پاکستان ، بھارت اور مغربی کلچر : درپیش چیلنجز اور نئے “ہم” تشکیل دینے کی ضرورت
از، مجاہد حسین
یہ انسان کی جبلت ہے کہ وہ اپنی پہچان کے لئے کسی نہ کسی گروہ کا حصہ ضرور بنتا ہے۔ اس گروہ کو وہ “ہم” قرار دیتا ہے۔ تاہم پہچان کا یہ سفر نامکمل ہے جب تک کوئی دوسرا مختلف گروہ موجود نہ ہو جسے “وہ” کا عنوان دیا جا سکے۔ من و تو کی طرح “ہم” اور “وہ” کی تقسیم بھی ازلی ہے تاہم یہ مستقل اور متعین نہیں ہوتی بلکہ حالات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
اگر دو بھائیوں کے بچے آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں گھر “ہم” اور “وہ” میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس دوران محلے کے کسی غیر خاندان سے مقابلہ درپیش ہو تو دونوں بھائی متحد ہو کر ایک نئی پہچان تشکیل دیں گے۔
پہچان کا یہ دائرہ خاندان سے لے کر قبیلے تک، اور پھر اس سے بھی وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ شناخت کے ان دائروں کو جتنا پھیلاتے جائیں یہ ربڑ کی طرح بڑھتے جائیں گے۔ ان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ دائرہ بڑھنے سے سابقہ عصبیتیں ناپید نہیں ہو جاتیں بلکہ ان کا وجود بھی قائم رہتا ہے۔
جب میں پاکستانی بنتا ہوں تو مجھے نہ ہی اپنا خاندان ترک کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی اپنا پٹھان ہونا، یا پنجابی ہونا۔ یہ سب عصبیتیں اپنی جگہ پر موجود رہتی ہیں۔
پاکستان کا وجود بھی اس وقت ممکن ہوا تھا جب “ہم” کے دائرے میں تمام مسلمان آ گئے تھے اور انہوں نے “وہ” کے دائرے میں ہندوؤں کو ڈال دیا تھا۔
تاہم یہی لوگ جب اپنی مختلف شناختیں لے کر کسی مغربی ملک میں جا بستے ہیں تو انہیں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ چیلنچ مغربی تہذیب کا بلیک ہول ہے جس کی طاقتور لہریں ان سے مقامی شناخت چھین کر اپنی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتی ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی اس مستقل کشمش کا مقابلہ کرنے کے لئے وہاں ایک نیا “ہم” جنم لیتا ہے۔ مذہبی اختلافات پس پشت چلے جاتے ہیں اور نسلی و تہذیبی مماثلتیں ابھر آتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اور ہندوستان کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں اور ایک ایسی نئی شناخت کو جنم دیتے ہیں جو مغربی تہذیب کے مقابلے میں اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔
فرض کریں کل کسی خلائی مخلوق سے ہمارا رابطہ ہو جاتا ہے تو زمین پر بسنے والے تمام افراد آپس میں مل کر نسل انسانی کی بنیاد پر ایک “ہم” تشکیل دیں گے جس کے مقابلے پر کسی دوسرے سیارے یا ستارے کی مخلوق بطور “وہ” موجود ہو گی۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجئے: سواد اعظم اور سواد اصغر کی دل آزاری کا تصور : کچھ سوادی سوادی تضادات
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اور ہندوستان کو مغرب میں اکٹھے ہو جانے والے ان افراد سے رہنمائی حاصل نہیں کرنی چاہئے؟ کیا دونوں ممالک میں وژن رکھنے والے ایسے قائدین کی ضرورت نہیں جو اس اتحاد کی افادیت کو سمجھیں اورمغرب کے مقابلے میں ایک نیا بلاک تشکیل دیں۔
پاکستان کے چین کے ساتھ کوئی خاص ثقافتی، نسلی یا مذہبی رشتے نہیں ہیں مگر اپنی بقا کی خواہش میں ریاستی سطح پر اس ملک کے ساتھ ہمارا اتحاد قائم ہے۔
اگر چین کے ساتھ ایسا ممکن ہے تو بھارت کے ساتھ تو اس سے زیادہ آسان ہونا چاہئے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے ہمیں اپنی پاکستانی یا اسلامی شناخت کو بھی ختم نہیں کرنا پڑتا کیونکہ نئی پہچان قائم کرتے وقت سابقہ تمام عصبیتیں اسی طرح قائم رہتی ہیں۔
اگر دونوں حکومتیں مصمم ارادہ کر لیں تو ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ ویسے بھی گلوبلائزیشن کے اس دور میں جس طرح مغربی کلچر ہماری مقامی اقدار کے درپے ہے، وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ دونوں ممالک اکٹھے مل کراس کا مقابلہ کریں۔ جس دن ایسا ہو گیا اس خطے کی تقدیر بدل جائے گی اور دنیا کو ایک متبادل قیادت مل جائے گی۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.