(حسن جعفر زیدی)
قیام پاکستان کے بارے میں ایک نظریہ تو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ:
’’برصغیر کے مسلمانوں کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک ملک چاہیے تھا، چنانچہ پاکستان دراصل اسلامی نظام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی نظریاتی سرحدیں ہیں جنہیں جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے اس کا خواب دیکھا تھا، قائداعظم نے اس کی تعبیر کی۔‘‘
اس تصور کو نظریہ پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا سرکاری نظریہ بھی یہی ہے۔ اس تصور کو ان مراعات یافتہ طبقات نے اختیار کیا جو محکوم طبقوں اور قومیتوں پر اپنی سیاسی و معاشی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے اسلام کی آڑ استعمال کرنا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں اس تصورکی نقیب سیاسی جماعتیں جو ’’نفاذ اسلام‘‘ کے نعرے کو متذکرہ طبقات کی بالادستی اور جہادی کلچر کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی شدید مخالفت کرتی رہی ہیں۔
ایک دوسرا تصور بھی پایا جاتا ہے:
’’برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کوئی تضاد نہیں تھا۔ انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کرکے ان کے مابین صدیوں سے قائم بھائی چارہ کو ختم کیا اور پھر سازش کے ذریعے ملک کو تقسیم کرکے چلے گئے تاکہ برطانوی سامراج کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔‘‘
یہ انڈیا کی اسٹیبلشمنٹ کا سرکاری مؤقف ہے اور اسے پاکستان کے بعض، تمام نہیں، ترقی پسند، بائیں بازو اور لبرل کہلوانے والے لوگ بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کو توڑنے اور تاریخ کی اس غلطی کو درست کرکے بھارت اور پاکستان کے درمیان لکیر کو مٹانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی وفاداریاں اور مفادات سرحد پار ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام آباد کے مسلسل جبر اور ناانصافیوں سے تنگ آکر چھوٹے صوبوں کے بعض قوم پرست رہنما بھی اس تصور کو اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
یہ دونوں تصوراتی یا نظریاتی ماڈل یا موقف جو مختلف مخصوص مفادات کے تحت وجود میں آئے یا لائے گئے ہیں، جب تاریخی جدلیات کے دھارے کے سپرد کیے جائیں تو خس و خاشاک کی طرح بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مطالعہ تاریخ دراصل ایک سائنس ہے۔ اس میں ذاتی پسند یا ناپسند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ تاریخ کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ اس کا مطالعہ عقائد کی بنیاد پر نہیں بلکہ معروضیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ عقائد خواہ دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے، عقیدہ پرستی کے شکنجے میں پھنس کر نہ تو ماضی کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل ہوسکتی ہے، نہ حال کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں کوئی درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
تاریخ عالم ملکوں اور سلطنتوں کے عروج و زوال سے عبارت ہے۔ مختلف قبیلوں، گروہوں، قوموں، نسلوں، طبقوں اور فرقوں کے باہمی ٹکراؤ یا جدل کے نتیجے میں نئے ملک اور سلطنتیں وجود میں آئیں اور پھر ٹکراؤ اور جدل کے اسی عمل نے ان کا شیرازہ بکھیر دیا اور نئے ملک یا سلطنتیں وجود میں آگئیں۔ ملکوں یا سلطنتوں کی سرحدوں کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوا۔ کسی ملک یا سلطنت کی عمر کا انحصار اس کی داخلی و خارجی قوتوں کے مابین تضادات کی حل پذیری پر رہا ہے۔ اگر تضادات حل ہوتے رہیں تو عمر لمبی ہوجاتی ہے ورنہ مختصر۔ اس وقت دنیا کا جو نقشہ ہے اس کی عمرکچھ زیادہ نہیں ہے۔ گذشتہ بیسویں صدی میں یہ تین مرتبہ بڑی تبدیلیوں سے گزرا۔ ایک پہلی عالمی جنگ کے بعد؛ دوسرا، دوسری عالمی جنگ کے بعد؛ اور تیسرا، سرد جنگ کے خاتمے پر۔ ااس دوران کبھی غالب مغلوب ہوجاتے رہے اور کبھی مغلوب غالب!
