A Pale View of Hills – پہاڑیوں کا ایک پیلا منظر
تبصرہ نگار : شیخ نوید
۲۰۱۷ء میں ادب کا نوبیل انعام جیتنے والے جاپان نژاد برطانوی ناول نگار کازاؤ اِشی گورو کا پہلا یہ پہلا ناول فروری ۱۹۸۲ ء میں شائع ہوا۔ مصنف کو اپنے ڈیبیوٹ ناول پر ۱۹۸۲ء میں ہی وینی فریڈ ہالٹ بائے میموریل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ناول ابتدائی طور اِشی گورو کے ایم اے کا ایک مقالہ تھا، فیبر پبلشر کو جب مصنف نے اِس کے ابتدائی ۳۰ صفحات پیش کیے تو انہوں نے مسودے سے متاثر ہوکر اِشی گورو کو ایک ہزار پونڈ ایڈوانس میں دے دیے، چنانچہ انہوں نے اطمینان کے ساتھ اپنا پہلا ناول مکمل کیا۔
’اے پیل ویو آف ہلز‘ ایک بوڑھی جاپانی خاتون اِت سُوکو اور اُس کے ماضی کی کہانی کو بیان کرتا ہے، اِت سُوکو انگلینڈ کے ایک دیہاتی علاقے میں رہائش پذیر ہے، جہاں اُس کی چھوٹی بیٹی نِکی چند روز کے لیے اُس کے پاس رکنے کے لیے آتی ہے، نِکی اِت سُوکو کے دوسرے انگریز شوہر سے پیداہوئی اور وہ برطانیہ کے ایک بڑے شہر میں اپنی من مرضی کی زندگی گزارتی ہے۔ نِکی کی آمد سے کچھ عرصہ قبل ہی اِت سُوکو کی بڑی بیٹی کے اِیکو نے خودکشی کی تھی۔ کے اِیکو کا والد جاپانی تھا، اِت سوکو جب اپنے پہلےجاپانی شوہر کو چھوڑ کر برطانیہ شفٹ ہوئی تو وہ اپنی بیٹی کو بھی ساتھ ہی لے آئی تھی۔
ناول کی مرکزی راوی اِت سُوکو اپنے ماضی کی یادوں کو کھنگالتی ہے، خصوصاً جنگ عظیم دور کے اختتام کے بعد ناگاساکی میں گزرے موسم سرما کے ایام کو، جب کے اِیکو اُس کے پیٹ میں تھی اور وہ اپنے پہلے جاپانی شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔ اِت سُوکو کو اپنی ایک پڑوسی خاتون ساچیکو شدت سے یاد آتی ہے، جو کہ جنگ سے قبل ایک امیر خاتون تھی، اُس کا شوہر اور ایک بیٹا جنگ عظیم کی بھینٹ چڑھ گیا، غریبانہ زندگی کی سفاکیوں نے اُس کے طرز حیات کو خطرناک کشمکش میں ڈال دیا ہے۔
جیسے جیسے اِت سُوکو اور ساچیکو کی دوستی پروان چڑھتی ہے تو اِت سُوکو کو علم ہوتا ہے کہ ساچیکو اپنے بہتر مستقبل کے پیچھے بری طرح مشغول ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اکلوتی بیٹی مارِیکو کی تربیت سے بھی بے پروا ہوگئی ہے۔ ماں کی طرف سے بڑھتی ہوئی غفلت نے بیٹی مارِیکو میں نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں، اِت سُوکو ماریکو کی صورتحال پر سخت تشویش میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
ناول کی درست تفہیم کے لیے ہم مصنف اِشی گُورو کی سوانح کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اِشی گوُرو ۱۹۵۴ء میں ناگاساکی میں پیدا ہوئے اور پانچ سال کی عمر میں والدین کے ساتھ جاپان چھوڑ کر برطانیہ شفٹ ہوگئے۔ اِت سُوکو کی بیٹی کےاِیکو بھی اتنی ہی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ برطانیہ آئی لیکن وہ نئے ملک کے ماحول سے مفاہمت نہیں کرپاتی اور تنہائی کا شکار ہوجاتی ہے، وہ کئی کئی روز اپنے آپ کو کمرے میں بند رکھتی ہے اور اُس کا کھانا اُس کے کمرے کے دروازے پر رکھ دیا جاتا ہے، بالآخر کے ڈیپریشن کا شکار ہوکر اِیکو خودکشی کرکے اپنا خاتمہ کرلیتی ہے۔
