نظریہ پاکستان، فکری ادراک اور قومی بیانیہ
نعیم بیگ
ایک روزن پرآج کچھ دیر پہلے ’’پاکستان کا فکری منظر نامہ اور چند معروضات‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون زیر مطالعہ آیا۔ ایک روزن نے اپنی معروضات سے پہلے وجود ڈاٹ کام پر شائع ایک آرٹیکل ’’ پاکستان کافکری منظر نامہ ‘‘ از جناب محمد دین جوہر کو یہاں قارئین کی نذر کیا اور اس کے بعد اپنی معروضات کو قارئین کے سامنے پیش کیا۔ احقر پہلے جناب محمد دین جوہر کے فکری ارشادات کا ایک اجمالی جائزہ لیتا ہے اور پھر ایک روزن اور اپنی گفتگو کو زیر بحث لاتا ہے۔
’پاکستان کا فکری منظر نامہ‘ اپنے جوہر میں دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں انھوں پاکستان کے علمی اور فکری منظر نامے کو سرگرانی سے عبارت کیا اور قومی بیانیہ کی حفاظت اور تجدید نو کے لیے علمی اور فکری دانشمند حلقوں کی بے اعتنائی پر احتجاج رقم کرایا۔ بقول جوہر صاحب پاکستان کا قومی بیانیہ اس وقت عالمی طاقتوں کی بلاجواز تنقید سے شدید دباؤ کا شکار ہو گیا ہے ۔ انھوں نے ان ملکی اور قومی وجوہات پر بھی سیر حاصل بحث فرمائی ہے ۔ جس میں انھوں نے روشن خیال ، لبرلز ، اور مارکسٹوں کے تمام پاکستانی حلقوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے اور انکی عمومی علمی نااہلیت اور تحقیری ذہنیت کو مایوس کن قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے ان اہل علم حلقوں کی جانب سے کوئی تشفی بخش علمی تحریر آج تک سامنے نہیں آئی ہے۔
دوسرے حصے میں انھوں نے مختصراً ان معروضی ملکی اور عالمی مسائل میں گھرے پاکستان کے لیے کسی بھی قومی بیانیہ کی تشکیل نو کی بجائے نظریہ پاکستان اور اور اس کے اولین خدو خال کے مطابقت اور تجدید کی خواہش پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں ۔ وہ رقم کرتے ہیں۔ ’’سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کو ہم اپنے تہذیبی تناظر میں کس طرح دیکھتے ہیں؟ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر ہمارا موقف کیا ہے؟ امریکی قیادت میں عالمی سیاسی نظام مسلمان ملکوں پر جو تباہی مسلط کر رہا ہے اس پر ہمارا تہذیبی موقف کیا ہے؟ روس اور چین کی بڑھتی ہوئی عالمی طاقت سے عالمی نظام کی چولیں اب ڈھیلی ہو گئیں ہیں اور اس پر امریکی گرفت کھسک رہی ہے اور یہ ایک بڑی جنگ کی طرف لڑھک رہا ہے، اس پر ہمارا موقف کیا ہے؟ ‘‘
وہ آگے چل کر کہتے ہیں۔ ’’برصغیر میں مسلم قومیت کے کامیاب نظریے سے برصغیر کی تقسیم واقع ہوئی تھی، لیکن ہندو قومیت کے نظریے کا ظہور برصغیر کے لیے کیا امکانات رکھتا ہے؟ ہندو قومیت کے نئے نظریے کے اہداف کیا ہیں اور ہمارے لیے اس کی کیا معنویت ہے؟ اور ہندو نظریہ برصغیر میں کون سی تہذیبی اقدار کو سامنے لا رہا ہے؟‘‘
ان کا خیال ہے کہ’’ ہمارے ہاں قومی بیانیہ میں اس فکری تناظر کی ضرورت ہے اور ہمیں اسکی تشکیل اور تجدید نو کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس کے بغیر پاکستان، اسلام اور نظریہ پاکستان کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے عمرانی و سیاسی مسائل کو بھی مسلم تہذیبی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اسی تناطر میں ان کے سوالات ہیں۔ وہ مشرقی وسطیٰ کے ممالک پر حکومتی ردعمل کو بجائے سیاسی و عالمی تناظر میں دیکھنے کے، اسلامی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ایسے میں ان کی فکر و نظر سعودی عرب اور قطر جیسے اسلامی ممالک پر کیوں نہیں جاتی؟ کیا یمن اور سعودی عرب اسلامی ممالک نہیں لیکن انکی سوچ تہذیبی تناظر میں یکساں کیوں نہیں؟ کیا ایران جیسی سخت گیر مملکت اسلام کے بنیادی عقاید سے منحرف ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ عالمی سیاست کرتے وقت دنیا بھر کے تمام ممالک عالمی قوانین و عالمی سفارتی معاہدوں اور اخلاقیات کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ انھیں صرف اسلامی تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا اور اگر ایسا ہوتا تو مبینہ طور پر مسلم امّہ کا تصور ایک حقیقی روپ دھار چکا ہوتا اور مسلم ممالک آپس میں لڑ نہ رہے ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک عرصے سے قائم شد او۔آئی۔سی اور حالیہ ۳۴ ممالک کا مسلم اتحاد سعودی عرب اور قطر کا مسٗلہ حل نہ کر سکا ہے ۔ حالیہ روہنگیا مسلم کش فسادات میں ان اداروں کا ناکام کردار یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کرتا ہے کہ مسلم امّہ کا تصور صرف ورچوئل تصور ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
مملکتیں اب اپنے جغرافیائی ، معاشی اور عمرانی مفادات کے تحت کام کرتی ہیں وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ۔ مذاہب ان مملکتوں کے اندر ان کے عوام کے ہیں، ناکہ ان کی حکومتوں کے۔ ہمیں اپنی سوچ کو سائنسی بنیادوں پر ساخت کرنا ہوگا، ہمیں جتنی جلدی اس بات کا فہم و ادراک ہوگا اتنی ہی تیزی سے ہم اپنے ملکی معاملات کو درپیش مسائل سے کماحقہُ نبٹ سکیں گے۔
اسی طرح وہ سوال اٹھاتے ہیں، ’’امریکی قیادت میں عالمی سیاسی نظام مسلمان ملکوں پر جو تباہی مسلط کر رہا ہے اس پر ہمارا تہذیبی موقف کیا ہے؟ ‘‘ہمارا تہذیبی موقف تو اسی بات سے ظاہر ہو چکا ہے کہ ہم امریکا کی سربراہی میں بننے والے ۳۴ ملکوں کے مبینہ اتحاد کے ممبر ہیں اور بے یقینی کی حالت میں اپنے سینئر ترین جنرل کو وہاں بھجوا بیٹھے ہیں، جہاں اب تک اس اتحاد کے ٹرمز آف ریفرنس تک نہیں طے ہو سکے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنھیں ہمیں اپنے مستقل قومی بیانیے میں ایک قوت کے طور پر استعمال کرنا ہوگا، ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے اس اتحاد کا حصہ نہیں بنے ہیں۔
یہ عرض اس لیے کی کہ اگر ہم واقعی معروف عمرانی و سیاسی دانش کے تحت یہی کام کرتے تو کہیں بہتر تھا کہ ہم اپنے مفادات کو درپیش خطرات سے بچا لیتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جب نائن الیون کے بعد امریکا کے وزیر کی ایک کال پر ہم ڈھیر ہوگئے۔ اگر ہم اس وقت معروف سیاسی و عمرانی سیٹ اپ رکھے ہوتے تو یہ سہولت اگر امریکا کو ملتی بھی تو اپنے ملکی مفادات کا مکمل تحفظ لے لینے کے بعد، جب کہ ایسا نہ ہوسکا۔ ہم نے نیٹو ٹرانسپورٹ کے لیے اپنی سڑکیں اور تین ہوائی اڈے ( جیکب آباد ، پسنی اور خاران) بلا معاوضہ امریکا کی خدمت میں پیش کر دیے۔
اب ہم ان کے دیگر سوالوں کی طرف آتے ہیں۔ بغور جائزہ لینے کے بعد یہ اظہر من الشمس ہے کہ مندرجہ بالا سولات بذات خود اپنے جوہر میں کئی ایک تضادات کے حامل ہیں۔ اگر ہم انھی مفروضوں پر اپنی تھیسس قائم کرتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت نظریہ پاکستان صرف دو قومی نظریہ تھا، تو یہ طے ہو گیا کہ مسلمان اپنے الگ وطن پاکستان کو لے کر آزادہو گئے ،جس پر ان کا اصرار تھا۔ ایسی صورت میں ہندوستان میں رہ جانے والی ہندو اکثریت اور ایک بڑی مسلم اقلیت جو ہجرت نہ کر سکی یا نہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی، خود بخود ایک ہندوستانی قوم کا درجہ حاصل نہ کر گئی ہو گی، تب ہم یہ سوال کیسے اٹھا سکتے ہیں کہ ہندو قومیت کے نئے اہداف کیا ہیں اور ان کی معنویت کیا ہے؟
ہندوستان اب ایک الگ آزاد ملک ہے ہندو اکثریت اس ملک کے اندر اپنے کیا اہداف مقرر کرتی ہے ہمیں بحیثیت ایک ہمسایہ ملک اپنے مفادات اور ہندوستان کے ساتھ کشمیر جیسے کنفلٹ تک رہنا چاہیے، نہ کہ ان کے اندرونی قومی اہداف کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں۔ وہ سیاہ کریں سفید کریں۔ ہم کون ہیں جو ان کے داخلی معاملات میں مسلم تہذیبی جواز کے تحت مداخلت کریں؟
