پاکستان اور صنعتی ترقی
(زبیر فیصل عباسی)
پاکستان میں صنعتی ترقی کی کہانی عروج اور تنزل کی روداد ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہوا اور اس کے مضمرات کیا ہیں؟ اس مضمون میں ہم انہیں سوالوں پر بحث کریں گے۔ بات یوں ہے کہ پاکستان بنانے والوں نے بھی باقی نئی آزاد ہونے والی ریاستوں کی طرح معاشی آزادی کا خواب دیکھا اور سوچا کہ جب تک ہم صنعتی میدان میں ترقی نہیں کریں گے تب تک اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ ہم اسی سوچ کیساتھ آگے بڑھے اور ہم نے کوشش شروع کر دی کہ جتنی بھی اشیا درآمد کرتے ہیں وہ ملک میں بنانی شروع کی جائیں۔ کچھ ہی دیر میں خیال آیا کہ درآمدی اشیا کا متبادل تو بنایا ہی جائے لیکن ساتھ ہی ساتھ برآمدات کو بھی بڑھایا جائے۔ اس طریقہ کار پر چلتے ہوئے شروع میں تو کچھ کامیابیاں ہوئیں لیکن رفتہ رفتہ اس انجن میں بھاپ ختم ہوتی گئی۔ ہم تمام درآمدی اشیا پاکستان میں بنانا چاہتے تھے تاکہ زرِمبادلہ کی بچت ہو لیکن انکو بنانے کے کئے جو مشینیں اور سائینس اور ٹیکنالوجی کا علم ہدرکار تھا وہ موجود نہ تھا اور باہر سے منگوانے کے لئے کثیر زرِمبادلہ کی ضرورت پڑ گئی۔ اور ہماری برآمدات بھی چند اشیا اور چند ممالک سے آگے نہ بڑھ پائیں۔
۔ لیکن ایسا کیوں ہوا کہ ہم صنعتی میدان میں ترقی کرتے کرتے رک گئے بلکہ واپسی کا سفر شروع ہو گیا؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اگر ہم سیاسی معاشیات کے نقطہ نظر سے دکھیں تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان میں مختلف حکومتوں نے اپنے من پسند لوگوں کو نوازا گیا اور سوچا گیا کہ یہ سرمایہ دار ملکی معیشت کی گاڑی کو کھنچ کر آگے لے جائیں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ اس کے نتیجے میں کاروباری مسابقت اور بہترین کاروباری ماحول تو نہ بن پایا بلکہ ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جسے ہر وقت مسابقت سے بچاو اور سرکاری مدد یا سبسڈی کی ضرورت رہتی تھی۔ اس طبقہ نے انتظامی اور مالیاتی مدد سے فائدہ تو خوب اٹھایا، سرمایہ جمع کیا اور کچھ خاندان امیر بھی ہو گئے لیکن ملک کے اندر سائینس اور ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت کا خودکار نظام نہ بن سکا۔
۔ ے اگر مندرجہ بالا تجزیہ کو ذہن میں رکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں جنوبی کوریا، سنگاپور، یا آج کا چین جیسی کوئی مربعط پالیسیوں کا ڈھانچہ ترتیب نہ پاسکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ الگ الگ جگہ پر تعلیمی، مالیاتی، صنعتی، تجارتی، ٹیکس اور سماجی تحفظ کی پالیسی بنتی رہیں لیکن انکا تعلق کسی مربوط طرز پر ایک دوسرے کیساتھ نہیں تھا۔ اس وقت اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف جا رہی ہے جس میں حیاتیاتی ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، ، ربوٹ وغیرہ بنیادی کردار ہیں میں ہمارا کردار بنیادی طور پر ایک صارف کا ہے۔ ہم ابھی بھی مشینی کاروبار کے بنیادی ڈھانچے پر ہی کام کر رہے ہیں۔ اس وقت شاید ایک ارب روپے سے بھی کم کاروبار ای کامرس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
