سرحدوں پر کشیدگی ۔۔۔ وزیر اعظم قوم کو اعتماد میں لیں
(حُرثقلین)
کسی بھی ریاست کی حفاظت کے لیے فوج کا ہونا ضروری ہے۔فوج کا کام ریاست کی سرحدوں کی حفاظت کرنا اور اسے دشمن کے بیرونی حملوں سے بچانا ہے۔تاریخی اعتبار سے بھی فوج صرف سرحدوں کی حفاظت اور پھر جنگ کے میدان کے لیے ہی منظم کی جاتی رہی ہے۔ اس کا ملک کے اندرونی معاملات سے کوئی خاص تعلق کبھی بھی نہیں رہا ہے۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نظریے میں تبدیلی آتی گئی اور فوج پر داخلی سیکورٹی کی ذمہ داری بھی ڈال دی گئی۔ آج کے جدید دور میں فوج کا کردار بہت ہی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔امریکہ اور روس سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی داخلی سیکورٹی کی ذمہ داری فوج ہی کے زیر انتظام حساس اداروں کے سپرد ہے۔اب کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے فوج یا اس کے زیر انتظام سیکورٹی کے اداروں کی رائے کو مسترد یا نظر انداز کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔
پاکستان میں بھی فوج کا کردار تاریخی اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔یہاں فوج برائے راست اقتدار میں بھی شریک رہی ہے۔اس کا نہ صرف ملک کی داخلی سیکورٹی بلکہ سیاست میں بھی برائے راست تعلق رہا ہے۔اصغر خان کیس میں یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ ایک سیاسی اتحاد آئی جے آئی بنوانے میں اس کا ہاتھ تھا۔پاکستان میں سولین قیادت اور فوج کبھی ایک پیج پر خوش دلی کے ساتھ نہیں رہے۔ان دو اداروں کے درمیان تناؤ نے ملک کے عوام کے لیے کافی مشکلات پیدا کی ہیں۔پیپلز پارٹی نے ایوب خان اور ضیا الحق کے خلاف بھر پور مزاحمت کی۔مسلم لیگ ن نے مشرف کے خلاف محاذ کھولے رکھا ۔ان دونوں اداروں کی کشمکش میں بیرونی عناصر نے بھی کھل کر مداخلت کی اور قومی خود مختاری کو بھی چیلنج کیے رکھا ۔
اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اس کے سربراہ فوج کے ذریعے ہی سیاست میں آئے مگر ضیا الحق کے بعد سے ان کے فوج کے ساتھ تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے ہیں۔9/11کے بعد سے جہاں باقی دنیا بدلی وہاں پاکستان پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔اس وقت سے پاکستان میں فوج کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا۔داخلی اور خارجی معاملات پر اس کی گرفت مضبوط ہونے لگی۔ضربِ عضب اور اب آپریشن ردالفساد نے فوج کو ملک کے داخلی معاملات میں بہت پر اثر بنا دیا ہے۔ملک کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں فوج کی رائے حرفِ آخر ہوتی ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیسی ہو گی اس کا فیصلہ بھی فوج کرتی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات مرتب کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔پاکستانی عوام اور فوج کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
دوسری طرف نواز شریف بھارت کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔وہ ہمیشہ سے اپنے اجداد کے ملک کے ساتھ رومانوی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ان کے کاروبار ی روابط بھی بھارتیوں کے ساتھ ا نتہائی عمدہ ہیں۔سجن جندال اس کی ایک مثال ہیں۔ ان کی رسائی وزیراعظم ہاوس تک باآسانی ہے۔بھارتی وزیر اعظم سے رابطے کا ذریعہ بھی یہی سجن جندال ہیں۔بھارتی کاروباری شخصیات سے نواز شریف اور ان کے خاندان کی قربت پاکستان کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہیں۔کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ یہ تعلقات کئی شکوک کو حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔مثال کے طور پر نواز شریف کبھی بھی کشمیر میں بھارتی مظالم اور جارحیت کے خلاف کھل کر نہیں بولتے۔بھارتی جاسوس گلبھوشن پر وزیر اعظم نے از خود کوئی پالیسی بیان نہیں دیا۔ڈان لیکس کی رپورٹ کو اب تک پاکستانیوں کے سامنے پیش نہیں کیا ممکن ہے کہ اس کے تانے بانے بھی بھارت کے ساتھ ملتے ہوں۔فوج نے جس انداز میں اس رپورٹ پر حکومتی اقدامات کو مسترد کیا ہے اس سے اس کے غصے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
فوج حکومت سے اصل ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی امید رکھتی ہے۔ آئی ایس پی آر کی اس ٹویٹ کے بعد بھارت اور افغانستان نے پاکستانی فوج کو سرحدوں پر کافی مصروف کر لیا ہے۔افغانستان طورخم اور چمن باڈر پر جس طرح حملے کر رہا ہے اس کے پیچھے بھارت کا ہی ہاتھ معلوم ہوتا ہے بھارت خود بھی پاکستان کے سرحدی علاقوں پرگولہ باری کر رہا ہے۔ان دونوں ملکوں کا مقصد پاکستانی فوج کو دباؤ میں لانا ہے۔ڈان لیکس پر اب فوج کوئی لچک دیکھاتی ہے اس کا فیصلہ تو سب کے سامنے جلد ہی آجائے گامگر پانامہ پر بننے والی جے آئی ٹی میں دو فوجی افسروں کی تحقیقاتی رپورٹ بھی نواز شریف سے متعلق اس کی پالیسی کو عوام کے سامنے آشکار کرے گی۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم قوم سے خطاب کریں اور پوری قوم کو اعتماد میں لیں جو شکوک بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ان سے متعلق پائے جاتے ہیں ان کو فوری دور کریں ۔بصورتِ دیگر اس خیال کو حقیقت میں بدلنے میں دیر نہیں لگے گی کہ افغانستان اور بھارت کی جانب سے سرحدوں پر کی جانے والی گولہ باری کسی بیک ڈور ڈپلومیسی کا ہی نتیجہ ہے۔