قومی مردم شماری اور زبانوں کا مسئلہ
(پروفیسر ممتاز حسین)
مردم شماری کسی ملک میں آبادی کے اعداد و شمار سائنسی بنیادوں پر جمع کرنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کے عمل کو کہتے ہیں۔ مردم شماری کے ذریعے لوگوں کی تعداد، ان کی علاقائی تقسیم، زبان، مذہب، تعلیم، پیشہ، آمدنی، خواندگی، معیار زندگی، سہولیات، عمر، جنس، گھرانے کا سائز وغیرہ کے بارے میں ڈیٹا جمع کرکے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ مردم شماری کے نتائج پورے ملک اور اس کے انتظامی یونٹوں میں آبادی کے صورت حال کو وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی مدد سے یونٹوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کی جاتی ہے۔ اقتصادی ترقیاتی منصوبہ بندی اور سالانہ بجٹ کی تیاری میں بھی یہ اعداد شمار بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک میں انگریزوں کے زمانے میں مردم شماری باقاعدگی سے ہر دس سال بعد ہوتی رہی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ عمل دھرایا جاتا رہا۔ لیکن 1981 کی مردم شماری کے بعد سیاسی عوامل کی وجہ اس عمل میں تعطل پڑا۔ اگلی مردم شماری 1998 میں ہوسکی اور اس کے بعد پھر ایک طویل عرصے تک یہ عمل معطل رہا۔ یہاں تک کہ پچھلے سال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو ہر حال میں اس عمل کو 2017 میں کرنے کا انتظام کرنا پڑا ہے۔ اس انتہائی اہم عمل کے نہ ہونے سے ملک کے اندر تمام تر منصوبہ بندی اور وسائل کی تقسیم کے فیصلے محض اندازوں کی مدد سے کیے جاتے رہے ہیں اور ان فیصلوں کے بارے میں مختلف حلقوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
چونکہ مردم شماری کا عمل ملکی ترقی اور استحکام کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے مردم شماری کا باقاعدگی سے حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ مردم شماری کا کام سائنٹفک انداز میں پوری شفافیت کے ساتھ کیا جائے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں اس عمل کی شفافیت پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی لحاظ سے اس عمل کا معیار بھی بہت پست رہا ہے۔ اس عمل پر سوالات اٹھنے کی وجہ سے حکومت کو بار بار اسے ملتوی کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ مردم شماری کے عمل میں معیار اور شفافیت کو بہتر بنا کر اسے سب کے لیے قابل قبول بنایا جاتا۔
ہمارے ملک میں مردم شماری کے غیر معیاری ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس میں ملک کے مختلف لسانی گروہوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا گیا ہے۔ مردم شماری کے فارم میں ایک خانہ زبانوں کا ہے۔ اس سے پہلے کی مردم شماری کے فارم میں صرف چھ زبانوں یعنی اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی اور کشمیری کے اندراج کی گنجائش تھی۔ اب کی بار تین زبانوں یعنی ہندکو، سرائکی اور براہوی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ باقی تمام زبانوں کے لیے صرف ایک خانہ ہے جس کو “دیگر” کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان میں مندرجہ بالا نو زبانوں کے علاوہ اور بھی بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض زبانیں صرف چند ہزار لوگ بولتے ہیں، لیکن شینا اور کھوار جیسی زبانوں کے بولنے والے میلین تک کی تعداد کو پہنچتے ہیں۔ ان تمام زبانوں کو “دیگر” کا مشترکہ نام دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بولنے والوں کی درست تعداد کا کبھی علم نہیں ہوسکے گا۔ ان زبانوں میں سے کئی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور ان کے تحفظ کی کوشش کرنے والوں کے لیے اعداد و شمار کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
ان حالات میں چھوٹی زبانوں کے بولنے والے بجا طور پر احساس محرومی کا شکار ہیں۔ یہ لوگ خود کو کسی بھی بڑے لسانی گروپ سے زیادہ محب وطن سمجھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت کے بارے میں بہت زیادہ حساس بھی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے ملک میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو پاکستانی زبانیں قرار دے کر ان سے یکساں سلوک کیا جائے۔ یہ چیز قومی استحکام کے لیے اشد ضروری ہے۔ ان لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے منتخب نمایندوں اور سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ لسانی اور ثقافتی تنوع کی حفاظت کو اپنے سیاسی پروگرام کا لازمی حصہ بنائیں۔ ملک کے بڑے لسانی گروہوں کو بھی چاہیے کہ وہ چھوٹے گروہوں کی حوصلہ افزائی کریں اور یہ سمجھ لیں کہ لسانی اور ثقافتی تنوع ملک کی ترقی اور استحکام کا باعث ہوتا ہے۔
بشکریہ: ذیل نیوز