اووڈ (Ovid) کے دکھوں کا مداوا ہوا کیا
از، نصیر احمد
سوچا اووڈ کے دکھوں کا ترجمہ ہی کر دیں۔ وطن سے جدائی کے حوالے سے عہد نامہ قدیم میں بابل میں اسیری کے دوران’ اپنے مولا کا گیت ہم پردیس میں کیوں گائیں’ بھی ایک شاندار نوحہ ہے، گلزار کی شاعری بھی دینے کی یاد کے دکھوں کی کتھا ہے۔ امام زین العابدین کی نعت بھی بہت اعلٰی ہے۔
اووڈ کی فریادیں کافی عرصہ پہلے ہماری نظر سے گزری تھیں۔ اووڈ کو سیزر آگسٹس سے نے کوئی دو ہزار سال قبل روم سے در بدر کر دیا تھا۔ آج کل ہی روم کی شہری کونسل نے اس کی جلا وطنی کی سزا معطل کر دی ہے۔
درج ذیل ترجمے میں اووڈ اپنی بیگم کی یاد میں گریاں ہے۔
تم سوچ رہی ہو گی کہ خط میں میری تحریر کیوں نہیں ہے۔ کارن یہ ہے کہ میں بیمار ہوں۔ کسی اجنبی سر زمین کے کسی دور افتادہ گوشے میں بیمار، اور تن درستی کا کچھ یقیں بھی نہیں ہے۔ تم سوچ سکتی ہو کسی سیاہ خانے میں گنواروں کے درمیان بیماری کیسے بیتتی ہے۔
اس سر زمیں کے دریا مجھے نہیں بھاتے اور مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے کہ یہاں کی مٹی سے مجھے کیوں نفرت ہے؟ اور یہاں کی فضا تو مجھے بالکل ہی اچھی نہیں لگتی۔
پرسش علالت کے لیے نہ گھر اچھے ہیں نہ کھانے، اور کسی وحشی کو خداوند اپالو کے گیت بھی یاد نہیں ہیں کہ درد کچھ تو سنبھل جائے۔
تسکیں کو نہ کوئی دوست میسر ہے کہ آہستہ آہستہ گزرتے لمحوں کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہو۔ یہاں میں دور افتادہ لوگوں اور دور دراز مقامات میں تنہا پڑا ہوں اور انھیں یاد کرتا ہوں جو یہاں نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو تمھاری یاد ہی ہے جو میرے دل کا گھیراؤ کیے ہوئے ہے۔ غائب ہی سہی مگر تم سے ہی ہم کلام ، صبح و شام رہتا ہوں۔ اور شب و روز تم ہی میری سوچوں میں موجود رہتی ہو۔ غشی کی یہ کیفیت جو ربط تخیل لوٹ پلٹ دیتی ہے، اس میں بھی میرے لرزتے کانپتے ہونٹوں پر تمھارا ہی نام ہوتا ہے۔
اگر میں مرگ کے قریب بھی ہوں اور میری زبان تالو سے چمٹ جائے اور ایک جام مے اگر بات کچھ سہل کرے اور کوئی کہے کہ تم آئی ہو بہر تکریم میں اب بھی کھڑا ہو جاؤں گا۔ تمھیں دیکھنے کی امید میری توانائی کی وجہ ہے۔ اپنی پریشاں حالی میں بھی میں یہی سوچتا ہوں کاش تم مجھے فراموش کرنے میں کامیاب ہو جاؤ۔
نہیں، جانم قشنگ، تم مگر ایسی نہیں ہو۔ میرے بغیر تو بے الم تمھارا ایک لمحہ بھی نہ گزرتا ہو گا۔
اگر میری قسمت میرے بچے کھچے سال یہیں تمام کر دے اور جلد ہی یہاں میرے دن پورے ہو جائیں تب بھی میں یہی کہوں گا کہ کاش دیوتا میری جان بخش دیتے اور میں اپنے دیس کی مٹی میں ہی لپٹ کر مرتا۔
کاش سزا میں لمحہ مرگ کچھ تاخیر ہو جاتی، کاش میں در بدری سے پہلے ہی میں مر جاتا، میں اب بھی روشنی ترک کر نے کے لیے تیار ہوں اگر کوئی مژدہ سنائے کہ میری موت میرے وطن میں طے کر دی گئی ہے۔
ہائے میں روم سے دور اجنبی ساحلوں پر تنہا مر جاؤں گا۔ ہائے میری قسمت وحشیوں کے اس بادیے سے بھی بد تر ہے۔
