پاکستان امریکہ تعلقات میں بڑھتی بداعتمادی
از، حسین جاوید افروز
نئے سال کے آغاز پر جہاں ہر طرف ہیپی نیو ایئر کا شور سنائی دیتا ہے۔ وہاں امریکی صدر ٹرمپ نے بھی پاکستانیوں کو اس نئے سال میں بخوبی یاد رکھا جس کا ثبوت ان کی جانب سے کیا گیا وہ ٹوئٹ ہے جس میں کھل کر ٹرمپ نے اپنے خالص انداز میں پاکستان کو دھمکانے کی کوشش کی ۔جس کے بعد ملک کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں شدت سے یہ بحث چھڑ گئی کہ ٹرمپ کو آخر پاکستان پر غصہ کیوں آتا ہے ؟ بس پھر کیا تھا سوشل میڈیا ٹرمپ کی احمقانہ حرکات سے بھر گیا ۔ٹرمپ کی بدحواسیاں ،جس میں پوپ فرانسس کو تنگ کرنا ،ملینا ٹرمپ کا ٹرمپ کا ہاتھ جھٹک دینا ،ٹرمپ کا گستاخانہ انداز سے مختلف سربراہ ان مملکت کے ساتھ مصافحہ کرنا شامل ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی کو بھی سمجھ نہیں آتا۔ اپنی متلون مزاجی اور خطرناک حد تک منہ پھٹ شخصیت کے حامل ٹرمپ جو نومبر2016 میں ہیلری کلنٹن کو ایک حیران کن انداز میں ہرا کر وائٹ ہاؤس کے 45 ویں صدر بنے۔ کہا جاتا ہے کہ خود ان کو بھی اپنے جیتنے کا یقین نہیں تھا ۔لیکن فارن پالیسی اور بین الا قوامی تعلقات کا گہرائی سے مطالبہ کرنے والے جانتے ہیں کہ عالمی معاملات میں قومی مفاد کی اہمیت مسلمہ ہوا کرتی ہے۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر ہیلری وائٹ ہاؤس پر براجمان ہونے میں کامیاب ہوجاتی تو آج پاکستان اور امریکہ تعلقات ایک تنی ہوئی رسی پر نہیں چل رہے ہوتے ۔بلکہ کچھ ماہرین کے مطابق زمینی حقائق کم و بیش اسی سطع پر ہی رہتے ۔کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ بطور صدر اب ایک فرد ہی نہیں ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے ۔جو ہمہ وقت پینٹاگون ،سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور امریکی ایجنسیوں میں گھرا رہتا ہے جہاں اسے لمحہ بھر لمحہ کی بریفنگ دی جاتی ہے۔
لہذا ایک پاکستانی کے طور پر ہمیں ٹرمپ کی ذاتی خامیوں پر اس کو کوسنے سے کچھ نہیں ملے گا ۔کیونکہ پاکستان کے حوالے سے اس لمحہ موجود میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ایک صفحے پر ہی پائے جاتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اس ایک فیکٹر کے علاوہ شائد دوسرے تمام معاملوں میں امریکہ میں ٹرمپ کے تقریباٰ سبھی اقدامات کو شدید تنقید کی چھلنی سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔
جب بھی پاک امریکہ تعلقات کے نشیب و فراز کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ دونوں ممالک کی ترحیحات میں گلوبل اور ریجنل سطع کا فرق بھی کئی بار پیچیدگیوں کو جنم دے دیتا ہے۔ جیسا کہ اس وقت پاکستان کے داخلہ اور خارجہ معاملات میں چین کا بڑھتا اثرو رسوخ اور سی پیک جیسے عظیم الشان اور کثیر الجہتی منصوبے جس کی بدولت پاکستان نے ایک نئے دور میں قدم رکھا ہے اور اپنے لیے امکانات کا ایک نیا جہان آباد کرنے کی کوشش کی وہاں امریکہ چین کے ساتھ ہماری اس مضبوط ہوتی شراکت سے شاکی نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ جاپان ،آسٹریلیا ،بھارت اور جاپان کے ساتھ انڈو پیسیفک خطے میں چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہوچکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ کی خواہش ہے کہ اب بھارت کو خطے میں نمایاں کھلاڑی کے طور پر اپنی ذمہ داری اٹھا لینی چاہیے اور با لخصوص پاکستان کو بھارت کو علاقے کے پولیس مین کی حیثیت سے تسلیم کر لینا چاہیے۔ لیکن پاکستان خطے میں امریکہ کی بھارت نواز پالیسی اور بھارتی کردار کے پھیلاؤ کو قبول کرنے سے یکسر انکاری رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کو واشنگٹن میں ایک ایسے شرارتی عنصر کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو کہ افغانستان میں امریکہ کے لیے فوجی ثمرات سمیٹنے میں رکاوٹ ہے۔
