
جب ڈھاکا ایئرپورٹ پر پاسپورٹ چیک کرتے ہوئے افسر نے کہا، “پاکستان، بنگلہ دیش بھائی بھائی!”
از، عرفانہ یاسر
یہ انتیس ستمبر 2024 تھی اور اتوار کا دن تھا جب میں نے ڈھاکا کے شاہ جلال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لَینڈ کیا۔
کچھ دیر تک تو یقین ہی نہیں آیا کہ آخرِ کار یہاں پہنچ گئی ہوں، کیوں کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے ویزے کے ایک طویل، نا امیدی کے گہرے سایوں میں تھوڑی سی امید دیتے، اور تھکا دینے والے پراسِس سے گزرنا پڑا۔
امریکہ اور لندن جانا اتنا مشکل نہیں لگا تھا جتنا بنگلہ دیش کی جانب سفر کا ارادہ کرنے اور اُس ارادے کی تکمیل کر کے وہاں پہنچنے میں مشکلوں کا سامنا رہا۔
اپریل سنہ 2024 کی بات ہے کہ مجھے سینئر نیوز ایڈیٹر بی بی سی ورلڈ سروس کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی کہ وہ چاہتی ہیں میں ایشیاء میں بی بی سی ورلڈ سروس کے بیُورَوز کے مختلف دفتروں میں جاؤں اور اُن میں سے سب سے ضروری بی بی سی بنگلہ کا آفس ہے۔
ای میل پڑھ کر ایک طرف جہاں کچھ اِکسائٹمنٹ ہوئی تو وہیں فوری طور پر یہ سوال بھی سامنے آ گیا کہ کیا ویزہ مل جائے گا؟
جن دنوں ای میل پر حُکمِ باس ملا پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلّقات جس نہج پر تھے ان حالات میں بنگلہ دیش کے ویزے کا سوچنا ذرّہ برابر بھی ممکن نہیں لگ رہا تھا، اس کی ایک وجہ وہاں کی اُس وقت کی حکومت تھی جس کو انڈیا کے زیادہ قریب سمجھا جاتا تھا اور پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلُّقات سرد مِہری سے بھی اگلے درجے کے خراب تھے۔
خدشات بیش بہا تھا، امیدیں کم تھیں۔ لیکن ساتھ ہی خیال آیا کہ چلیں کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔
یہ بات اُس وقت کی بات ہے، جب بنگلہ دیش میں حالات کی باگ ڈور شیخ حسینہ واجد کے ہاتھوں میں تھی اور وہ الیکشن کے بعد تازہ دَم قسم کی وزیرِ اعظم بن چکی تھیں۔ مطلب یہ کہ ویزہ نام کے کسی پرندے کے اپنے پَروں میں پھڑپھڑا کر اُڑنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔
باس کے فراہم کردہ پلان کے مطابق مجھے اکتوبر میں بنگلہ دیش جانا تھا تو بہتر یہی لگا کہ اگست میں ویزے کے لیے اپلائی کر دوں گی، تا کِہ ویزے نے اگر رینگ رینگ کر بھی پہنچنا ہے تو حسبِ ارادہ بنگلہ دیش جانے کے دنوں تک یہ پہنچ آئے۔
یکم اگست 2024 کو ویزے کی درخواست جمع کروا دی۔ ویزے کی یہ درخواست اس امید کے ساتھ جمع کرائی کہ اَن ہونی میں بھی تو اَن کے بعد ہونی آ ہی جاتی ہے، یعنی آس اور یاس کے بِیچ کا عالَم رہا۔
اَن ہونی نے اپنے ممکن ہو جانے کے سلسلے کا پہلا قدم یوں اٹھایا کہ جیسے ہی ویزے کی درخواست داخل کی، اس کے کچھ دن بعد ہی بنگلہ دیش میں طُلَباء کا احتجاج شروع ہو گیا۔ اس احتجاج کی چلتی ہواؤں کے سبب کچھ دنوں میں ہی وہاں کا سماں ہی بدل گیا۔