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں غالب و مغلوب کی جدلیات ہندوؤں اور مسلمانوں کے حوالے سے کم و بیش بارہ تیرہ سو سال پہلے شروع ہوئی۔ جب برصغیر کے مغرب میں سندھ اور پھر پنجاب پر مسلمان حملہ آوروں نے حکمرانی اور غلبہ حاصل کیا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین معاشرتی اور ثقافتی تفریق بھی بہت زیادہ تھی۔ غزنوی دور کے مسلمان مفکر ابو ریحان البیرونی نے اپنی تصنیف کتاب الہند میں اس تفریق کی شدت کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ:
’’ہندو تمام غیرملکیوں یعنی مسلمانوں کو ملیچھ یعنی ناپاک سمجھتے ہیں اور اگر کوئی مسلمان یا غیرملکی چاہے بھی تو وہ ان میں داخل نہیں ہوسکتا گویا دونوں فرقوں میں سے کوئی ایک فرقہ بھی دوسرے میں جذب نہیں ہوسکے گا۔” 1
برصغیر کے وسیع علاقے پر مسلمان سیاسی، معاشی و ثقافت اور معاشرتی طور پرغالب، اور ہندو مغلوب رہے۔ مسلمان حکمران تھے اور ہندو رعیت یا باجگزار۔ مسلمان حکمران قرون وسطیٰ کے مروجہ استبدادی دستور کے مطابق رعیت اور محکوم پر وہ تمام ظلم و زیادتی روا رکھتے تھے جو اس استبدادی نظام میں رائج تھا۔ اس استبداد کا اگرچہ مذہب سے تعلق نہیں تھا، مروجہ دستورہی یہ تھا، تاہم غالب کا مذہب غالب اور مغلوب کا مذہب مغلوب تھا۔ اس وقت کے مسلمان مورخین منہاج الدین سراج، ضیاء الدین برنی، محمد قاسم فرشتہ، نظام الدین احمد بخشی اور مُلاعبدالقادر بدایونی وغیرہ کی ضخیم تصانیف تاخت و تاراج کی ان تفاصیل سے بھری پڑی ہیں جو مسلمان حکمران اور حملہ آور مفتوحہ اور مقبوضہ علاقوں پر کرتے تھے۔ مندر تباہ و مسمار کیے جاتے تھے، بت توڑے جاتے تھے۔ تاہم خراج ادا کرنے کی صورت میں مندر اور بت محفوظ رہتے تھے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ اس طویل دور میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوا، ہندو مسلم تضاد کو ختم کرنے یا کم کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں جو بعض ادوار میں کامیاب بھی ہوئیں۔
اس ضمن میں مغل شہنشاہ اکبر کا دور اور کشمیر کے حکمران زین العابدین اور بعض اور علاقائی حکمران قابل ذکر ہیں۔ مسلمان صوفیا کا کردار بھی اس تضاد کو کم کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے میں بڑا اہم رہا۔ خصوصاً چشتیہ سلسلہ کے بزرگان بابا فرید الدین، نظام الدین اولیا اور امیر خسرو وغیرہ۔ تاہم طریقت اور شریعت کا نفاذ بھی ساتھ ساتھ کارفرما تھا۔ اہل شریعت اس دور کے ’’نظریاتی‘‘ ماڈل کے علمبردار تھے۔ جب حکمران ان کا زیادہ اثر قبول کرلیتا تو ہندو مسلم تضاد میں شدت آجاتی اور جب حکمران صوفیا کے مسلک کے زیادہ زیراثر ہوتا تو یہ تضاد نرم پڑ جاتا تھا۔ صوفیا کی اس تحریک میں بھگتی تحریک نے اہم کردار ادا کیا۔
اس طرح یہ تاریخی جدل غالب و مغلوب کی کشمکش سے ہوتا ہوا اٹھارویں صدی کے آغاز میں پہنچا تو مغل زوال پذیر ہوچکے تھے اور مرہٹہ ایک بڑی قوت بن چکے تھے۔ 1757ء میں احمد شاہ ابدالی نے انہیں پانی پت کے میدان میں شکست فاش دی لیکن اس کا فائدہ مسلمانوں کو نہ ہوا۔ تھوڑے عرصے بعد احمد شاہ ابدالی کے ایک سکھ سپاہی رنجیت سنگھ نے پنجاب، کشمیر اور پشاور پر اپنی حکومت قائم کرلی اور ادھر بنگال و بہار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حکومت کے قیام میں ہندو مارواڑی سیٹھوں نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
