پاکستان کرکٹ زوال پذیر کیوں؟
از، حسین جاوید افروز
یہ بلا شبہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ کرکٹ پاکستان میں ایک جنون کی سی حیثیت رکھتا ہے اور خیبر تا کراچی یہ محض ایک کھیل ہی نہیں بل کہ ایک قومی جذبے کا مقام رکھتا ہے۔ بد قستمی سے اگر کرکٹ کے حالیہ حالات کی بات کی جائے تو ہمیں حالیہ چند سالوں میں کھیل کے معیار میں واضح گراوٹ دکھائی دیتی ہے۔ کہاں گرین شرٹس کچھ سال قبل ٹیسٹ میں بھی متأثر کن ریٹنگ کے حامل تھے اور ٹی ٹونٹٹی میں بھی اول درجے پر فائز تھے۔
مگر اب کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں قومی ٹیم چھٹی، ساتویں اور آٹھویں پوزیشن پر جا چکی ہے۔ جی ہاں گرین شرٹس کی کا حال ہی میں کیا گیا دورہ نیوزی لینڈ اپنی جگہ نا کامی کا افسانہ بن کر ہی ابھرا ہے اور دوران سیریز یہی گمان ہوتا رہا کہ قومی ٹیم ٹیسٹ میچز اور ٹی ٹونٹی سیریز میں بغیر کسی گیم پلان کے ہی اترتی رہی۔ لہٰذا جہاں ایک طرف ٹی ٹونٹی سیریز میں دو ایک سے شکستیں ملی وہاں ٹیسٹ سیریز میں بھی شاہینوں کے لیے مایوسی اور نا کامی ہی ہاتھ لگی۔
یونس خان جیسے جہاں دیدہ بیٹنگ کوچ اور مصباح الحق کی ہیڈ کوچنگ کے با وُجود ہمارے بلے باز کیوی باؤلرز ویگنر، بولٹ اور جیمسن کے سامنے پانی بھرتے دکھائی دیے۔
ایک بار پھر بلے بازی شارٹ پچ گیندوں پر جدوجہد کرتی دکھائی دی اور ایک سیشن بھی نکالنا عابد علی، شان مسعود، اظہر علی، حارث سہیل کے لیے جُوئے شِیر لانے کے مترادف رہا۔
ما سوائے فواد عالم کی شان دار سینچری اور کپتان رضوان کے عمدہ ہاف سینچریوں نے کسی حد تک مزاحمت کی مگر بابر اعظم کی جگہ کوئی بھی نہ لے سکا۔ تاہم فہیم اشرف نے 91 رنز کی اننگز کھیل کر ضرور تاب ناک مستقبل کی نوید سنائی۔
فیلڈنگ کا ناقص معیار جاری رہا اور یوں انتہائی فیصلہ مواقِع پر بے شمار قیمتی کیچز ڈراپ کیے گئے جن کا کیوی قائد کین ولیم سن نے خوب فائدہ اٹھایا اور سیریز میں ایک ڈبل سینچری سمیت دو سینچریاں بھی داغ دیں۔ جب کہ گیند بازی میں تباہ کن پیسر جیمسن کی باؤلنگ نے پاکستانی بلے بازوں کی قلَعی کھول کر رکھ دی اور مجموعی طور پر وہ سولہ وکٹیں لے اڑے۔
یہاں ہمارے نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کیوی وکٹوں پر غیر متأثر کن ثابت ہوتے رہے اور باؤلنگ کوچ وقار یونس بھی اس اہم دورے پر باؤلروں کو حوصلہ فراہم نہ کر سکے۔ اس دورے میں رضوان، فواد عالم اور فہیم اشرف سے ہی مستقبل میں بھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں وگرنہ قومی ٹیم میں ایک بڑی سرجری اب نوشتۂِ دیوار بن چکی تھی ۔شاید جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز ہیڈ کوچ مصباح الحق اور باؤلنگ کوچ وقار یونس کے لیے آخری اسائنمنٹ ثابت ہو کیوں کہ گزشتہ برس انگلینڈ کے ہاتھوں شکست اور کم زور ٹیموں جیسے بنگلہ دیش اور زمبابوے کے خلاف فتح کوئی ایسا بڑا کارنامہ ہر گز نہیں کہ جس کی بناء پر موجودہ سسٹم ہی طوالت اختیار کر سکے۔
