پاکستان میں خیرات
از، معصوم رضوی
اگرچہ پاکستان کے بارے میں ہمیشہ منفی تاثر دیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود وطن عزیز صدقات اور خیرات معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ تمامتر مسائل اور غربت کے باوجود پاکستان میں بڑھ چڑھ اس فریضے کو بخوبی ادا کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اس عمل کو بغیر سوچے سمجھے ایک مذہبی فریضے کے طور پر انجام دیتے ہیں۔ ایک لمحے کو تصور کریں کہ آپ کی دی ہوئی رقوم کسی انسان کی جان لینے میں استعمال کی گئی ہو، اس رقم سے کہیں دہماکہ کیا گیا ہو تو کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ یہ رقومات بغیر چھان بین اور تسلی کے نہ دی جائیں۔ خیرات و صدقات صرف رقم یا اشیا تک محدود نہیں، کسی ضعیف کا معذور کو سڑک پار کروانا بھی اسی عمل کا حصہ ہے۔ ایک مسکراہٹ، محتاج کی حوصلہ افزائی، مجبور کی حمایت، انسانی فلاح کا عمل کسی طور بھی کیا جائے خداوند تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہے۔ کارخیر کا مقصد بہرحال انسانیت کی فلاح ہے بربادی ہرگز نہیں ہو سکتی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں خیرات کا حجم 240 ارب روپے سالانہ سے زائد ہے، جس میں سے 70 فیصد لوگ عمومی طور پر رشتہ داروں، ضرورتمندوں، محتاج اور بھکاریوں کو انفرادی سطح پر دیتے ہیں۔ اس خیرات میں سے لگ بھگ 30 فیصد اداروں، تنظیموں، مساجد یا مدارس تک پہنچتا ہے، جبکہ زکوہ کا بڑا حصہ مساجد اور مدرسوں کو ملتا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی رپورٹ کے مطابق پنجاب سے 113 ارب روپے، سندھ سے 78، خیبر پختونخوا سے 38 اور بلوچستان سے 10 ارب روپے سالانہ کی خیرات دی جاتی ہے۔ قربانی کی کھالوں کی صورت میں 5 ارب روپے اور مزاروں اور درباروں میں ساڑھے 6 ارب روپے سالانہ کی خیرات و صدقات دیئے جاتے ہیں۔ بینکوں سے سالانہ ڈھائی فیصد زکوہ بھی کٹتی ہے مگر بیشتر افراد اس موقعے پر رقوم بینکوں کے نکلوا لیتے ہیں چونکہ حکومت پر اعتبار نہیں، بہرحال اس کے باوجود رمضان میں حکومت کو اس مد میں تقریبا 4 سے 5 ارب روپے موصول ہوتے ہیں جس کا بیشتر حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں غریبوں کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا گیا تو جو اب بھی جاری ہے اور نادار افراد کا سہارا ہے۔
خیرات، صدقات، زکوہ معاشرے کی اخلاقی اقدار کی ترجمانی ہے مگر یہ بھی دیکھنا از حد ضروری ہے کہ آپ کی دی ہوئی رقم کہیں غلط ہاتھوں میں تو نہیں جا رہی، عمومی طور پر لوگ اس کو اہمیت نہیں دیتے یا خیرات کرتے ہوئے نظر انداز کر جاتےہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کراچی میں نے سیمینار کا اہتمام کیا جس میں صدقات و خیرات کی رقوم کو Individual and Safe Charity کے عنوان سے ایک تنظیم ہاتھوں میں پہچانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ہم صدقات و خیرات کرتے ہوئے اس پہلو پر غور نہیں کرتے کہ اگر یہ رقوم ایسے ہاتھوں میں جا رہی ہے جو معاشرے کی بربادی کا باعث ہے تو ثواب تو دور کی بات شاید ہم عذاب کے حقدار ٹہریں گے اگر ہماری دی ہوئی رقوم دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، دہماکوں میں استعمال ہو رہی ہے تو کچھ نہ کچھ قصور تو ہمارا بھی ہے۔ اگر اس رقم سے نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں تو فصل میں ہمارا بھی تو کچھ حصہ ہے۔ آپ یقین کریں میں نے اس معاملے پر اس سے پہلے زیادہ گہرائی سے نہیں سوچا تھا۔ حسب استطاعت صدقات و خیرات کرتا ہوں مگر زیادہ چھان بین نہیں کرتا، بلکہ یوں کہیں کہ زیادہ سوچتا ہی نہیں بس فریضہ انجام دیتا ہوں۔ سیمینار میں شرکت کے بعد میری آنکھیں کھل گئیں واقعی یہ ہمارا فرض ہے کہ حتیٰ المکان اس بات کا خیال رکھیں کہ صدقات و خیرات یا امدادی رقوم انسانی فلاح پر خرچ ہوں اور یہی دین اسلام کی شرط بھی ہے۔ بہرحال “محفوظ خیرات” کے اس سیمنار نے بھولا ہوا سبق یاد کروا دیا، خواہ آپکا یہ عمل مذھبی بنیادوں پر ہو کا انسانی، خواہش بہرحال مثبت ہوتی ہے مگر ذرا سی بے احتیاطی اس عمل کو منفی بنا سکتی ہے، تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ اپنی رقم کا محفوظ استعمال یقینی بنائیں۔