اگست کے مہینے کے آخِر میں پتا چلا کہ چُوں کہ بنگلہ دیش میں نئی حکومت آ گئی ہے، اس لیے امید ہے کہ ویزوں پر لگے تالوں کے کُھلنے کی آس کے اب پتے نکل آئے ہیں۔ سو، بنگلہ دیشی طلَباء کے احتجاج کی ہواؤں نے ویزے کی آس کے جلتے بُجھتے دِیے کی لَو تیز کر دی۔
پاکستان میں بنگلہ دیش ہائی کمیشن اور بنگلہ دیش میں بی بی سی کولیگ کی کوششوں سے امید اور بڑھ گئی کہ ویزہ ملنے کا چانس ہے۔
پلان کی ہوئی تاریخ سے کچھ دن پہلے ہائی کمیشن سے میسِج آیا کہ اپنا پاسپورٹ لے آئیے۔ آپ کے ویزے کی قبولیّت گھڑی آن پہنچی ہے۔
جس دن مجھے پاسپورٹ لے کر ہائی کمیشن جانا تھا اس دن اسلام آباد میں شدید بارش ہو رہی تھی۔ جوشِ سفر میں اس بارش میں ہائی کمیشن گئی اور پاسپورٹ جمع کروایا۔ مجھے کہا گیا کہ آپ تین گھنٹے بعد آ کر پاسپورٹ لے جائیے گا۔
جیسے ہی باہر نکلی اور گاڑی میں بیٹھی، شدید بارش میں کسی نے گاڑی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ڈرائیور نے شیشہ نیچے کیا تو وہ “صاحب” جنھوں نے سفید شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور برستی بارش میں باہر کھڑے تھے وہ میری سِیٹ والی سایئڈ پر آ گئے اور پوچھنے لگے آپ اندر گئی تھیں؟
میں نے جواب دیا، جی تو کہنے لگے ویزہ کے لیے اپلائی کیا ہے۔
مجھے کچھ حیرانی ہوئی اور کہا کہ اگر ویزہ اپلائی کیا بھی ہے تو آپ کو کیوں بتاؤں۔
غصہ بھی آیا کہ آپ میری پرائیویسی میں کیوں مداخلت کر رہے ہیں۔
میں نے پوچھا، آپ کون ہیں اور میں آپ کو کیوں بتاؤں تو جواب ملا ہم سیکیورٹی ہیں۔
اس وقت کچھ کچھ سمجھ آئی کہ سیکیورٹی سے ان کی کیا مراد ہے۔ یہ صاحب وہ تھے جنھیں ہم انگریزی اخبارات میں plain clothes-men کہتے ہیں۔
پھر پوچھا آپ اپنا نام بتائیں۔ تو میں نے جواب دیا کہ میں اپنی اِنفرمیشن آپ کو نہیں دے سکتی اور ڈرائیور کو کہا، یہاں سے چلیں۔
یہ وہ دن تھا جب پاکستان کے وزیرِ اعظم، امریکہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائنز کی ملاقاتوں میں بنگلہ دیش کے ایڈوائزر محمد یونس سے مل رہے تھے۔
ویزے کے اس پراسِس کی تفصیلات امید و نا امیدی کے سنسنی خیز ڈرامے کی مُتَعدد قسطیں تھیں۔ خیر ویزہ مل گیا، All’s well that ends well) یہ جملہ لکھتے وقت اپنی سینکڑوں سانسوں کا خلاصہ کیا ہے۔
پاکستان سے بنگلہ دیش کوئی ڈائریکٹ فلائیٹ نہیں جاتی، اس لیے پہلے بنکاک اور پھر وہاں سے ڈھاکا جانا تھا۔
بنکاک ایئر پورٹ پر کچھ گھنٹے گزارنے کے بعد ڈھاکا کے لیے تیّار تھی۔ اس وقت بنکاک ایئرپورٹ بیٹھی سوچ رہی تھی کہ بنگلہ دیش جانا اتنا مشکل کیوں ہے؟ کیوں ہمیں ایک دوسرے کے ملک میں جانے کے لیے اتنی تگ و ود کرنی پڑتی ہے۔ جہاز میں کھڑکی والی سیٹ ملی تو خوش ہو گئی کہ اب ڈھاکا کو اوپر سے بھی دیکھ سکوں گی۔
