پاک چین دوستی کی داستان
پاک چین دوستی از ڈاکٹر خالد عباس الاسدی
(مبصر : تجمل شاہ)
ریشم کے راستوں پر چلے ہیں جو کارواں
سب بولتے ہیں مہر و محبت کی اک زباں
منزل ہو اِن کی چین یا دامان پاک ہو
بانہوں کو وا کیے ہیں کھڑے ان کے میزباں
پاک چین دوستی کی داستان بھی شاہراہ ریشم کی طرح طویل ہے۔ دونوں ممالک میں ہمیشہ گرمجوش تعلقات رہے۔ اقتصادی تعلقات کی طرح علمی و ثقافتی تعلقات بھی دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی زبانیںسکھانے میں بھی تعلقات میں ثقافتی ربط مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہاہے۔ جس طرح چینی شاعر ادیب انتخاب عالم نے نہ صرف اردو زبان پر دسترس حاصل کی بلکہ اردو میں کمال کی شاعری بھی کی، اس طرح ماضی میں ابنِ انشاؔ نے چینی شاعری کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے پاک چین علمی دوستی کے سلسلے کو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ اس کے علاوہ بھی دونوں ممالک کے کئی ایک اہم قلم اردو اور چینی زبان کو ایک دوسرے ممالک میں متعارف کرانے میں مدد گار ثابت ہوئے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد علامہ اقبال نے چین بارے کہاتھا:
گراں بار چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کہ چشمے اُبلنے لگے
پیش نظر کتاب ”پاک چین دوستی” ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کی چین سے والہانہ محبت کا اظہار ہے جس میں انھوں نے قطعات کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور کتاب میں قطع کا آغاز انھوں نے حدیث نبویؐ کو قطعہ بنا کر کیاہے :
سرورکونین ؐ کا فرمان
(علم حاصل کرو، چاہے چین جاناپڑے)
تذکرہ علم کا، اصحابؓ میں جب آیا تھا
چین تک جانا ضرور، آپؐ نے فرمایا تھا
چین بچوں کو بلاتا ہے برائے دانش
سبزۂ علم ہی اس باغ کا سرمایہ تھا
دوسرے قطعہ میں انقلاب چین کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ کی ولولہ انگیز قیادت کو خراج عقیدت یوں پیش کیا ہے:
ماوزے تنگ کی کہاں ہے مثال
مطلع چین پر ہے جیسے ہلال
سامنا گرچہ تھا مصائب کا
دسترس میں رہے ہیں ماہ و سال
اگلے قطعہ میںپاک چین دوستی کے تاریخی رشتے کو ”بھائی بھائی” کے عنوان سے کس خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ ہو:
کتنے معزز مائوزے تنگ اور چُو این لائی
دنیا بھر میں امن کے ہیں یہ سچے داعی
اپنے لہو سے دونوں نے تاریخ یہ لکھی
پاکستانی اور چینی ہیں بھائی بھائی
ڈاکٹر خالد عباس”چین کی مٹی” کے عنوان سے محنت کش چینی عوام کے جذبۂ خود انحصاری کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
ہیں جری لیکن کیا ہے ترک اُونچا بول آج
سر زمینِ چین پر بجتے ہیں شاداں ڈھول آج
اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے بنائیں اہل چین
چین کی مٹی سے بنتے نہیں کشکول آج
پاک چین دوستی کی شاہراہ کو موٹروے اور ریلوے لائن کے ذریعے مزید وسعت دینے اور توانائی و معیشت کے بحران پر قابو پانے کے لیے موجودہ حکومت نے چین کے ساتھ حال ہی میں جو معاہدے کیے ہیں امید ہے کہ ان اقدامات سے آنے والے وقتوں میں دونوں ممالک کی دوستی کے رشتے نہ صرف مزید مضبوط ہوں گے بلکہ ہمیں بھی ان سے سیکھنے کا بھرپور موقع ملے گا کیونکہ چینیوں کی مسلسل محنت سے چین معیشت کے لحاظ سے آج دنیا پر حاوی نظر آتا ہے، چینیوں کی مسلسل محنت کو ”عظمت” کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب نے یوں بیان کیا ہے:
ساٹھ برس ہونے کو آئے چینی قوم نہ سوئی
جاگتے کھیتوں کے سینوں میں اس نے محنت بوئی
محنت کی برکات نے اس کو بخشی ہے وہ عظمت
دنیا بھر میں کہیں نہیں ہے اس کا ثانی کوئی
دونوں ممالک کے درمیان ایشیا کے بڑے دروازے ”گوادر” کے حوالے سے جو معاہدے ہوئے شاعر نے کس خوبصورت انداز میں اسے بیان کیا ہے:
چین کے ساحل سے آئے وفد امکانات کے
بادباں جن کے ہیںپرچم ارضِ احسانات کے
کر دیا شہر گوادر کو سمندر کا امیر
سارے شکوے مٹ گئے ہیں کھردرے حالات کے
مجید نظامی اپنی رائے میں لکھتے ہیں کہ: اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ چین کے ساتھ دوستی نہ صرف دو طرفہ بلکہ اس قدر گہری ہے کہ اس کی جڑیں پاتال میں اتر چکی ہیں۔ ڈاکٹر خالد عباس کے یہ قطعات، قطعہ نگاری کے حوالے سے بے سقم ہیں، یہ محبت کی لازوال داستان ہیں جو دونوں ملکوں کو مزید قریب لانے میں ممد ثابت ہوں گے۔
کتاب کے مصنف شعبہ طب سے منسلک ڈاکٹر خالد عباس الاسدی ملازمت کے سلسلے میں مسجد نبویؐ توسیعی منصوبے میں فزیشن رہے،وہ اب بھی شہر مدینہ کے مکین ہیں۔ ان کی اب تک کئی تصانیف آ چکی ہیں۔ عالمی ادب، اقبالیات، تاریخ، خطاطی، خطابت اور نظامت ان کے مشاغل ہیں۔ پیش نظر کتاب ۲۰۱۱ء میں پاک چین دوستی کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر سامنے آئی۔ بشریٰ رحمن لکھتی ہیں کہ مجھے یہ لکھتے ہوئے انتہائی مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ مدینہ منورہ میں مقیم ڈاکٹر خالد عباس نے پاک چین دوستی کو نہایت دلکش پیرایے میں نظم کیا ہے۔ عقیدت اور محبت کے اظہار کا یہ انوکھا انداز مجھے بہت بھلا لگا ہے۔ یہ محض شاعری ہی نہیں چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں شاعری نے چین کی تاریخ، جغرافیے، ثقافت، فطرت، سیاسی پالیسیوں اور بین الاقوامی راوبط کو بیان کر دیا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں نہ صرف اپنے جذبات کی مالا پروئی ہے بلکہ پاکستان کے عوام کے جذبات کی بھرپور نمائندگی بھی کی ہے۔
آخر میں مصنف پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ میں آج کل مدینہ منورہ میں مقیم ہوں۔ یہ وہی شہر مقدس ہے جہاں لفظ ”چین” چودہ سو سال پہلے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی زبان اقدس پر آیا اور رسولؐ کی زبان پر آنے والا یہ لفظ آج عظیم قوت بن کر ابھر رہاہے۔
خلا سے نظر آنے والے عجوبے عظیم دیوارِ چین بارے قطعہ ملاحظہ فرمائیں:
عظیم لوگ تھے دیوارِ چین کے معمار
وہ اپنے بعد کی نسلوں کو دے گئے ہیں وقار
لہو سے بھرتے رہے ہیں فصیل کی بنیاد
فلک نے بھی تو سراہا ہے چین کا معیار
اور آخر میں ”دعا” میں پاک چین سدا بہار دوستی کے نام پر قطعہ کہ:
پاک چین آخرت تک جئیں ہے دُعا
رُت گُلوں کی ہمیشہ رہے میزباں!
دَم بدَم خوش رہیں آسماں تلے
عورتیں، بچے، بوڑھے، سجیلے جواں
یہ کتاب کاغذی پیرہن، عظیم مینشن، رائل پارک ، لاہور نے شائع کی ہے۔