پاکستان کے ستر برس سوال کرتے ہیں
کشور ناہید
دروازے کے باہرقدم رکھتے ہوئے
میں ٹھٹھک گئی
دیوار کے پار جانا تو مجھے آتا ہے
مکڑیوں کے جال جیسی سڑکوں میں
میں پھنس گئی ہوں
رستے میں رات ہو گئی
اور درختوں کا حُزنِیہ میلا
شروع ہو گیا
اس شور میں نہ کوئی سڑک
دکھائی دے رہی ہے
نہ کوئی حرف زبان سے نکل رہا ہے
اور نہ سنائی دے رہا ہے
یہ تو بتاؤ جانا کہاں ہے!
ذہن میں لہریں آتی ہیں
کوئی سمت متعین نہیں ہوتی ہے
چاروں سمت جوار بھاٹا ہی نظر آتا ہے
لفظوں کا جوار بھاٹا
تیز تند شعلوں جیسی زبانیں
بے مقصد دیواریں چاٹ رہی ہیں
صبح کو وہ دیواریں پھر ایستادہ ہوتی ہیں
یہ سب درست ہے
مگر تم یہ تو بتاؤ
تمہیں جانا کہاں ہے
ملک کو قائم ہوئے ستّر برس ہو گئے ہیں
تنگ گلیوں میں امڈی کثافت کے پہاڑ
روز بہ روز اونچے ہوتے جا رہے ہیں
سارے انسان بندر بنے
ہاتھ میں استرا لیے
من مانی کر رہے ہیں
میری ٹانگوں میں آگے جانے کا دم نہیں ہے
پھر بھی بتاؤ جانا کہاں چاہتی ہو
اپنے ہی وطن میں جلا وطن لوگ
ان میں سے کچھ میرے اپنے ہیں
باقی سب دولت کی بوریوں تلے
دب کر چیخ رہے ہیں تو کبھی
پھر دیوار چاٹنا شروع کر دیتے ہیں
یہ سب ٹھیک ہے
مگر تم بتاؤ تمہیں جانا کہاں ہے
ان کے پاس جو قبروں میں
سوئے ہوئے ہیں
یا ان کے پاس
جن کے اندر زر کی پیاس
ملک کے کونے کونے کو لپیٹ میں
لے رہی ہے
انہیں دکھائی نہیں دے رہا
کہ زر کا دھواں سب کی آنکھوں میں
بھر گیا ہے
تم بتاؤ، کہاں کے لیے نکلی ہو
اور کہاں جانا ہے!
سامنے جھیل میں تیرتی مرغابیاں بھی
یہی پوچھ رہی ہیں
مگر انہیں ان کی منزل معلوم ہے
مجھے اگر منزل معلوم نہیں
تو قدم کیوں باہر نکالا
میرے وطن کا ڈائسپورا
کیا کوئی جگسا پزل ہے!
مجھے کچھ مت بتاؤ
مجھے جانے دو
ستّر برس بعد! اب تو جانے دو
سات برس کی تھی جب قدم اٹھانے کا
سوچا تھا
ستّر برس گزر گئے ہیں
مکڑی کے جالے
بڑھتے ہی جا رہے ہیں
سروں پر، قدموں پر اور بدن پر
ساری دنیا دیکھنے کے بعد
یہی نظر آ رہا ہے یا واہمہ ہے!
دروازوں سے باہر قدم رکھنے والے
سب پتھر ہو گئے ہیں
وہ تم ہو یا میں یا مرا ہمزاد!
بشکریہ: روزنامہ جنگ