لیکن شاید ایک اور بات بھی نہایت اہم ہے۔ وہ معاشیات سے ہٹ کر ہمارے طبعی میلان یا فکری رجحانات کے زیادہ قریب ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ ہمیں معاشرتی سطح پر سائینس اور ٹیکنالوجی کو بنانے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ہمارا عمومی رویہ ایک صارف کا یہ کسی غیر مرئی قوت کے طلسماتی کرشمے سے تعلق جوڑ کر زندگی گزارنے کا ہوتا ہے۔ عقل و خرد کا استعمال ابھی تک ایک شجرِ ممنوعہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سائینس اور ٹیکنالوجی یا مشین بنانے والے مشینیں بنانے کی صلاحیت تقریباً مفقود ہی ہے۔ اسی وجہ سے شاید ہم نے سانیس دان کم اور مذہبی سکالرز اور انکی اندھی تقلید کرنے والے زیادہ پیدا کئے ہیں۔ اسکا نقصان یہ ہوا کہ ایسی کمپنیاں جو انجنیئرز کو نوکریاں دیتی ہیں کیسا کہ بوئنگ یا واکس ویگن وغیرہ پاکستان میں پیدا ہی نہیں ہوئیں۔ اس سے بھی زیادہ نقصان یہ ہوا کہ ہمارے کام کرنے والے لوگوں کہ، جو چاہے زراعت میں ہوں یا صنعت و حرفت میں، انکی پیداواری صلاحیت میں خاطر خوا اضافہ نہیں ہوا۔ اس معاشرتی کج روی کا نتیجہ ہماری مقابلتا گرتے ہوئے معیارِ زندگی ہیں اور اگر بڑھے بھی ہیں تو وہ دوسروں کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے جس میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں اس وقت لائٹ انجنرنگ یا چھوٹی صنعتوں کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ چونکہ ہمارے تعلیمی ادارے، تحقیق کے ادارے بنیادی طور پر غیر فعال ہیں اور انکا کسی کاروباری یا صنعتی شعبے سے گہرا تعلق نہیں اس لئے اب چھوٹی صنعتوں کو وہ مشینیں ہی نہیں مل رہیں جن کی بنیاد پر وہ معیاری اشیا بنا سکیں۔ بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کا چونکہ اب تعلق “منافع” سے زیادہ ہے اس لئے وہ راستہ بھی بند ہے جہاں سے تحقیق پر روپے آ سکتے تھے۔ اس سارے معاملے کا نتیجہ یہ ہے کہ نوکریاں کم ہیں اور کام ڈھونڈنے والے لوگ زیادہ۔ صورتحال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی پچیس سال سے کم ہے۔ انکے لئے بغیر صنعت و حرفت کو فروغ دئے نوکریاں کہاں سے آیئں گی؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے کو کوئی حل ہے۔ میرے خیال میں فوری حل تو شاید کوئی نہ ہو لیکن امید کی کچھ کرنیں موجود ہیں۔ مثلا پاکستان میں کاروباری ماحول بدل رہا ہے۔ اب فِن ٹیک بڑھ رہا ہے۔ موبائل فون کی وجہ سے نئے پلیٹ فارم بن رہے ہیں جن کے ذریعے کاروبار میں سہولت پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جیسا کہ کریم ٹیکسی وغیرہ۔ لیکن ابھی بھی بہت سا روپیہ زمینوں کے لین دین میں لگایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس وقت شرحِ سود کم ہے اور نجی شعبہ کے لئے زیادہ قرضہ میسر ہے لیکن اس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ ہمارے بڑے پیداواری شعبے میں بہتری آئی ہے لیکن اسکو ایک مربوط نظام کی ضرورت ہے جو اس ترقی کو اگلے تیس چالیس سال تک چلانے میں مدد دے۔ اس کے لئے بہت سنجیدہ اور گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان کو معاشی اور معاشرتی طور پر جدید ملک بنانا ممکن نہیں۔
Good work