پاکستان کرکٹ پھر سے تعمیرِ نو کے چَنگُل میں
اگر آپ خود سے یہ سوال کریں کہ پاکستان میں جنون کی نام کی چیز کہاں پائی جاتی ہے تو آپ کے ذہن میں ایک ہی نام آئے گا کہ کرکٹ میں۔ کرکٹ یقیناً برطانیہ کا قوم کھیل سمجھا جاتا ہے مگر مغرب کے مقابلے میں ہمیں اس کھیل سے وابستہ جنون بر صغیر پاک و ہند میں ہی زیادہ ملتا ہے۔
کلکتہ سے کراچی تک کرکٹ کا بخار تقریباً سارا سال ہی سر چڑھ کر بولتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہر عالمی کپ کے گزرنے کے بعد ایک بوسیدہ سی روایت بن چکی ہے کہ میگا ایونٹ میں نا کامی کی صورت میں وسیع پیمانے پر کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں تعمیرِ نو کے نام پر لا حاصل سی اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ نعرۂِ مستانہ بھی لگا دیا جاتا ہے کہ اب کرکٹ کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے اور ہماری نگاہیں اگلے عالمی کپ پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ تعمیرِ نو کے ایسے ہی لا متناہی سلسلے ماضی میں بھی ہم 80 اور 90 اور 2003 کے بعد کئی بار دیکھ چکے ہیں، لہٰذا اب کی بار جب تبدیلی سرکار نے عمران خان کی خواہش پر ڈومیسٹک کرکٹ کی بنیادیں بدل ڈالی تو کچھ حیرانی نہیں ہوئی۔
خان صاحب روزِ اول سے پاکستان کرکٹ ڈومیسٹک ڈھانچے سے نالاں دکھائی دیتے تھے اور یوں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کا دور اپنے اختتام کو پہنچا اور نیا ڈومیسٹک ڈھانچہ محض چھ ٹیموں اور دو سو کھلاڑیوں تک محدود ہو گیا۔ اس نئے نظام پر کھل کر تنقید کے نشتر برسائے جا سکتے ہیں مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے اس کی افادیت دیکھنا ابھی باقی ہے۔
پاکستان کرکٹ کے اتار چڑھاؤ کا گزشتہ پچیس برس سے مفصل جائزہ لیتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ موجودہ کرکٹ سسٹم بھلے ہی کاغذوں پر انقلابی اور گیم چینجر دکھائی دیتا ہو مگر جن لوگوں کو اب کرکٹ کا پردھان بنا کر مسند پر بٹھایا گیا ہے ان سے کسی بہتری کی امید رکھنا عبث ہو گا۔ ہمارے معاشرے میں ایک بیماری شخصیت پرستی ہوا کرتی ہے جو بد قسمتی سے ہر شعبے میں بری طرح سے سرایت کرچکی ہے۔
اس دفعہ یہ بیماری کرکٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے کیوں کہ مصباح الحق بہ طور کوچ اور چیف سلیکٹر پاکستان کرکٹ کے سیاہ سفید کے مالک بنا دیے گئے ہیں، گویا وہ آج کے دور کے ایوب خان ہیں جو کہ سن 62 کے دستور میں گھنٹہ گھر کی سی حیثیت رکھتے تھے۔
جب تمام اہم اختیارات ایک ہی شخصیت کو نجات دہندہ بنا کرسونپ دیے جائیں تو گڑ بڑ ہوتی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا یہ دونوں اہم عہدے دو مختلف شخصیات کو دیے جاتے تا کہ نہ کام کا بوجھ بڑھتا اور نہ ہی اختیارات کا منبع کسی ایک ذات کو بنایا جاتا۔
اس وقت کرکٹ ٹیم کو نِت نئے تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور سلیکشن پراسس سے لے کر کپتان بدلنے تک تمام شوق پورے کیے جا رہے ہیں۔ مانا تمام تر تنقید کے با وُجود نیا ڈومیسٹک سسٹم نافذ العمل ہو چکا ہے مگر جب اس سسٹم میں کھلاڑی شان دار پرفارمنس دے رہے ہیں تو کیوں ان کے لیے قومی ٹیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں؟ کیوں منظورِ نظر مگر گزارے لائق کھلاڑیوں کو جونک کی مانند ٹیم سے چپکا دیا گیا ہے؟
ذرا غور کریں کئی برسوں سے ہم عثمان صلاح الدین، فواد عالم اور خرم منظور جیسے کہنہ مشق بلے بازوں کے بلے سے رنز کے سیلاب کو دیکھتے رہے مگر شاید اَن دیکھی وجوہات کی بناء پر ان بلے بازوں کو دیوار سے لگایا جاتا رہا ہے۔
اسی طرح باؤلنگ میں تابش خان، جنید خان جیسے شاندار باؤلروں کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں دیے جا رہے جب کہ 37 برس کے محمد عرفان کو
کم بیک کرایا جاتا ہے جو پہلے جیسا ردھم اور جوش نہیں رکھتے۔ اسی طرح یہ بات بالکل درست ہے کہ سرفراز بطور کپتان ٹیسٹ میچز اور ایک روزہ کرکٹ میں غیر مؤثر ثابت ہو رہے تھے جب کہ ان کی ذاتی فارم پر بھی سوالیہ نشانات ہنوز موجود تھے۔
