تعلیمی اداروں میں منشیات کا سرطان
از، غلام الدین
گزشتہ روز وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “اسلام آباد کے بڑے تعلیمی اداروں میں 75 فیصد لڑکیاں اور 45 فیصد لڑکے کرسٹل آئس استعمال کرتے ہیں۔” ان کے اس بیان سے نہ صرف سوشل میڈیا بَل کہ اخبارات، ٹی وی اور نجی محفلوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ کیوں کہ کہ جن اعداد و شمارکا تذکرہ وزیرِ موصُوف نے کیا ہے یہ باعثِ تشویش ہی نہیں بَل کہ پہلے سے پریشان حال والدین سکتے میں آ گئے ہیں۔
پاکستان میں 80 کی دھائی سے قبل افیون، شراب، چرس اور بھنگ جیسی روایتی منشیاب نشے کے عادی افراد کو بہ آسانی مل جاتی تھیں۔ 80 کی دھائی میں ہیروئن ایک وباء کی شکل میں پاکستان آئی، سرطان کی صورت موجود ہے، بَل کہ اب تو اس کی کئی ایک شاخیں نکلیں لگی ہیں؛ اب ساتھ ہی شہری علاقوں میں نشہ آور انجکشن کے اسعمال میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ہیروئن کا پاکستان میں آنا اپنا ایک حالیہ تاریخی تناظر contemporary history میں سیاق رکھتا ہے۔ افغان جہاد کے دوران افغانستان میں پوست کی کاشت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ڈرگ کارٹیلز پاکستان کے راستے بڑی مقدار میں منشیات بیرونِ ملک اسمگل کرتے رہے۔
مارچ 2014 میں اَقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے منشیات اور جرائم کی جانب سے جاری کردہ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 67 لاکھ افراد منشیات کے عادی پائے گئے اور ہر سال چالیس ہزار سے زائد افراد منشیات کی لت کا شکار ہو رہے ہیں۔
مزید و متعلقہ تحریریں: طلبا میں منشیات کا بڑھتا استعمال، ذمہ دار کون؟ از، عصمت اللہ مہر
سگریٹ نوشی کا مزہ از، دیدار علی شاہ
پرائیویٹ سکولوں کا کار و بار اور تعلیمی خلفشار از، زاہد یعقوب عامر
جنوری 2014 میں راقم کا رابطہ ایک ایسی ماں سے ہوا جو اپنی دو بیٹیاں آنیا اور ثانیا (فرضی نام) کے لیے ہیروئن کا خرچہ پورا کرتے کرتے زندگی کی جمع پونجی لٹا بیٹھی اور حالات اس نہج پر پہنچے کہ انہیں اپنی بیٹیوں کی علاج کے لیے اداروں سے رابطے کی نوبت آئی۔ راقم ان دنوں سما ٹی وی سے وابستہ تھا، سما ٹی وی کی مینجمنٹ نے آنیا اور ثانیا کے علاج کا بِیڑا اٹھا لیا۔
آنیا اور ثانیا کا تعلق اسلام آباد کے ایک امیر گھرانے سے تھا اور دونوں بہنیں ایک بڑے اسکول میں زیرِ تعلیم تھیں، آنیا جب نویں جماعت میں تھی تو انھیں ایک نائٹ پارٹی کے دوران دوستوں نے ہیروئن کا پہلا ڈوز پلایا، یوں آنیا کو ہیروئن کی لَت پڑ گئی۔ بڑی بہن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چھوٹی بہن ثانیا بھی نشے کی عادی ہو گئی۔
دونوں بہنوں نے اسکول چھوڑ دیا اور نشے کو گلے لگا لیا۔ والد گھریلو حالات سے تنگ آ کر بیرونِ ملک چلے گئے؛ والدہ نوکری کر کے منشیات کی ضرورت پوری کرتی رہیں۔ آنیا اور ثانیا کا گروپ ایک درجن سے زاید بڑے اداروں میں زیرِ تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل تھا۔ آنیا اور ثانیا کا دو کنال کا گھر منشیات کے اڈے میں بدل چکا تھا۔
اسکول، کالج اور جامعات سے واپسی پر پورا گروہ ہیروئن کا نشہ کرتا۔ اس بُھوت بنگلے میں کوئی کس کونے میں تو کوئی کس کونے میں پڑا ہوا ملتا۔ آنیا اور ثانیا کی والدہ کے مطابق دونوں بیٹیوں کے نشے پر ماہانہ چار لاکھ تک کا خرچہ آتا تھا۔ آنیا اور ثانیا ہیروئن کے نشے سے چھٹکارہ چاہتیں تھیں، لیکن نشہ ترک کرنا بہت مشکل سے بھی کہیں کم مشکل نہ تھا۔
