پاکستان میں سارندے کا ساز خاموش ہورہا ہے؟
(رفعت اللہ اورکزئی)
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
پاکستان میں جب بھی سارندے کے ساز کا ذکر آتا ہے تو اس کے ساتھ دو نامور سارندہ نوازوں استاد پزیرگل اور استاد منیر سرحدی کے ناموں کو بڑے سنہری الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ان فنکاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس خاندان نے سارندے کے دھنوں کو پاکستان اور پھر دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ تاہم آجکل یہ ذمہ داری اس خاندان کے آخری چشم و چراغ اعجاز سرحدی نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے جو خود بھی سارندہ بجانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ساز وقت کے ساتھ ساتھ خاموش ہوتا جارہا ہے۔
سارندہ دراصل وائلن کی طرح کا ایک آلۂ موسیقی ہے جس کی ابتدا کے بارے میں مصدقہ معلومات دستیاب نہیں۔ تاہم اعجاز سرحدی کا دعوی ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے اس ساز کا آغاز اورکزئی اور خیبر ایجنسی کے علاقے وادی تیراہ سے ہوئی لیکن یہ معلوم نہیں کہ کس دور میں یہ مقبول ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے والد منیر سرحدی اکثر اوقات کہا کرتے تھے کہ سب سے پہلے سارندہ کو وادی تیراہ کے پہاڑوں میں لوگوں نے بجانا شروع کیا اور پھر اس طرح یہ ساز شہریوں کی طرف آیا۔ انہوں نے کہا کہ ان دنوں سارندے کے تار جانوروں کے انتڑیوں سے بنایا جاتا تھا جو رفتہ رفتہ جدید شکل میں تبدیل ہوا۔
اعجاز سرحدی کے مطابق ‘میں نے تیرہ سال کی عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد سارندہ سیکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔’
انھوں نے کہا کہ ابتدا میں انہیں اس ساز میں کوئی زیادہ دلچسپی نظر نہیں آئی لیکن جب ان کے والد استاد منیر سرحدی کا انتقال ہوا اور اس کے بعد دنیا بھر سے بڑے بڑے لوگوں نے ان کی موت پر تعزیتی پیغامات بھیجے جس سے ان میں شوق پیدا ہوا کہ اس ساز کو ختم نہیں ہونا چاہیے اور اس طرح ان کی دلچسپی بڑھنی شروع ہوئی۔
سارندہ عام طورپر ایک مشکل فن سمجھا جاتا ہے ایک عام سارندے میں 23 تاریں ہوتی ہیں۔ یہ وائلن سے مختلف ہے کیونکہ ایک تو اس کی آواز میں فرق پایا جاتا ہے اور دوسرا بجاتے ہوئے اس کا رخ عمودی رکھا جاتا ہے۔ اس ساز کے سیکھنے والوں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔
منیر سرحدی کے مطابق ان کے خاندان میں وہ واحد فرد رہ گئے ہیں جس نے اس فن کو زندہ رکھا ہوا ہے لیکن اب لگتا یہ ہے کہ ان کے مرنے کے بعد یہ ساز بھی خاموش ہوجائے گا۔
منیر سرحدی کے بقول حکومت کی طرف سے ان کی کوئی سرپرستی حاصل نہیں اور نہ دیگر ثقافتی ادارے اس جانب کوئی توجہ دے رہے ہیں جس سے یہ ساز مر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پشتو موسیقی کے دیگر ساز رباب، طبلہ اور ہارمونیم بھی زوال کا شکار ہیں کیونکہ جدید موسیقی کے آلات آنے سے ایک ‘کی بورڈ’ میں اب تمام ساز موجود ہوتے ہیں جسے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ایسی موسیقی کی زندگی زیادہ دیر تک نہیں ہوتی اور ایسے گیت جلدہی اپنی موت اپ مرجاتے ہیں اور جس سے بدقسمتی سے سب سے بڑا نقصان فوک موسیقی کا ہورہا ہے۔
ان کے مطابق سارندہ اور رباب دو ایسے ساز ہیں جو موسیقی میں تڑکے کا کام کرتے ہیں اورجس سے گلوکار کی غلطیاں بھی چھپ جاتی ہیں۔
پشتو کے اولین فلمی گیتوں میں سارندہ باقاعدہ طورپر بجایا جاتا تھا اور بیشتر گانوں میں استاد منیر سرحدی نے یہ کام کیا ہے لیکن آج کل فلمی گانوں کے ساتھ ساتھ فوک گیتوں سے بھی یہ ساز غائب ہوگیا ہے۔ ایک عام سارندے کی قیمت مارکیٹ میں چالیس سے پچاس ہزار روپے تک بتائی جاتی ہے۔