آپ کو شاید حیرت ہو گی دنیا بھر میں میانمار یعنی برما خیرات کے معاملے میں سر فہرست ہے جہاں 70 فیصد افراد اس کار خیر میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے بعد امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سری لنکا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ پاکستان میں 29 فیصد افراد صدقات و خیرات میں حصہ لیتے ہیں مگر اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے چونکہ بیشتر افراد اس عمل کو خفیہ طور پر ادا کرتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس اپنی دولت کو 95 فیصد خیرات کے لیے وقت کر چکے ہیں اور دنیا بھر سے پولیو کو مٹانے میں کامیاب رہے ہیں بدقسمتی سے اب یہ موذی مرض صرف پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں موجود ہے۔ 2006 میں امیر ترین شخصیت کا اعزاز پانیوالے وارن بفٹ اپنی دولت کا 99 فیصد صدقات و خیرات کے لیے وقت کرتے ہیں، فیس بک کے بانی مارک زکر برگ بھی 2015 میں اپنی دولت کا 99 فیصد حصہ اس کار خیر کے لیے وقف کر چکے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی مخیر افراد کار خیر میں حصہ لیتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہ شرح عالمی مقابلے میں کم ہے مگر یہ کمی عوام پوری کر دیتے ہیں تو فلاحی کاموں میں پورے جذبے سے حصہ لیتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ منافع بخش کاروباری ادارے اس عمل کا حصہ نہیں بنتے اگرچہ کاروباری اداروں کو ریگولیٹ کرنیوالی اتھارٹی ایس ای سی پی کی جانب سے 2 فیصد خیراتی عمل کے لیے وقت کرنے کا قانون موجود ہے مگر اس پر کہیں عملدرامد نظر نہیں آتا۔ بھارت میں بھی اسی طرح کا کارپوریٹ سوشل ریسپونسبلیٹی کا قانون موجود ہے اور تمام رجسٹرڈ ادارے خواہ ملکی ہوں یا بین الاقومی آمدن کا دو فیصد اس مد میں خرچ کرنے کے پابند ہیں۔ پاکستان میں پاکستان اسٹیٹ آئل، فوجی فرٹیلائزر سمیت چند ادارے باقاعدگی سے اس پر عملدرامد کرتے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ایمبولنس سروس، محتاج و معذور افراد کی رہائشگاہیں، سرد خانے اور دیگر خدمات، اسی طرح چھیپا ایمبولنس سروس بھی موجود ہے۔ سیلانی اور عالمگیر بھی صدقات و خیرات کے ضمن میں عرصے سے عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں، جگہ جگہ موجود لنگر خانے، عید اور بقر عید پر امدادی پیکج انسانی خدمات کی عظیم مثال ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور میں داتا صاحب، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی، سیہون میں شہباز قلندر، پنڈی میں بری امام، ملتان میں بہاالدین زکریا، شاہ رکن عالم، قصور میں بابا بلھے شاہ سمیت ملک کے طول و عرض میں تقریبا 8 ہزار لنگر چلتے ہیں، جنکی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔ ایسے صاحب دل بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جو اپنی حیثیت کے مطابق شفا خانے، محتاج گھر، تعلیمی ادارے ذاتی طور پر چلا رہے ہیں، سردی اور گرمی کے موسم میں ضرورت کی اشیا غریبوں کو فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ملک ہے کہ لوگ انفرادی سطح پر صدقات و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
بہرحال عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خیرات و صدقات کا مقصد انسانی فلاح اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے، اگر ہماری دی ہوئی رقوم فلاح کے بجائے تباہی میں استعمال ہو رہی ہوں تو کہیں نہ کہیں ذمہ داری تو ہماری بھی آتی ہے۔ بیشک جہاں جس کو دل چاہے خیرات دیں، صدقات دیں مگر صرف ایک بار تھوڑی دیر سوچ لیں، معلومات کر لیں کہ ہماری دی ہوئی رقم محفوظ ہاتھوں میں پہنچی ہے کہ نہیں؟