سوال وہی ہے کہ کیا آسٹریلوی طرز کا ڈومیسٹک سسٹم ہماری کرکٹ کی بڑھوتری کے لیے مفید ثابت ہو رہا ہے جس میں محض چھ ٹیمیں ہی مستقبل کے کھلاڑی پیدا کر رہی ہیں؟ یا ہمیں دوبارہ ریجنل اور ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کی جانب ہی کوچ کرنا ہو گا جس میں کھلاڑیوں کا زیادہ بڑا پُول سامنے آ سکے تا کہ مقابلے کی بہترفضا جنم لے سکے۔
شاید نئے سسٹم کے تحت ابھی ہماری کلب کرکٹ اور سکول کرکٹ کو بھی فروغ ملنے میں وقت لگے گا۔ دوسرا ہماری پچز کا معیار بھی عالمی معیار سے خاصا کم تر ہے اس کے لیے ہمیں ڈراپ ان پچز کی جانب جانا ہو گا اور مٹی اور گھاس میں بھی بدلاؤ لانا ہو گا تب ہی ہمارے ہاں عالمی معیار کی کرکٹ پنپ سکے گی۔
اس مقصد کے لیے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سے خاصی مدد مل سکتی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہماری کرکٹ میں attitude injection کا گہرا فقدان پایا جاتا ہے، جو جوشیلی اور جذبے سے لبریز کرکٹ قومی ٹیم نے ستر، اسی اور نوے کی دھائی میں عمران خان، میاں داد، وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، شعیب اختر اور شاہد آفریدی کے ادوار میں کھیلی اب وہ مفقود ہوتی جارہی ہے۔ کیوں کہ ہمارے موجودہ کھلاڑی دبنگ انداز میں لڑنے کے بَہ جائے میدان میں دبے دبے سے رہتے ہیں۔
ہمارے باؤلرز نیٹ میں محض تین سے چار اوورز کی مشق کے بعد واپسی کی راہ لیتے ہیں جب کہ وسیم وقار اور عمران ماضی میں دس سے پندرہ اوورز کے ٹریننگ سیشنز متواتر کرنے کے عادی تھے۔
آج کل ہمارے کھلاڑیوں کی توجُّہ محض ٹی ٹونٹی کرکٹ اور اس سے وابستہ لیگز پر مرکوز ہو چکی ہے جہاں کم وقت میں بے پناہ پیسہ اور گلیمر ان کو متأثر کرتا ہے اور ٹیسٹ میچز سے اجتناب بھی اسی لیے برتا جا رہا ہے تا کہ وہ مسلسل کرکٹ کھیل کر burn out نہ ہوں جائیں۔
رواں برس ہمیں پاکستان سپر لیگ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف متواتر سیریز کھیلنا ہیں اس کے علاوہ اکتوبر میں ٹی ٹونٹی عالمی کپ بھی سر پر پہنچا ہوا ہے۔ ایک بھر پُور کرکٹ سیزن کے لیے قومی ٹیم کو ابھی اس سال کم از کم کامران اکمل، حفیظ اور شعیب ملک جیسے سینئرز پر بھروسا کرنا ہو گا۔
سرفراز کو بارہواں کھلاڑی بنا کر تماشا بنانے کے بَہ جائے ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ کی قیادت سونپنی ہو گی کیوں کہ اس وقت ان سے بہتر کپتان اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں۔
نوجوان فاسٹ باؤلرز نسیم شاہ، حسنین اور موسیٰ کو ڈومیسٹک کرکٹ میں واپس بھیجنا ہو گا تا کہ وہ ایک سے دو سالوں تک مزید تجربہ لے کر دو بارہ پرفارمنس کی بنیادپر نیشنل سکواڈ میں جگہ بنا سکیں۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں سالوں سے عمدہ بلے بازی کرنے والے عثمان صلاح الدین، عمید یوسف اور سعود مجید کو قومی ٹیم میں فوری جگہ دینا ہو گی تا کہ ان کی تجربہ کاری ٹیم کے کام بھی آئے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ ہمارے ماضی کے شان دار کھلاڑیوں نے بیرونِ ملک ہر جگہ فتوحات کی شان دار تاریخ بار ہا رقم کی ہے۔ لہٰذا بیرونِ ملک ٹیسٹ کرکٹ کے شان دار باب کو داغ دار نہیں کریں۔ کرکٹ 22 کروڑ عوام کے لیے ایک جنون ہے ایک جذبہ ہے اس کی قدر کریں۔