آنیا اور ثانیا کی راقم نے کونسلنگ کی۔ ایمان کلینک نامی ری ہیب سینٹر (مرکزِ بحالی) کی انتظامیہ سے ملاقات کرکے دونوں بہنوں کو ڈی ٹاکس اور پھر ری ہیب کے سلسلے میں سینٹر منتقل کیا گیا۔ سما ٹی وی نے نہ صرف دونوں بہنوں کے علاج و معالجے کے اخراجات اٹھائے بَل کہ ہر ہفتے ان کی صحت کے حوالے سے خصوصی سیگمنٹ بھی چلاتے رہے۔
دو ماہ بعد آنیا اور ثانیا کو ہیروئن کے نشے سے چھٹکارہ مل گیا۔ ری لیپس (relapse یعنی، علاج کے بعد دو بارہ نشے کی لَت کا شکار ہو جانا) سے بچنے کی خاطر فیملی کراچی شفٹ ہو گئی۔ یوں آنیا اور ثانیا نے سات سال بعد ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔
گزشتہ برس ایک غیر سرکاری تنظیم ساسی SASSI کی سر براہ، ڈاکٹر ماریہ سلطان، نے اسلام آباد کے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال پرایک سروے رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے بالعموم، اور نجی تعلیمی اداروں کے بچے بالخصوص، کسی نا کسی صورت میں منشیات کے عادی پائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق تعلیمی اداروں میں منشیات کے عادی بچوں کی شرح 43 سے 53 فیصد بتائی گئی۔ چیئرمین کمیٹی اور سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک کے احکامات پر اے این ایف (اینٹی نارکوٹکس فورس) اور پولیس نے کارِ روائی کی، اور بڑی مقدار میں منشیات بر آمد کی گئیں، متعدد منشیات فروش گرفتار کیے گئے۔
کمیٹی کے احکامات پر چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اینٹی ڈرَگ آپریشن کرتے ہوئے سماج دشمن عناصر دھر لیے گئے۔ ماریہ سلطان نے اے آر وائی کے پروگرام اعتراض ہے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پوری دنیا کو 90 منشیات فراہم کرتا ہے اور اس کا 40 فیصد پاکستان سے گزر کر باہر جاتا ہے۔ جو منشیات پاکستان میں سے گزر رہی ہیں ان کا 45 فیصد پاکستان میں استعمال ہور رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ منشیات کی فراہمی میں 2001 سے 2017 تک بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ نجی تعلیمی ادارے ڈرگ مافیا کے ٹارگ پر ہیں اور اس حوالے سے آگاہی کا فُقدان پایا جاتا ہے۔
ماریہ سلطان کا مزید کہنا تھا کہ نجی و سرکاری تعلیمی ادارے منشیات کی روک تھام میں نا کام نظر آتے ہیں۔ ساسی کی سروے کے مطابق نجی اسکولوں میں میں منشیات کے عادی بچوں کی عمریں 11 سے 12 سال ہے اور 15 سے 16 برس کے بچوں میں بتدریج تیزی آتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں کوکین، ہیروئن، ایکس ٹیسی، کرسٹل میتھ، کینابِس اور آئس جیسی منشیات سے پاکستان کا سماجی و معاشرتی سلامتی کا مستقبل خطرے میں پَڑ گیا ہے۔
سروے رپورٹ کے مطابق منشیات بذریعہ ٹیلی فون اور ویب سائٹس بیچی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ منشیات فروش منظم انداز میں تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں اور ایک اسکول پر 150 سے زاید افراد کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اس معاملے پر نیشنل ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسکولوں میں منشیات کے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا جائے، جس کے لیے قانون سازی کرنی پڑے گی۔ ان معاملات کو سیاست سے بالا تر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہوئی ہے تو منشیات کے خلاف کیوں نہیں۔