جب ڈھاکا ایئرپورٹ پر لینڈنگ ہوئی تو خود کو ذہنی طور پر تیّار کیا کہ اب یہاں بہت سوالات کیے جائیں گے، مجھ پر دنیا جہاں کے شک ہوں گے جن کو رفَع کرنے کے لیے اپنے ذہن کو کلیئر کیا۔ امیگریشن سے پہلے اپنے تمام ڈاکیُومنٹس اکٹھے کیے۔ جن لوگوں نے بنگلہ دیش پہلے وِزٹ کیا ہوا تھا ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر امیگریشن کے پراسِس کے دوران تنگ کیا جاتا ہے۔
لیکن یہاں تو ایک عمدہ اینٹی کلائمَیکس دیکھنے کو ملا؛ جیسے ہی میری باری آئی، امیگریشن آفیسر نے پاسپورٹ دیکھا اور کہا:
“پاکستان؟” پھر پوچھا، “کس لیے آئی ہیں؟ کہاں رکیں گی؟” وغیرہ وغیرہ۔
اور پھر پاسپورٹ پر سٹمپ لگاتے ہوئے کہا، “اَیو آ گُڈ ٹائم!” یہ الفاظ سن کر سوچا امید کرتی ہوں اگلی بار پھر آؤں گی۔
اپنا پاسپورٹ واپس لیا اور سامنے کی جانب دیکھا تو میرے نام کا پیپر لیے کوئی کھڑا تھا، اسے میں نے ہاتھ ہلایا۔ ہوٹل نے ڈرائیور بھیجا تھا جس نے مجھے پِک کر کے ہوٹل چھوڑنا تھا۔
ایئرپورٹ سے باہر نکلنے سے پہلے ایک اور جگہ پاسپورٹ چیک کرتے ہوئے افسر نے کہا، “پاکستان، بنگلہ دیش بھائی بھائی!”
ایئرپورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ یہاں کے لوگ ہم جیسے ہی نظر آ رہے ہیں۔ سڑک پر گاڑیاں بھی ہم جیسی ہی ہیں۔
گاڑی کے ڈرائیور کو اردو اور ہندی آتی تھی تو اس سے بات شروع ہو گئی۔ اس نے کہا وہ بھی پاکستان جانا چاہتا ہے۔ پھر وہ بتانے لگ گیا کہ ڈھاکا میں کہاں کہاں جا سکتی ہوں۔
جیسے ہی شہر کے اندر گاڑی داخل ہوئی تو ٹریفک کا شور ایسی چیز تھی جو پہلی توجُّہ طلب چیز بنی۔ ٹریفک کا اتنا شور، پاکستان میں نہیں سنا تھا۔ (یا پھر یہ شاید ایک دھائی سے زیادہ اسلام آباد کی پُر سکون فضاؤں میں رہنے کا سائیڈ اِفیکٹ تھا؟)
دوسری چیز جو قابلِ غور نظر آئی وہ سائیکل رِکشا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید یہ اب نہیں چلتا ہو گا، لیکن سٹرک پر بے شمار سائیکل رکشے تھے؛ جو بسیں نظر آئیں وہ پاکستان میں موجود پرانی بسوں جیسی تھیں۔
ڈرائیور نے مجھے کچھ جگہوں اور مارکیٹوں کا بتایا جہاں سے ساڑھیاں اور سِلک ملتا ہے۔
مجھے جس ہوٹل جانا تھا وہ ایک پوش علاقے میں تھا جس کا نام گُلشن تھا اور پوچھنے پر کہ اس کا نام گلشن کیوں ہے، یہ جان کاری ہوئی کہ اس علاقے کو کراچی میں گلشن کے طرز کا بنانے کا منصوبہ تھا اس لیے اس کا نام گلشن ہے۔
ہوٹل پہنچی تو رِیسپشن پر سبزی کے جوس سے تواضُع کی گئی جو کافی اچھا لگا۔ چُوں کہ پوری رات سفر کی وجہ سے سوئی نہیں تھی اس لیے کچھ دیر سونے کے بعد اپنے ہوسٹ کو کال کی اور ان سے پوچھا کوئی کھانے کی جگہ بتائیں جہاں میں اکیلی جا سکتی ہوں۔ انھوں نے ہوٹل کے بالکل پاس ایک جگہ کا بتایا۔
سڑک پر چلتے ہوئے میں نے اپنا فون چھپا کر رکھا کہ کہیں کوئی چھین کر ہی نہ لے جائے۔ چلتے ہوئے ایک چیز جو مجھے کچھ الگ سے لگی کہ آپ کو کوئی گُھور نہیں رہا تھا۔ کچھ دیر حیرانی ہوئی اور پھر خوشی؛ سوچا ایسی آزادی پاکستان میں کیوں نہیں ہے؟ پھر سوچا یہ شاید یہ بات یہاں کے پوش علاقے کی وجہ سے تھی؟ لیکن جب میں نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ بنگلہ دیش میں عام طور پر لڑکیوں کے لیے سڑک پر چلنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔
میں وہاں سوچ رہی تھی کہ اسلام آباد کے پوش علاقے ایف سکس یا ایف سیون میں اگر آپ اس طرح سڑک پر چل رہے ہوں تو کتنی گاڑیاں آپ کے پاس رکیں گی۔ یہ آزادی ہمیں پاکستان میں کیوں نہیں ہے؟ میں آج بھی اسلام آباد کے کسی علاقے میں اکیلی واک کرتے ہوئے محفوظ کیوں محسوس نہیں کرتی؟
شام کا وقت تھا اور چُوں کہ اس علاقے میں بہت سارے دفتر تھے، تو بہت سی لڑکیاں دیکھیں جو آرام سے سڑک پر چل رہی تھیں۔ کسی نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی تو کسی نے بُرقَع اور کسی نے جینز۔ میں نے اپنے آپ کو اور پُر اعتماد پایا۔ واک کرتے ہوئے ریسٹورنٹ پہنچی اور کھانا کھایا۔
کچھ دیر میں ہوسٹ آ گئے اور انھوں نے کہا چلیں آپ کو ڈھاکا دکھاتے ہیں۔ شام گئے کا وقت ہو چکا تھا اور ٹریفک کچھ کم ہوگئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں ٹریفک کا کتنا بڑا مسئلہ ہے اور تھوڑا سا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔
سڑک کے کنارے ریڑھی والے کھڑے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں آپ کو بہت سارے تالاب نظر آئیں گے جوکہ میں نے جہازکی لینڈنگ سے پہلے فضا میں سے دیکھے تھے۔ ایک تالاب کے پُل پر ہم کچھ دیر کھڑے ہوئے جہاں سے ڈھاکا شہر کو دیکھ سکتے تھے۔
ہم صحافی تھے اور اس دوران ہم نے بہت ساری سٹوریز پر بات کی جو بنگلہ دیش سے کی جا سکتی ہیں۔
اگلے دن میرا آفس میں پہلا دن تھا جب آفس پہنچی تو تمام کولیگز نے انتہائی گرم جوشی سے خیر مَقدَم کیا۔ کام کے ساتھ ساتھ ہم نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں، کھانوں، شہروں اور بہت سا نالِج ایکسچینج کیا۔
لنچ کا وقت ہوا تو بتایا گیا کہ یہاں پاس میں مشہور مٹن بریانی ہے جو کہ پاکستان اور افغانستان سے انسپائر ہو کر بنائی جاتی ہے۔ میں نے کہا ضرور کھائیں گے۔ بریانی کا آرڈر کیا گیا باقی کولیگز نے اپنے لیے وہی کھانا منگوایا جو کہ وہ اکثر منگواتے ہیں اوراس کی قیمت ایک سو ٹکا ہے۔ اس میں سفید اُبلے ہوئے چاول کے ساتھ دال اور سبزی تھی۔
سب نے وہ چاول ہاتھ سے کھائے اور میں نے انھیں بتایا کہ پاکستان میں ہم تو انھیں چمچ سے کھاتے ہیں جو ان کے لیے ایک سرپرائز تھا۔ میں نے کچھ کھانا وہی کھایا جو وہ کھاتے ہیں، اور باقی اپنی منگوائی بریانی کھائی۔
شام کو ایک کولیگ کے ساتھ شاپنگ کا پلان بنایا اور چُوں کہ بنگلہ دیش اپنے گارمنٹس کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے تو سوچا اپنے بچوں، فریدُون اور جہاں یار کے لیے شرٹس لے لوں گی۔
بازار میں بہت ساری شرٹیں لیں اور پھر ساڑھیوں کی دُکان کا رخ کیا۔ اس دوران سائیکل رکشے پر بیٹھے جو کچھ اچھا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ لگ رہا تھا کہ اِسے چلانا کافی مشکل کام ہے۔ خیر اس نے ہمیں ساڑھیوں کی دُکان پر پہنچا دیا۔