اٹھارویں صدی کے انجام اور انیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر کے طاقت کے توازن میں ایک کیفئیتی تبدیلی qualtative change آچکی تھی۔ وہ جو ہزار سال سے مغلوب تھے یعنی ہندو نئی غالب قوت یعنی انگریزی استعمار کے وفادار بن گئے یا کمپراڈور بن گئے۔ راجہ رام موہن رائے کی ترغیب پر انہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور نئے انتظامی و سیاسی ڈھانچہ میں ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مسلمان اشرافیہ جو لارڈ ہیسٹنگز(Hastings) کے عارضی بندوبست اور لارڈ کارانوالس (Cornwalis) کے بندوبست دوامی کا شکار ہوکر اپنی دولت و جاگیر سے محروم ہوگئے۔ ان کی جاگیردانہ اخلاقیات اور کرم خوردہ سماجی اقدار ان کو انگریزی تعلیم کی جانب مائل نہ کرسکی۔ مسلمان درمیانہ اور غریب طبقہ کو بھی جاگیرداروں کی قیادت اور علماء کی قیادت جن میں وہابی اور فرائضی تحریک کے جہادی بھی شامل تھے ایک طویل عرصہ تک جدید تعلیم اور نئے نظام سے دور رکھے رہے۔ علاوہ ازیں صدیوں سے مغلوب ہندو جو نئے تناظر (Pardigm Shift) کے بعد نئی غالب قوت انگریز کے جونیئر پارٹنر تھے اپنی پوری کوشش کرتے تھے کے مسلمان کی ترقی کا راستہ روکیں۔
1857ء کی جنگ آزادی یا غدر کے بعد جو پاور سٹرکچر ابھر کر سامنے آیا۔ اس میں سب سے اوپر غالب قوت انگریز تھے، دوسرے نمبر پر نئی ابھرتی ہوئی ہندو بورژوازی تھی اور تیسرے اور نچلے درجے پر مسلمان تھے جن میں چند مسلمان ریاستوں کے نوابین کو مستثنیٰ کرسکتے ہیں۔ اب جدلیات ان تین قوتوں کے درمیان تھی۔ انگریزایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ کو ہٹا کر براہ راست تاج برطانیہ کی عملداری قائم کرچکے تھے اور اسے مستحکم کررہے تھے۔
نئی ہندو بورژوازی کو پہلی بار یہ اندازہ ہوا تھا کہ یورپ کے صنعتی انقلاب نے جو جمہوری نظام جنم دیا ہے اس نے عددی اکثریت کی بنیاد پر ان کے لیے حصول اقتدار کا راستہ کھول دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے غلبہ کے حصول کے لیے یورپ کے بورژوا نیشنلزم کے تصور کا من و عن ہندوستان پر اطلاق کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں درپردہ بورژوا لبرل سوچ کے بجائے ہندو احیاء اور ہندو غلبہ کی کوشش تھی۔ جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی تھی۔ وہ اپنی جدلیات میں ایک طرف انگریز کے ساتھ اقتدار و اختیار میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی جدوجہد کررہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں کو مکمل طور پر مغلوب و محکوم بنا نے کی کوشش کررہے تھے۔
اٹھارویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے وسط تک کے 100 سال میں برصغیر کے سیاسی، معاشی و معاشرتی منظر میں جس قدر بڑی تبدیلی یا Paradigm Shift آیا تھا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو جس جدلیات کا سامنا تھا اس کے لیے اس 100 سال میں انہیں شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، جمال الدین افغانی اور علمائے دیوبند کے نظریاتی مذہبی ماڈل نے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ ان مذہبی رہنماؤں کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ سیاست، معیشت اور معاشرت کی جدل میں مسلمان ہندوؤں کے مدمقابل کیسے کھڑے ہوں گے۔
جس زمانے میں رام موہن رائے ہندوؤں کو انگریزی تعلیم اور جدید سائنس پڑھا رہا تھا، اسی زمانے میں سیداحمد، شاہ اسماعیل اور ان کے بعد کے وہابی تحریک کے قائدین مسلمانوں کے جہادی جتھے بھرتی کرکے پشاور میں طالبان ٹائپ اسلامی حکومت قائم کرنے میں مصروف تھے۔ بالآخر مسلمان اپنے تاریخی جدل کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے سرسیداحمد خاں، نواب لطیف اور سیدامیر علی جیسے لوگوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ انہوں نے راجہ رام موہن رائے والا کام کم و بیش 50 یا 60 سال کے بعد شروع کیا اور یہ ایک ایسا فرق تھا جسے مسلمان کبھی پورا نہیں کرسکے۔
________
1- Al-Beruni, Abu Rehan,Indica, Translated by Edward Sachau, Munshiram Manoharlal Publishers, New Delhi, 3rd Edition 1992,pp.17-24