اپنے مانوس بستر پر میرا جسم قوت نہیں کھوئے گا۔ اور میری موت پر کوئی بھی نہیں روئے گا۔ اور تمھارے آنسو میرے مرتے ہونٹ اک آخری بار تر نہیں کریں گے۔ وائے مرتے ہوئے زندگی دیتے وہ چند لمحے بھی میرے نصیب میں نہیں ہیں۔
نہ چند الوداعی کلمے، اور نہ گریہ آخریں اور نہ پتھرائی ہوئی میری آنکھیں بند کرتے تمھارے ہاتھ میری قسمت میں ہیں۔
اس وحشت گاہ میں نہ جنازہ اٹھے گا، نہ مزار بنے گا، بس موت سے جھکا ہوا میرا سر بے ماتم ہی دفن ہو جائے گا۔
یہ سن کر تمھارے دل تو تڑپ تڑپ جائے گا اور تم کانپتے ہاتھوں سے اپنی چھاتیاں پیٹو گی۔
میری سمت تم اپنی بانہیں بے سود پھیلاؤ گی۔ اور اونچی اونچی صداؤں میں اپنے شوہر کا بے معنی نام پکارتی رہو گی۔
میری بتی، تم نہ اپنے گال ادھیڑنا اور نہ اپنے بال نوچنا کہ میری موت ہماری جدائی کا پہلا موقع تو نہیں ہو گا۔ یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لینا کہ میں تو وطن سے جدا ہوتے ہی مر گیا تھا۔ وہ مرگ اول تو اس موت سے کہیں زیادہ الم ناک ہے۔
تم یہ سوچ کر خوش ہوجانا کہ موت نے دکھوں سے میری رہائی کر دی اگر یہ تم کر سکتی ہو، جو تم نہیں کر سکتی کہ تم بیگمات میں سے سب سے اعلی ہو۔
مگر تم تو دکھ سہہ کر ہی دکھوں کو اپنے بہادر دل کے سنگ سہل کر سکتی ہو۔ اس کی سب کو خبر ہے جو تمھیں جانتے ہیں۔
کاش میرے جسم کے ساتھ میری روح بھی گزر جاتی اور ارتھی کا کچھ بھی نہیں باقی رہتا۔
اب تو بے مرگ روح فضا میں اونچی اڑتی رہے گی کہ فیثاغورث اور ساموس کے حرف سچے ہیں۔
ہائے گنواروں کے سایوں کے درمیان ایک رومن تنہا پھرے گا۔ وحشیوں کے مردوں کے درمیان ایک اجنبی۔
تم کلس میں میری ہڈیاں بھر کے سات بہنوں کے شہر لانا کہ کم از کم موت میں تو میں مسافر نہ رہوں۔
اس کی مناہی نہیں کہ تھییبز کی اینٹی گون نے بادشاہ کی ناراضی کے باوجود اپنا بھائی تہہ خاک دفنایا تھا۔
تم بھی میری ہڈیوں پر پتے اور جٹاماسی بکھرا کر نزد شہر مجھے دفنا دینا۔
اور سنگ مرمر پر لکیریں کھینچ کر خوش خط لکھنا کہ پڑھنے والوں کی مائل بہ عجلت آنکھوں کو لوح مزار پڑھنے میں کچھ دشواری نہ ہو۔
‘یہ میری آرام گاہ ہے، میں جس نے مشفق محبت سے کھیل کیا۔ میں اووڈ کہ شاعر رنجیدہ ہوں اور اپنی فطانت کا گزیدہ ہوں۔ معشوقہ، گزرتے ہوئے تم جفا نہ کرو بلکہ یوں دعا کرو کہ اووڈ کی ہڈیوں کو تسکین پہنچے۔
اووڈ کی جلاوطنی کی ساری شاعری اسی طرح اشک انگیز اور الم خیز ہے اور اس کی شاعری اس کی جلا وطنی میں روم پہنچتی رہی، مگر سیزر آگسٹس کو کچھ رحم نہ آیا کہ اسے شک تھا کہ اووڈ نے اچھے دنوں میں سیزر کے محل کی خواتین کا تمسخر اڑایا تھا۔
کچھ سیزر کو اووڈ کے ایک محلاتی سازش میں ملوث ہونے کا بھی گمان تھا اس لیے اس نے اووڈ کو معاف نہیں کیا۔ اووڈ ورجل کی طرح روم کبیر کے اہم ترین شاعروں میں گنا جاتا ہے۔ دیر تو ہو گئی مگر روم کی شہری کونسل نے اس کی سزا معطل کر کے اووڈ کے دکھوں کا مداوا تو نہیں کیا لیکن ایک تاریخی غلطی کو درست کر دیا۔
شعرو ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے شاید یہ اہم واقعہ ہو، اس لیے ہم نے اووڈ کے دکھوں کی کتھا میں سے ایک باب کا ترجمہ کر دیا۔ امید ہے آپ پسند فرمائیں گے۔