ایک دُکان سے ساڑھی دیکھی جو مجھے پاکستان کے حساب سے کچھ مہنگی لگی۔ ہر چیز کی قیمت پاکستان کی کرنسی کے حساب سے دُگنی تھی۔ لیکن ساڑھی لینا بھی ضروری تھا۔
شاپنگ کے دوران پتا چلا کہ بنگلہ دیش میں پاکستانی شلوار قمیص بہت پسند کی جاتی ہے۔ میں نے وہاں جو شلوار قمیصیں دیکھیں وہ کوالٹی میں پاکستان کے مقابلے بہتر نہیں تھیں۔ اپنی کولیگ سے وعدہ کیا اگلی بار آئی تو آپ کے لیے پاکستان سے شلوار قمیض لے کر آؤں گی۔
اس کے بعد ہم ایک جگہ رکے تا کِہ کھانا کھایا جائے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کی کرنسی کے نوٹوں کا موازنہ کیا اور پتا چلا کہ کچھ عرصے میں شاید شیخ مجیبُ الرّحمان کی فوٹو کرنسی پر نہ رہے اس لیے کچھ کو سنبھال کر رکھنا چاہیے۔
بہت سارے لوگوں سے بات کرکے پتا چلا کہ وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں، لیکن ڈائریکٹ فلائیٹ اور ویزہ پراسِس طویل ہونے کی وجہ سے مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک اور مشکل یہ ہے کہ اگر بنگلہ دیش سے کسی کو پاکستان کا ویزہ مل گیا تو اس کے لیے انڈیا کا ویزہ مشکل ہو جائے گا جو ان کے لیے نقصان دِہ ہے کیوں کہ انڈیا جانا آ سان بھی ہے اور سستا بھی۔
بنگلہ دیش سے لوگ بڑی تعداد میں انڈیا علاج کے لیے جاتے ہیں کیوں کہ بنگلہ دیش میں علاج کی سہولیات اچھی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ انڈیا میں ٹُؤر ازم کے لیے بھی بنگلہ دیش میں رہنے والوں کو مناسب محسوس ہوتا ہے۔
ایک اور بات جس نے کچھ حیران کیا کہ وہ وہاں مشرُوباتِ خُمر کی بارز کا ہونا ہے۔ جس ہوٹل میں رکی تھی وہاں پر بھی ایک بار تھا۔ تجسُّس کے عالم میں مزید تفصیل کے لیے پوچھا تو علم ہوا کہ بنگلہ دیش میں آپ کو الکوحل مل جاتی ہے، مگر اس کے لیے پرمٹ ہونا چاہیے۔ اور وہ پرمٹ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو ڈاکٹر نے پرَیسکرائب کیا ہے، یا پھر یہ صرف خانہ پُری کے لیے ہے، اصل میں پرمٹ نہ بھی ہو کوئی اتنی مشکل نہیں ہوتی۔
آپ ڈھاکا میں ہوں اور مچھلی چاول نہ کھانا حیرانی کی بات ہوتی ہے؛ مچھلی سے مجھے کچھ خاص رغبت تو نہیں ہے لیکن میں جہاں جاتی ہوں کوشش کرتی ہوں کہ وہاں کی مشہور چیز کھائی جائے۔
ڈھاکا کی دیواروں پر طلباء کے احتجاج کے دوران لکھے گئے نعرے ابھی بھی موجود تھے۔
میں ڈھاکا میں تین دن رہی جو کہ اب لگتا ہے کم تھے۔ اب سوچتی ہوں کاش کچھ اور دن وہاں گزار پاتی۔
واپسی پر مجھے بنگلہ دیش سے نیپال جانا تھا۔ ایئرپورٹ پر پہنچی تو مجھے بتایا گیا کہ ڈھاکا کی ایک مشہور مٹھائی کی دُکان ہے جہاں سے لوگ مٹھائی لے کر جاتے ہیں۔ اس دُکان سے میں نے بھی کچھ مٹھائی لی اور اس امید کے ساتھ وہاں سے جہاز میں بیٹھی کہ دوبارہ موقع ملا تو ضرور آؤں گی۔
(بہ وساطت،سوشل میڈیا/فیس بک)