ناول جاپانی تاریخ کے ایک اہم موڑ کی منظر کشی کرتا ہے، جب جنگ عظیم دوم کی ہولناکیوں کے بعد جاپانی بطور قوم اور انفرادی طور پر تمام شہری شکست وریخت کے بعد تعمیر ی مراحل سے گزر رہے تھے۔ ناول کا مرکزی تھیم اُس نازک دور میں ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کی ضرورت، اُن سے پیدا ہونے والی مشکلات اور مسائل سے چھٹکارا پاکر کامیابی کے نئے مواقع ڈھونڈنا ہے۔
ناول کے مختلف کردار مشرق ومغرب کی تہذیبوں کے تصادم میں اپنی راہیں تراشنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔
ساچیکو اپنے اور بیٹی ماریکو کے بہتر مستقبل کے لیے حد درجے پرامید ہے، وہ فرانک نامی ایک انگریز سے تعلقات قائم کرتی ہے تاکہ اُس کے ساتھ جاپان کو چھوڑ کر نئے ملک میں شفٹ ہوجائے، بیٹی ماں کے عزائم بھانپ جاتی ہے و ہ فرانک کو سخت ناپسند کرتی ہے وہ آنے والے مستقبل کی ہولناکی اپنے دماغ میں سوار کرلیتی ہے جس کا اظہار اُس کے عجیب رویوں سے ہوتا ہے۔
اِت سُوکو کا سسر اوگاتاسان معاشرتی تبدیلیوں کو پسند نہیں کرتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ تبدیلیاں جاپان کی قدیم تہذیب کو نقصان پہنچائیں گی۔ اِت سُوکو کا جاپانی شوہر جِیرو مستقبل اور ماضی کے درمیان تذبذب کا شکارنظر آتا ہے، اُس کے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں کہ کامیابی کس جانب ہے اور ناکامی کس موڑ پر ملے گی۔
کازاؤ اِشی گورو کا زیادہ تر فکشن فرائض اور خواہشات کے درمیان جاری انسانی کشمکش کا احاطہ کرتا ہے، یہی بات ان کے اولین ناول میں بھی نمایاں ہے، خصوصی طور پر عورتوں کے کردار میں ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ جاپان کے روایتی اقدار کی پاسداری میں بھی مصروف نظر آتی ہیں لیکن وہ جدید اقدار سے بھی حد درجہ متاثر ہیں۔ ساچیکو اِس کشمکش کی انتہا دِکھتی ہے، وہ شدید غربت کے باوجود اپنے امیر چچا کے ساتھ رہنے سے انکار کردیتی ہے، وہ ایک جاپانی پر امریکی کو ترجیح دیتی ہے، اُسے اپنے بہتر مستقبل کے سہانے خوابوں کی تعبیر جاپان سے باہر نظر آتی ہے، وہ اپنی بیٹی ماریکو کو لامحدود آزادی دے دیتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کے رخ کا تعین ذاتی طور پر کرسکے۔
ناول کے کچھ کردار امید کا چراغ بھی روشن کرتے ہیں، مثال کے طور پر بوڑھی خاتون مسز فوجی وارا نے اپنا تقریباً پورا خاندان جنگ عظیم دوم میں کھودیا ہے لیکن وہ مایوس ہونے کے بجائے ایک نوڈل شاپ کو چلا کر اپنی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو دوبارہ پروان چڑھا رہی ہے۔ اِت سُوکو کی چھوٹی بیٹی نِکی نے اپنے بڑی بہن کے ایکو کے برخلاف مغربی کلچر کو نہایت آسانی کے ساتھ اپنا لیا ہے اور خوش خرم زندگی گزار رہی ہے۔
جیسے جیسے ناول آگے بڑھتا ہے،ہمیں نظر آتا ہے کہ اِت سُوکو اپنے سسر اوگاتاسان سے گرم جوش تعلقات کے باوجود معاشرتی تبدیلیوں کے حوالے سے اُس کے روایتی مؤقف کو درست نہیں سمجھتی، وہ اپنی سہیلی ساچیکو سے متاثر نظر آتی ہے، مغربی کلچر اپنانے سے اُسے جس قسم کی قربانیاں دینا پڑیں گی وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے، چنانچہ جب اپنے انگریز شوہر کے ساتھ اپنی بیٹی کے اِیکو کو لے کر برطانیہ منتقل ہوئی تو اُسے اِس کی ہجرت کی بھاری قیمت اپنی بیٹی کی خودکشی کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