اس کے برعکس اوباما دور میں پاکستان اور امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کیں جبکہ ٹرمپ انتظامیہ تو مذاکراتی عمل سے پہلے ہی طالبان فیکٹر کو جڑ سے اکھاڑنے کی بڑھک بازی میں مشغول ہے ۔چونکہ نائن الیون کے بعد سے امریکہ 870 بلین ڈالر افغانستان میں جھونکنے کے باوجود بھی اپنا پسندیدہ منظر نامہ تراشنے میں ناکام رہا لہذا اب اس ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے وہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی پشت پناہی کا الزام اسلام آباد کے سر تھوپتا ہے جبکہ پاکستان کو اس کے مقابلے میں محض 18 بلین ڈالر کی امداد دی گئی۔
ان عوامل کی بدولت اس وقت ہم پاک امریکہ تعلقات کے سرد ترین دور کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ کے ایک ٹوئٹ نے سارا توازن خراب کیا ہے ۔بلکہ ہم 2017 سے ہی دیکھ رہے ہیں جب 21 اگست کو ٹرمپ کی پاکستا ن کے خلاف ہرزہ سرائی ،اور اس کے بعد ریکس ٹلر سن اور میک ماسٹر کے دوروں میں اسلام آباد کو ڈومور کی بار بار کی کی گئی سخت تاکید اور پھر اب22 دسمبر کو افغانستان کے دورے پر آئے نائب صدر مائیک پنس کی جانب سے کھلی دھمکی۔
یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہی کیا جارہا ہے ۔ٹرمپ کی ٹیم میں میک ماسٹر اورلیزا کرٹس اس وقت پاکستان کے خلاف ایک واضح موقف رکھتے ہیں اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔جبکہ افغانستان میں داعش کے بڑھتے اثر پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور سابق افغان صدر حامد کرزئی تو داعش کی سرپرستی کا الزام امریکہ پر تھوپنے میں کوئی تکلف بھی نہیں برت رہے۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ کرائے کے سپاہیوں کے ذریعے بھی افغانستان میں خفیہ آپریشن کر کے زمینی صورتحال بدلنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں ۔اس وقت ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ اسلام آباد کے پاس کیا کوئی ترپ کا پتا موجود ہے جس کو عقلمندی سے استعمال کر کے ہم امریکی امداد کے بغیر گزارہ کر سکیں اور بڑھتے امریکی دباؤ کو بھی جھیلنے کے قابل ہوجائیں؟سب سے پہلی بات پاک امریکہ تعلقات کی الجھی ڈور میڈیا پر جذباتیت کے گھوڑے دوڑا کر تو سلجھ نہیں سکتی۔
لیکن افسوسناک امر تو یہ ہے کہ بڑھکیں مارنے کا عمل ہمارے وزیر خارجہ نے ہی شروع کیا ہے ۔حالانکہ خارجہ معاملات نہایت رکھ رکھاؤ اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرنے کے عمل پر ہی نشوونما پاتے ہیں ۔اسلام آباد کو اپنی امریکہ پالیسی کو ازسر نو مرتب کرنا ہوگا ۔یاد رہے ماضی میں بھی 65 کی جنگ کے بعد ہم نے امریکی پابندیوں کا مقابلہ اپنی دفاعی پیداوار کو بڑھا کر کیا تھا۔
اسی طرح مئی 1998 میں جوہری تجربات کی کامیابی کے بعد بھی ہم نے امریکی پابندیوں کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بڑے عالمی چوہدریوں کے ساتھ ایک متوازن پیٹرن پر استوار کرنا ہوگا ۔ہمارے خارجہ امور کے ماہرین کو امریکی عمل کا ردعمل دینے کے بجائے ایک ٹھوس پالیسی بنانا ہوگی جس کو اپناتے ہوئے ہم بیجنگ اور ماسکو کے ساتھ اپنی تزویراتی اور معاشی مفادات کو ہم آہنگ کریں تاکہ واشنگٹن پر انحصار کم سے کم رکھا جائے۔ لیکن امریکی تعلقات ابھی بھی ہمارے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ مارچ میں آئی ایم ایف سے گفت و شنید کرتے ہوئے ہمارے پاس کچھ لیوریج ہونا چاہیے کیونکہ امریکہ کا عالمی مالیاتی اداروں پر اثرورسوخ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ محض دھمکیوں تک ہی محدود رہے گا یا کچھ مزید سخت اقدامات بھی لے گا ۔ٹرمپ کے پاس ایک آپشن تو تجارتی و معاشی پابندیوں کا ہے جس سے وہ اسلام آباد کو زچ کر سکتا ہے ۔اور اس کے ساتھ آئی ایم ایف کے حوالے سے بھی امریکہ ہمارے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے ۔ڈرون حملوں میں مزید تیزی آ سکتی ہے اور ان کا دائرہ کار فاٹا سے نکل کر بندو بستی علاقوں تک پھیل سکتا ہے جو کہ اپنے آپ میں واقعی ایک تشویشناک امر ہے ۔جبکہ اس کے جواب میں اسلام آباد بھی کچھ ایسے اقدامات لے سکتا ہے جس سے امریکی صدر کو بھی ایک ٹھوس پیغام پہنچایا جائے ۔جن میں ایک تو نیٹو سپلائی روٹ کی بندش ہے جس کو 2011 میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے ردعمل کے طور پر بھی استعمال کیا گیا تھا ۔اس اقدام سے افغانستان میں جاری امریکی آپریشن، رسد اور ہتھیاروں کی سپلائی منجمند ہونے سے خاصا متاثر ہوسکتا ہے ۔دوسرا ہم امریکہ پر واضح کرسکتے ہیں کہ اسلام آباد میں واقع امریکی سفارتخانے میں اتنا ہی عملہ تعینات کیا جائے جتنا واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں موجود ہے۔
یاد رہے خطے میں اسلام آباد میں قائم سفارتخانہ سب سے بڑا ہے جہاں ایک ہزار سے زائد افراد تعینات کیے گئے ہیں ۔ان کشیدہ حالات میں پاکستان کو پاک افغان بارڈر منجمنٹ کو مزید مستحکم بنانے پر اپنی کوششیں تیز تر کرنی چاہیے تاکہ کراس بارڈر ٹیررازم کی روک تھام کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمیں امریکہ میں اپنی لابی کی بھی اوور ہالنگ کرنی چاہیے تاکہ اہل افراد ان اہم پوزیشن پر لائے جائیں جو امریکہ اور دنیا کو تصویر کا دوسرا رخ دکھا سکیں تاکہ ہم اپنا کیس سفارتی انداز سے مدلل انداز میں لڑ سکیں۔
اس کے لیے ہمیں مکے اور معذرت کے درمیان کا راستہ منتخب کرنا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ کہ ہم ڈو مور کی امریکی گردان کے عادی ہوچکے ہیں مگر اتنا توواشنگٹن کو بھی علم ہے کہ کابل میں امن کی چابی پاکستان کے پاس ہے اور اس مسئلہ کا حل بھی اسلام آباد کے تعاون سے ہی نکلے گا ۔یاد رہے کہ یہ ایک کمزور امریکہ ہے ۔یہ جارج ڈبلیو بش کے نائن الیون کے بعد کا منہ زور امریکہ نہیں ہے جو برائی کے محور ،WMD s اور پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکیاں دیا کرتا تھا۔
لیکن ہمیں کہیں نہ کہیں برف پگھلتی بھی دکھائی دے رہی ہے جب 12 جنوری کو آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور امریکن سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کے درمیان گلے شکوے ہوئے ۔جس میں آرمی چیف نے اپنا موقف واضح کیا کہ پاکستان کی قربانیوں اور دہشتگردی کے خلاف جاندار کردار کو فراموش نہیں کیا جائے ۔آپریشن ردلفساد کے نتیجے میں ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے ۔ہم امریکی خدشات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن ہم امریکہ سے امداد بحالی کی درخواست نہیں کرینگے۔
جس پر جنرل جوزف ووٹل نے بھی پاکستان کے دہشتگردی کے تدارک کے حوالے سے کردار کو سراہا اور واضح کیاکہ امریکی پاکستان کے اندر کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان دہشتگردوں کی سرکوبی کرتا رہے ۔تاہم اس ساری بحث کے بعد شائد پاک امریکہ تعلقات کا ماضی تاریخی متروکیت کی جانب گامزن ہوچکا ہے اور ٹرمپ کا عہد دونوں ممالک کے درمیان کانٹوں بھرے سفر کا محض آغاز ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