دوئم یہ کہ پورا برصغیر اب جائنٹ مملکت نہیں جہاں ہندو تہذیب ہماری قومی و ملکی و اسلامی تہذیب پر اثر انداز ہو رہی ہے، وہاں مسلم ایک بڑی اقلیت ضرور ہے لیکن انہیں اپنے ملکی قوانین کے مطابق چلنا ہوگا۔ ہمیں کسی صورت یہ حق نہیں کہ ہم دوسرے ملکوں کی تہذیب کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں، اور اگر دیکھیں بھی تو کم از کم عالمی قوانین و اخلاقیات کا بھرم ضرور رکھیں۔ ہمیں بحیثیت پاکستانی قوم اپنے تشخص کو ترویج دینا ہے۔
دراصل ایسی فکری سوچ کے پیچھے وہی مسلم تہذیبی بصیرت کار فرما ہے جس کے تحت ہم پوری مسلم امّہ (جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں رہا) کے تصور کو گود لیے بیٹھے ہیں۔ جس کی ناکامی بنگلہ دیش کی آزادی سے طے ہوگئی تھی۔ پاکستان کو انھی لوگوں نے اسلام کا قلعہ قرار دیا۔ امریکا اور روس کی جنگ میں جہاد کے نام پر پاکستانی پر امن عوام کے اندر جنگی جنون پیدا کیا۔ سماجی سطح پر جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ثقافتی تبدیلیاں آئیں انھیں اپنا اثاثہ قرار دیا۔ اب جا کے ایوان اقتدار کے اندر کچھ جوہری تبدیلیاں نظر آئیں ہیں تاہم ابھی رفو کا بہت کام پڑا ہے۔
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیمان ہونا
یہ وہی خود ساختہ بصارت و بصیرت سے عاری محبانِ وطن ہیں جنہیں ہر وقت دنیا بھر کے مسلمانوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ وقت بے وقت مسلم امّہ کی راگنی گاتے رہتے ہیں اور سچ پوچھیے تو مسلم امّہ سے کہیں زیادہ عرب امّہ کے لیے تڑپتے ہیں۔ یہ محبانِ وطن سرکاری و مذہبی سرپرستی میں ہر وقت اسلام ، مسلمان اور وطن عزیز کو درپیش خطرات سے نہ صرف ڈراتے رہتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے حصہ بقدر جثہ عالمی و ملکی سیاست میں عدم تحفط کی نفسیات کو بیرونی خطروں سے سجا کر صرف اور صرف جنگی جنون میں مبتلا رکھنے کا سامان کرتے ہیں۔ ان کا یقین واثق ہے کہ صرف جنگ ہی ہمیں تمام الام و ابتلاٗ سے نکالے گی۔
ان معروضات کی بنیاد پر ہمیں ونس فار آل یہ طے کر لینا چاہیے کہ ہمارا قومی بیانیہ کیا ہونا چاہیے؟ اور کیا تقسیم ہند کے وقت اٹھائے گئے سیاسی نعروں کو نظریہ پاکستان کی اساس بنایا جا سکتا ہے؟ یا نئے عمرانی معاہدوں کے تحت (جو خوش قسمتی سے ملکی آئین میں اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری طے کر چکا ہے) نئے قومی بیانیہ کو تشکیل دیا جائے۔ وفاق کے اندر چار بڑے یونٹ (صوبے) اور دو دیگر یونٹ (پہلا فاٹا، جسے شاید صوبائی درجہ مل رہا ہے، اور دوئم شمالی علاقہ جات جسے فی الحال ایک زیرِ انتظام یونٹ کا درجہ ہے، کو بھی صوبائی درجہ دیا جائے) کو ملا کر ایک نئے آئینی مفادات کا بل پاس کیا جائے۔
صوبوں کے اندر مذہبی آزادی کومکمل طور پر تحفظ دیا جائے کیونکہ دو بڑے صوبوں (سندھ اور بلوچستان) کے اندر ہندو و دیگر اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں جب کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں (عیسائی آبادی) اسی عدم تحفظ کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ساری شہری مراعات سے محروم ہیں۔ اس ضمن میں نئے بیانیہ میں انھیں پوری قوت بخشی جائے۔ نئے بیانیہ میں سیاسی مذاکرات کا پہلو جنھیں اب ٹرمپ بیان کے بعد ملکی سطح پر ایوان اقتدار میں پذیرائی بخشی گئی ہے اسے عوامی قوت سے مضبوط تر بنایا جائے۔ اپنے گھر کی صفائی پر توجہ بھی دینے کی ضرورت ہے ورنہ وہی چال بے ڈھنگی رہے گی اور عالمی سطح پر الزامات لگتے رہیں گے۔