پاکستانی فلم انڈسٹری میں شمیم آراء کا کردار
از، نازش ظفر
(پاکستان کی فلمی دنیا کی معروف اداکارہ و ہدایت کارہ شمیم آراء ایک طویل علالت کے بعد لندن میں آج خالق حقیقی سے جا ملیں۔ آپ آج سے اٹھہتر برس قبل علی گڑھ، اتر پردیش، بھارت میں پیدا ہوئیں۔ شمیم آراء کی زندگی بسلسلۂِ فلمی دنیا، ان کے کردار کا احاطہ کرتا نازش ظفر کا یہ مضمون دیکھیے۔ ادارہ)
دوسرے تمام شعبوں کے ساتھ پاکستان کی فلم انڈسٹری نے بھی ضیا الحقی دور آنکھوں کے پپوٹوں کے بھار جھیلا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جہاں تخلیق کی گردن پر تعزیر دھر دی گئی۔
اس دور میں فلم انڈسٹری کے لئے بھی مضحکہ خیز قوانین متعارف ہوئے۔ رجسٹریشن لاء کے تحت فلم پروڈیوسرز کے لئے تعلیمی ڈگری کی شرط رکھی گئی۔ انڈسٹری کے نامی پرڈیوسر جو کاغذی ڈگری کے بغیر بھی سینما گھروں کو آباد رکھنے میں کامیاب تھے، گھروں میں بیٹھ گئے۔
انیس سو اناسی میں تو اٹھانوے فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں مولا جٹ جیسی بڑی فلم بھی شامل تھی۔ لیکن ایک ہی سال کے اندر انیس سو اسّی میں آنے والی فلموں کی تعداد صرف اٹھاون رہ گئی تھی۔ نئے ٹیکس ریٹ نے فلم پر پیسہ لگانا بہت مشکل بنا دیا۔ لاہور کے کئی سینما گھر بند کروا دئے گئے۔
“مولا جٹ” جیسی فلم نے بزنس تو خوب کیا لیکن بڑھک کے شور میں محبتوں بھری پنجاب کی دھرتی کا مدھر گیت مدھم پڑ گیا۔ حس لطافت کا مزید جنازہ اس دور کی پشتو کی نیم عریاں فلموں نے نکالا۔
خوب صورت کہانی، سریلے گیت، اور دھیمے مکالمے جو پاکستانی فلم کی پہچان تھے، ضیاء الحقی دور میں ان کی جگہ کہیں نہیں بچی۔ تراسی میں وحید مراد کی مبینہ خود کشی اس دور میں فلم کے زوال کی عین علامت معلوم ہوتی ہے۔
بچے کھچے سینما گھر فلم بینوں کا مرکز کم اور لفنگوں کا اڈہ زیادہ بن گئے تھے۔ کسی عورت کا انڈسٹری سے منسلک ہونا اس کے بدکردار ہونے کی دلیل بنا کر پیش کیا جاتا۔ آرٹ اور آرٹسٹ دونوں اس دور کی ملائیت زدہ گندی نگاہ سے اپنی عزت بچاتے پھرتے تھے۔
لیکن بربریت بھری بڑھک کے سامنے، ایک عورت اس دور میں بھی ڈٹی رہی۔ محبت کے لطیف اور دھیمے سروں کے سنگیت سے سینما گھر آباد رکھنے کی کوشش کرتی رہی۔ شمیم آراء نے اس دور میں بحثیت ہدایت کارہ مس ہانگ کانگ، مس سنگا پور، مس کولمبو جیسی فلمیں بنائیں۔
خدا خدا کر کے ضیاء الحقی دور بیتا، اور لالی وُڈ نے شمیم آرائی کا اصل دور دیکھا۔ ایور ریڈی پکچرز کی “ہاتھی میرے ساتھی” انیس سو ترانوے میں آئی۔ اس فلم نے چھیاسٹھ ہفتوں تک فلم بینوں کو سینما گھروں سے جوڑے رکھا۔ اس سال فلم نے بہترین فلم کا نگار ایوارڈ اور چار دوسری کیٹیگریز میں ایوارڈ لیا۔ لیکن سب سے بڑا ایوارڈ یہی تھا کہ ایک بار پھر سینما گھر ہیبت زدہ ہجوم کے بجائے فلم بینوں کا مرکز بن گئے تھے۔ بحثیت عورت شمیم آراء نے اپنی کامیابی سے ثابت کر دیا کہ اس انڈسٹری سے تعلق، کردار کا سرٹیفیکیٹ نہیں، پیشہ ورانہ مہارت کی پہچان ہے۔
“ہاتھی میرے ساتھی” کے بعد، “منڈا بگڑا جائے”، “ہم کسی سے کم نہیں”، “لَوْ95″، “ہم تو چلے سسرال”، سب ایسی فلمیں تھیں جن کے دوران فلم بین مسکراتے تھے، گنگناتے تھے۔ خود دیکھنے کے بعد اپنے دوستوں اور بچوں کو لے جاتے تھے۔ لالی وڈ میں گنڈاسا گاہے گاہے انٹری دیتا رہا لیکن اب چوڑی کی کھنک بھی سنائی دینے لگی۔ سید نور، جاوید شیخ، ثمینہ پیرزادہ، سنگیتا نے نوے کی دھائی میں اس شمیم آرائی میں اپنا حصہ خوب ڈالا۔
شمیم آراء اداکارہ کی حیثیت سے اپنے انفرادی فن کو امر کر گئیں ۔ لیکن بحثیت ہدایت کارہ لالی وُڈ پر ان کا احسان اس سے کہیں زیادہ ہے۔