پاکستانی آئین جیتا ہے
( سید مجاہد علی)
پاک فوج نے ڈان لیکس کے سوال پر حکومت کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 29 اپریل کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ پیغام کو واپس لے لیا ہے۔ اس پیغام میں وزیر اعظم ہاؤس سے ڈان لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق متعدد اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا جن میں امور خارجہ پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی برطرفی کا حکم بھی شامل تھا۔ تاہم فوجی ترجمان کے ٹویٹ پیغام میں ان اقدامات کو ناکافی اور تحقیقاتی رپورٹ پر مکمل عملدرآمد نہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا اس اعلامیہ کو مسترد کیا جاتا ہے۔ اس طرح ملک میں یہ ہیجان خیز صورت حال پیدا ہو گئی تھی کہ ملک کی فوج کا نمائندہ جو دراصل حکومت کی نگرانی میں کام کرنے والا ایک ادارہ ہے، کس طرح ملک کے آئینی چیف ایگزیکٹو کے حکم کو ’مسترد‘ کرسکتا ہے۔ تاہم آج فوج کی طرف سے اس ٹویٹ کو واپس لینے اور ملک کے آئین اور جمہوریت سے وابستگی کا اعلان کرکے ایک دانشمندانہ اور ضروری اقدام کیا گیا ہے۔
سول ملٹری تعلقات میں حائل اس بڑی رکاوٹ کو دور کرنے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اہم کردار کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ سول حکومت کے اختیار کو تسلیم کرتے ہیں اور ملک کے آئین کا احترام کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی سربراہی میں فوج نے اس حوصلہ کا مظاہرہ بھی کیا ہے کہ اگر اس کے کسی ادارے سے غلطی سرزد ہوتی ہے تو اسے تسلیم کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کا حوصلہ بھی موجود ہے۔ پاک فوج کا یہ فیصلہ کسی ادارے یا فرد کی شکست نہیں ہے اور نہ ہی کسی ادارے یا شخص کی کامیابی ہے۔ اس میں ایک اصول کامران ہؤا ہے اور فوج نے آئین کی بالادستی اور اس کے تحت منتخب ہونے والے وزیراعظم کی اتھارٹی کو تسلیم کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے ، جس کی توصیف ہونی چاہئے۔
آئی ایس پی آر کے درشت ٹویٹ پیغام کے بعد ملک کے بعض سیاسی حلقوں اسے حکومت کے خلاف اپنی مہم جوئی میں مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ بعض عناصر فوج اور سول حکومت کے درمیان دراڑ کو وسیع کرنے اور اس طرح ملک میں مسلسل انتشار کی کیفیت پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو چکے تھے۔ تاہم ملک کے تمام ہوشمند حلقوں کی جانب سے حکومت کی غلطیوں اور سیاسی کم نظری کا اعتراف کرتے ہوئے بھی میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کو مسترد کیا گیا تھا۔ اس ٹویٹ کا درشت لہجہ اور وزیر اعظم کا حکم منظر عام پر آتے ہی اسے ’مسترد ‘ کرنے کا اعلان ملک کے آئین اور جمہوری انتظام میں قابل قبول نہیں تھا ۔ اس لئے فوج کو اس رویہ کو تبدیل کرنے اور حکومت کو فوج کے ساتھ غیر ضروری معاملات پر تصادم سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر اور وزارت داخلہ کی طرف سے آج سامنے آنے والے اعلانات سے واضح ہوتا ہے کہ فوجی قیادت اور وزیر اعظم نے ہوشمندی اور وسیع تر قومی مفادات میں اس مسئلہ کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
حکومت نے گزشتہ برس ڈان لیکس پر فوج کے اعتراضات سامنے آنے کے بعد اس کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے خود ہی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس لئے اس کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ اس کی سفارشات پر من و عن عمل کرتی تاکہ یہ معاملہ ختم ہوجاتا اور فوج کے ساتھ غیر ضروری تنازعہ کی صورت حال کا خاتمہ ہو سکتا۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ چونکہ شائع نہیں کی گئی تھی اس لئے عام لوگوں کے لئے یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں تھا کہ اس کے کون سے حصوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے فوج کو تحفظات تھے۔ اسی لئے وزیر اعظم کا حکم سامنے آنے سے قبل فوج کو اعتماد میں لینا ضروری تھا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں کیا گیا جس پر فوج کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ اب طرفین نے اپنی غلطیوں کا ادراک کرلیا ہے ۔ حکومت نے اگرچہ کوئی نیا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا لیکن فوجی قیادت کے ساتھ مواصلت اور ملاقاتوں میں معاملات طے کرلئے گئے ہیں۔ اگر حکومت کے نمائیندے یہ مواصلت قبل از وقت کرلیتے تو اس معاملہ پر جگ ہنسائی کا سامان نہ ہوتا۔
اس کے باوجود یہ بات خوش آئیند ہے کہ وزیر اعظم نے شدید دباؤ کے باوجود آئی ایس پی آر کے ٹویٹ کو قبول کرنے سے انکار کیا اور فوج نے ان کی اس بات کو تسلیم کرلیا۔ منتخب حکومت اور اس کے قائدین میں بہت سی کمزوریاں ہو سکتی ہیں لیکن ان کا احتساب قومی اسمبلی اور سیاسی میدان میں ہی ہو سکتا ہے۔ فوج کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ٹویٹ پیغام جیسی مواصلت سے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے عمل کا حصہ بنے۔
بشکریہ: karwan.no