے موجود تھے۔ مگر عوام نے ایک لمبی دیر کے بعد رد عمل کا اظہار کیا، عوام کے پاس پہلے کوئی آپشن موجود نہیں تھی، مگر جب موقع ملا تو اجارہ دار روایتی سیاست کے چنُگل سے آزاد ہو گئے۔

تحریک انصاف کا کمال یہ ہے کہ اس کی فکری تربیت کسی فلسفیانہ انقلابی نظریہ کے تحت نہیں ہوئی نہ ہی یہ کسی سرمایہ دارانہ،جاگیرد ارانہ، مذہبی و عسکری بیساکھیوں کے سہارے معرض وجود میں آئی ہے، بل کہ یہ وہ خوب صورت گلدستہ ہے جس میں سارے قومی رنگ شامل ہیں۔

قومی ادارے جب جمہور کی آواز کی ترجمانی شروع کر دیں تو وہ بھی جمہور کی آواز بن جاتے ہیں۔ اس بنا پر تحریک انصاف لبرل نیشنل ازم کی وہ واحد ترجمان جماعت ہے، جس کا ووٹر، سپورٹر اور نمائندہ ملکی و قومی ترقی اور خوش حالی کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دیتا ہے، لسانی و مذہبی وابستگیوں، علاقائی و نسلی گروپوں، مقامی روایات و اقدار کی پاس داری، خاندانی و موروثی سیاست سے بالا تر ہو کر عوامی مسائل کے حل اور تعمیر وطن کے پروگرام میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ چئیرمین تحریک انصاف کی قیادت اور کڑے معیار کے سائے تلے اس تحریک کو عوام کی مدد بھی حاصل رہے گی۔

اس کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام نے ایک خالص آزادانہ ماحول میں اپنی رائے دہی کا استعمال کیا۔ مگر عوام کیا چاہتے ہیں وہ انتظامی و انصرامی لحاظ سے ایک بدلا ہوا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے بنیادی مسائل میں بتدریج کمی دیکھنا چاہتے ہیں، سادگی و کفائیت شعاری کو  حکمرانوں کے کردار، حرکات و سکنات میں دیکھنا چاہتے ہیں، ہر ادارے اور اس کے سر براہ کو قابل تقلید ماڈل کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کی مثال دی جا سکے۔

غربت کے خاتمہ اور روزگار کی فراہمی کے بغیر تبدیلی کبھی واقع نہیں ہوتی، اس کے لیے صنعتی ترقی اور زرعی اصلاحات لائے بغیر چارہ نہیں کیوں کہ یورپ میں جتنی بھی انقلابی اور اصلاحی تحریکیں چلیں ان کی کامیابی کا سہرا ان دو سیکٹرز میں تبدیلی لانا تھا۔ سیکنڈے نیویئن ممالک جہاں مارکسی تحریکیں اپنے زوروں پر تھیں نے آخرِ کار روسی سائنسی مینجمنٹ اور عقلیت کے درمیان سمجھوتہ کر کے ہر سیکٹر میں ترقی کا اغاز کیا، لیکن زرعی اصلاحات اور صنعتی ترقی ان کے ایجنڈے میں بنیادی حیثیت کے حامل تھے۔

بیرونی ممالک میں آباد با شعور پاکستانی اپنے ملک میں ترقی و تبدیلی کے لیے مغرب کے علمی و سائنسی کلچر کو بھی اپنا نے اور رائج کرنے پر زور دیتے ہیں کیوں کہ ترقی کا سارا عمل علمی و تجربی ہی ہوتا ہے، جس پر کسی متمدن سماج کی اساس قائم ہوتی ہے۔ اگر چِہ اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ مگر خوشی کی بات ہے کہ عوام خان پر اعتماد کرتے ہیں اور اس سے امید لگائے بیٹھے ہی۔ جس کا کام نہ صرف ایک بہترین سیاسی کلچر کو فروغ دینا ہے بل کہ جماعت میں شامل ہونے والی روایتی شخصیات کی اخلاقی و سیاسی تربیت بھی کرنی ہے، جہاں ہر ذمہ دار شخص تعمیر وطن کے لیے ایک مثالی کردار کا عملی نمونہ بھی بن سکے۔ مغربی ممالک میں عوام نے سیاست دانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر اپنی اقوام کی تقدیریں بدلیں، مگر ان کے حکمران قابل اعتماد بھی تھے۔