لیکن سوال تو یہ اٹھتا ہے بھلے ان کی جگہ ٹیسٹ ٹیم میں نہیں بنتی مگر ان کو ایک دم ٹی ٹونٹی کی قیادت سے بھی ہٹا دینا با وُجُود؛ اس کے کہ وہ سری لنکا سے ہوم سیریز میں ہارنے کے با وجود ریکارڈ گیارہ سیریز جتوا چکے تھے، قطعاً سمجھ سے باہر ہے۔
اس پر ستم یہ کہ ایک دم ہی ان کو تینوں فارمیٹ کی کرکٹ سے ڈراپ کر دیا جاتا ہے کیا چیمپئن ٹرافی کا فاتح کپتان ایسے نا روا سلوک کا مستحق تھا؟
مجھے بالکل اس کیس میں میانداد اور سرفراز میں مماثلت دکھائی دیتی ہے جب سن 93 میں میانداد کو قوم ٹیم سے خارج کیا گیا اور وہ ٹیسٹ میچز میں دس ہزار رنز مکمل کرنے کا خواب دل میں لے کر رخصت ہو گئے۔ سرفراز کے ساتھ جو ہوا یہ بد قسمتی سے بر صغیر کے کرکٹ کلچر کا حصہ ہے کہ ہم کسی کھلاڑی کو اعزاز کے ساتھ رخصت نہیں کر سکتے۔
ماضی میں جاوید میانداد، سلیم ملک، وقار یونس، وسیم اکرم، محمد یوسف، آصف اقبال، حنیف محمد، راشد لطیف اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اور اب کیا بَہ طور نئے کپتان با صلاحیت بابر اعظم اپنی قائدانہ صلاحتیں اجاگر کر پائیں گے؟ یہ سب سے بڑا سوال ہو گا۔ ایسا خدشہ موجود ہے کہ وہ کہیں سچن ٹندولکر کی راہ پر نہ چل پڑیں جو جب 90 کی دھائی میں ٹیم انڈیا کے کپتان بنے تو ان کی نا کامیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مجبوراً اپنی جگہ بچانے کے لیے بعد ازاں ان کو کپتانی کی قربانی دینا پڑی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ میں توازن کے عُنصر کا شدید فقدان ہے اور لگ ایسا ہی رہا ہے کہ بابر اعظم بَہ طورِ کپتان مصباح کے سامنے یس مین بن کر رہیں گے اور مصباح فیکٹر ہی قومی ٹیم کو تسلسل کے ساتھ دباؤ میں رکھے گا۔
اب جو نئی ٹیم نئے کپتان کی زیرِ قیادت آسٹریلیا کے دورے پر گام زن ہے اس کا بھی پوسٹ مارٹم کر لیا جائے۔ سب سے پہلے ہونہار فاسٹ باؤلر عثمان شنواری کو نا معلوم وجوہات کی بناء پر ٹیم سے ڈراپ کیا گیا، اس کے با وجود کہ سری لنکا کے خلاف ان کی باؤلنگ متاثر کن رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی آل راؤنڈر فہیم اشرف کا ٹیم سے اخراج سمجھ سے بالا تر ہے۔
موجودہ ٹیم میں ایک بھی معیاری آل راؤنڈر موجود نہیں ہے۔ عمر اکمل اور احمد شہزاد کی عدم موجودگی پر تو ساری قوم کراچی تا خیبر متفق ہی تھی، مگر تجربہ کار حفیظ اور شعیب ملک کو آسٹریلین کنڈیشنز کا وسیع تجربہ ہونے کے با وُجُود ٹیم سے باہر کیوں کیا گیا اس کا مصباح کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ اس سے قبل ان دونوں کو 2020 کے ٹی ٹونٹی عالمی کپ کے لیے اثاثہ سمجھا جا رہا تھا۔
البتہ بَہ طورِ اوپنر عابد علی، شان مسعود اور امام الحق بہتر انتخاب ہیں۔ تاہم باؤلنگ کوچ وقار یونس کا بھی دورۂِ آسٹریلیا ایک کٹھن امتحان ثابت ہو گا جہاں ان کو شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، موسیٰ خان، کاشف بھٹی، عمران خان، کے ساتھ پاکستانی پیس بیٹری کو اَز سرِ نو منظم کرنا ہو گا۔
سب سے بڑھ کر مرحوم جادو گر سپنرعبد القادر کے سپوت عثمان قادر کو بھی آسٹریلین وکٹوں پر اپنی افادیت ثابت کرنا ہو گی۔ مجموعی طور پر دورۂِ آسٹریلیا گرین شرٹس کے لیے ہمیشہ سے ایک سخت چیلنج رہا ہے جہاں 70 کی دھائی کے آخر میں قومی ٹیم نے ٹیسٹ میچز کی سیریز برابری پر ختم کی اور ہم کبھی آسٹریلیا کو اس کی سَر زمین میں ٹیسٹ سیریز میں شکست نہیں دے سکے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ آخری بار ہم نے سن 95 میں آخری ٹیسٹ وسیم اکرم کی زیرِ قیادت جیتا تھا۔ جب کہ سن ۹۹ سے اب تک بیس برسوں میں ہم آسٹریلیا میں تین صفر سے وائٹ واش کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا، بابر اعظم کی اس ٹیم سے بلند توقعات وابستہ نہ کی جائیں تو بہتر رہے گا، کیوں کہ قومی ٹیم ابھی تعمیرِ نو کےعمل سے گزر رہی ہے۔
از، حسین جاوید افروز