پاکستان کی وزارت خارجہ : سر محمد ظفراللہ خان اور بھٹو سے خواجہ آصف تک
انور عباس انور
دنیا بھر میں یہ اصول رائج ہے کہ حکومتوں کی تشکیل کرتے وقت کابینہ میں ایسی شخصیات کو منتخب کیا جاتا ہے جو اپنے اپنے شعبوں میں کمال مہارت رکھتے ہوں خاص کر وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کا قلم دان ایسے افراد کو سونپا جاتا ہے جن کی قابلیت، صلاحیتوں اور ماہر ہونے کا زمانہ معترف ہو۔ اور وزیر منتخب ہونے والی شخصیت سونپے گئے قلمدان یا محکمہ کے لیے ایسی پالیسی وضع کرے جو ملک و قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں کارگر ثابت ہو خاص کر موجودہ ملکی اور خطے کو درپیش صورتحال میں قابل افراد کا چناؤ اور بھی لازم ٹھہرا جاتا ہے۔
آج کل جب ہم چاروں جانب سے خطرات ہمیں اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے وزارت خارجہ اور دفاع قلمدانوں کے لیے ذہین و فطین شخصیات کا انتخاب نہایت ضروری ہے، لیکن خواجہ محمد آصف آف سیالکوٹ آجکل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہیں یہ وہیں منصب ہے جس کے لیے پاکستان کے ایک لائق فائق فرزند سر ظفراللہ خان کا انتخاب کیا گیا۔
یہ انتخاب سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ سے مال مالابانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے خود کیا تھا پہلے وزیر خارجہ کے طور پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 15 اگست 1947 سے 27 دسمبر 1947تک یہ قلمدان اپنے پاس رکھا اور اور پھر 27 دسمبر 1947 سے 24 اکتوبر 1954 تک اس منصب پر فائز رہ کر نوزائیدہ مملکت خداداد کے لیے اہم خدمات سرانجام دیں۔
پھر اس منصب جلیلہ کے لیے محمد علی بوگرا، انعام الحق، فیروز خان نون ،حمید الحق چودہری ،منظور قادر تھوڑے تھوڑے وقت کے لیے وزیر خارجہ مقرر ہوتے رہے، پھر ایک اور پاکستان کے سپوت اور ہونہار فخر ذوالفقار علی بھٹو کا انتخاب کیا گیا، جنہوں نے پاکستان کو دنیا بھر میں شناخت دلوادی اور ایک عزت وقار عطا کیا، عالمی سطح پر سیاستدان ،فلاسفر، دانشور اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین ذوالفقا ر علی بھٹو کی ذہانت،قابلیت اور صلاحیتوں کا اعتراف کیے بنا نہ رہ پائے، بھٹو صاحب کی ذہانت، قابلیت اور صلاھیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے سابق امریکی صدر جان ایف کنیڈی کا ذوالفقا ر علی بھٹو سے تاریکی مکالمہ تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی دوراندیش پالیسی کا نتیجہ تھا کہ چین اور امریکا ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے، صدر جان ایف کنیڈی اور ذوالفقا ر علی بھٹو کے درمیان مکالمہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دنیا کے طاقتور ترین حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ لاہور کے گورنر ہاؤس میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسینجر نے انہیں پاکستان کو جوہر طاقت بنانے کی پالیسی ترک کرنے کا مشورہ دیا اور پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کی روش ترک نہ کرنے کی پاداش میں انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کی کھلی دھمکی بھی دی تھی۔
آج میں سوچتا ہوں کہ کہاں سر ظفراللہ خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک اور بین الااقوامی حالات کا ادراک رکھنے والے پاکستان کے وزیر خارجہ اور کہاں صاحب زاد ہ یعقوب علی خان، عبدالستار شاہ،سردار آصف احمد علی، محمود قریشی،میاں خورشید محمود قصوری، خواجہ محمد آصف جیسے فارغ الدماغ لوگ وزیر خارجہ کے اہم ترین منصب پر بٹھا دئیے گئے ہیں ایسے لوگ خاک خارجی امور چلائیں گے جن کی اپنی کوئی سوچ نہیں ،کوئی وژن نہیں اپنا کوئی نظریہ نہیں۔
1971 کے بعد ذوالفقا ر علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو انہیں وزارت خارجہ کے منصب کے لیے اپنے شاگرد عزیز احمد اور آغا شاہی ملک وقوم کی خدمت کے لیے دستیاب تھے اور انہوں نے بھٹو صاحب اور پاکستان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دی سقوط ڈھاکہ کے بعد انتہائی نامساعد حالات میں بھٹو صاحب کی متعین کردہ خارجہ پالیسی کی بدولت پاکستان اقوام عالم میں سر اٹھاکے چلنے کے قابل ہوا، انہوں نے پاکستانی قوم اور عالمی برادری کو احساس تک نہ ہونے دیا کہ پاکستان کمزور ہوگیا ہے ، آدھا ملک رہ جانے ، نوے ہزار سول و فوجی قیدی بھارت کی قید میں ہونے اور مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل علاقہ بھارت کے قبضے میں ہونے کے باوجود دشمن سمیت سپر طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا بھٹو کی خارجہ پالیسی کا کرشمہ تھا۔