ڈاکٹر ماریہ کہتی ہیں کہ 1 کلو ہیروئن سے 700 افراد کا نشہ ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان کوکین نہیں بناتا، کوکین لاطینی امریکی ممالک میں پیدا کی جاتی ہے اور بذریعہ سمندر پاکستان اسمگل جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اے این ایف کی فورس 3500 سو افراد پر مشتمل ہے، جو تعداد موجودہ حالات میں انتہائی نا کافی ہے۔ اسے بہ طور نیشنل اینٹی ڈرگ ڈرائیو کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایمان کلینک میں ہماری ملاقات صبا (فرضی نام) سے ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے اپنی شکل اچھی نہیں لگتی تھی، اس لیے میں آئس کے نشے کی طرف آئی۔ صبا بھی دوستوں کے ساتھ پارٹیوں میں جاتی رہیں۔ یوں ایک دن آئس کا نشہ ان کی زندگی پر حاوی ہو گیا۔
کلینک میں زیرِ علاج پشاور سے تعلق رکھنے والی گُل (فرضی نام) راول پنڈی کے ایک گرلز ہاسٹل میں رہائش پذیز تھیں۔ اس دوران وہ دوستوں کے ہمراہ نائٹ پارٹی میں چلی گئی اور وہ بھی کرسٹل آئس کے نشے کی نذر ہو گئیں۔
ڈی ٹاکس اور ری ہیب بہت ہی مہنگا علاج ہے۔ اس سے وہی لوگ مُستفید ہو سکتے ہیں جن کی مالی حالت کافی بہتر ہو۔
کفایت حسین خان گزشتہ پندرہ برس سے مختلف ری ہیب سینٹرز میں بحیثیت منتظم کا کر رہے ہیں۔ وہ آج کل دی نیو لائف ری ہیب اینڈ سائیکاٹرک سینٹر سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ علاج کافی مہنگا ہے، مریض پر روزانہ 1 ہزار سے 15 سو تک کا خرچہ آتا ہے۔ اس سینٹر میں علاج کے لیے آنے والے مریضوں میں 30 فیصد خواتین اور 70 فیصد مرد ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ 2 برسوں میں طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے 10 فیصد تھی اب یہ شرح 30 سے 40 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو تعلیمی اداروں کی کینٹین اور قریبی دُکانوں سے منشیا ت بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیروئن، چرس، آئس، شراب، افیون،کوکین، نشہ آور انجکشن، ایکس ٹیسی یا پارٹی ڈرگ کے کیسسز آتے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں سے آئس کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور آئس کا نشہ کرنے والوں میں 18 سے 30 کی عمر کے مرد و خواتین شامل ہیں۔
ایک اندازے کے میں اسلام آباد اور راول پنڈی میں ری ہیب سینٹرز کی تعداد 25 کے لگ بھگ ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر اسلام آباد، کراچی، پشاور، سکھر اور کوئٹہ میں اے این ایف ری ہیب ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ نو جوان طبقہ پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد ہے اور ڈرگ مافیا بچوں کے مستقبل کو تباہ کر رہا ہے۔ ایسے میں نجی و سرکاری اداروں کو منشیات کے خلاف آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تا کہ بچوں کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔ اس کے علاوہ ہر بچے کی کسی نہ کسی کھیل میں شمولیت لازمی قرار دی جائے تا کہ بچوں میں مثبت سَر گرمیوں کا رجحان پیدا ہو۔
پاکستان میں منشیات کی خرید و فروخت اور اسمگلنگ کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین موجود ہیں۔ ایک کلو گرام اور اس سے زیادہ منشیات کی خرید و فروخت پر عمر قید اور زیادہ سے زیادہ موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔
پر زمینی حالات ایک بار پھر یہ باور کرتے ہیں کہ دیگر بہت سارے معاملات کی طرح اس اہم معاملے میں بھی سخت قوانین کی موجودگی خاطر خواہ مثبت نتائج دینے سے قاصر رہی ہے۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی کے منشیات کی لت لگے نو جوانوں کی فیصدی تعداد کے متعلق دعوٰی کی حقیقت پسندی کا تمسخر اڑاتے اڑاتے ہمیں اپنے سامنے کی دیوار پر لکھے سوالات کو سخت قوانین کی موجودگی پر بہ طور والدین، بہ طور سنجیدہ و متحرک شہری، بہ طور اساتذہ، بہ طور صحافی، اور بہ طور ہر کسی حیثیت میں بھی ذمے داران، کے ان سوالات کو کسی مؤثر عمل کے counter action ضبط میں لانا ہو گا۔