محمد خان جونیجو نے زین نورانی کو یہ منصب سونپا اور وزیر خارجہ کی حثیت سے فیصلے کرنے کی مکمل آزادی اور خودمختاری کے اختیارات بھی دئیے لیکن جنرل ضیاء الحق کو افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے لیے کیا گیا معاہدہ پسند نہ آیا تو ناراض ہوگے ۔اور اس معاہدہ پر عمل درآمد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کیں ۔ان کوششوں کا اختتام محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی اور پارلیمنٹ کی تخلیل پر منتج ہوا۔
سرظفراللہ خان اور ذوالفقار علی بھٹو( اس میں آغاشاہی مرحوم اور عزیز احمد خان مرحوم کو بھی شامل کیا جا سکتاہے) کے بعد پاکستان کو کوئی ایسا وزیر خارجہ میسر نہ آیا جو پاکستان کا اثاثہ قرار دیے جانے کے قابل ہو، بھٹو کی صلاحیتوں کا اعتراف دنیا نے ان کی جان بخشی کی اپیلیں کرکے کیا لیکن عقل سے پیدل اور بھٹو کی جانے لینے کی آگ میں جھلسنے والے جنرل ضیاء الحق نے یک جنبش قلم تمام اپیلیں مسترد کرکے پاکستان دشمنی کا اظہار کیا اوراگر جنرل ضیا بھٹو کو پھانسی نہ دیتا تو آج پاکستان دہشت گردی کا شکار نہ ہوتااور نہ ہی ملک لسانی،مذہبی اور برادری ازم میں تقسیم ہوپاتا۔
چین اور امریکا کو مذاکرات کی میز پر لانے اور انہیں ’’ جھپیاں ‘‘ ڈالنے کی راہ دکھانا ذوالفقا ر علی بھٹو کی خارجہ پالیسی کا ثمر ہے، ایٹمی پروگرام کا آغاز اور اسکے لیے سازوسامان کے حصول میں بھی بھٹو کی خارجہ پالیسی نے اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ آمروں کے دست و بازو ممتاز قانون دان شریف االدین پیرزادہ سمیت باقی سب وزرائے خارجہ محض ایک مہرے سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ ان میں کئی ایک امریکی فرماں بردار بھی تھے جنہوں نے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے امریکی مفادات کو محفوظ بنایا،جس کا لامحالہ نقصان پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔
ماضی کے تجربات کو مدنطر رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے نواز شریف کے سامنے مطالبات رکھے کہ کل وقتی وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے کیونکہ خطے کی خصوصی صورتحال اس بات کی متقاضی تھی کہ جزوقتی کی بجائے کل وقتی وزیر خارجہ تعینات کیا جائے جو برحال نواز شریف کی نااہل کے بعد تسلیم کیا گیا اور وزیر پانی و بجلی( اوور بلنگ کرکے واپڈا صارفین کی کمر توڑنے والے) خواجہ محمد آصف کو وزیر خارجہ کا اہم ترین قلمدان تھما دیا گیا۔ جو اس منصب کے لیے مناسب اور موزوں نہ تھے۔
خواجہ آصف نے امریکا کادورہ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور دفتر خارجہ سے دنیا کی بدلتی صورتحال اور امریکا کی نئی انگڑائی پر بریفنگ لینے کی ضرورت بالائے طاق رکھتے ہوئے فلائیٹ پکڑی اور امریکا پہنچ گئے، وہاں ان سے کہیں زیادہ چلاک ،ہوشیار اور زیرک امریکی حکام نے جو سبق سیالکوٹ کے خواجہ کو ازبر کرایا وہیں سبق انہوں نے زیر زبر اور پیش کی کمی بیشی کے بغیر دنیا کے روبرو دہرا دیا۔ اور تسلیم کیا کہ کسی اور کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے پہلے ہمیں اپنے گھر کی صٖفائی پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ بیان دے کر خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ ہمارا گھر خراب ہے، جب تک ہمارا گھر کلین اینڈ نیٹ نہیں ہوتا دنیا ہمیں قصور وار سمجھتی رہے گی اور ’’ڈومور ‘‘ کا مطالبہ کرتی رہے۔۔۔ ہائے! کہاں سے ہم ذوالفقار علی بھٹو یا سرظفراللہ خان لائیں جو دنیا کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کریں، اور ہمیں گھر کی صفائی کرنے کے مشورے دینے والی عالمی برادری کو دندان شکن جواب دیں اور بے ضمیروں کی پنچایت میں گھرے زخموں سے چور چور مظلوم پاکستان کو سرخرو کرکے نکالیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.