پاکستان میں جدید ریاست کے نظریے کی تدوین کیوں نا ہوسکی؟

ڈاکٹر منظور اعجاز
ڈاکٹر منظور اعجاز

پاکستان میں جدید ریاست کے نظریے کی تدوین کیوں نا ہوسکی؟

از، ڈاکٹر منظور اعجاز

پاکستان میں جدید ریاست کے نظریے کی کبھی بھی قابل قدر تدوین نہ ہو سکی۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو یہ ایک زرعی ملک تھا جس میں عملاً جاگیرداروں اور زمینداروں کی حکومت تھی۔ یہ حکمران طبقات فکری اعتبار سے پس ماندہ تھے اور ان کی دلچسپی اپنی جاگیروں اور مخصوص علاقوں تک محدود تھی۔

جدید ریاست کی بنیاد شہری اشرافیہ ہوتی ہے جو کہ تقسیم سے پہلے ہندوؤں اور دوسرے غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔ اس شہری اشرافیہ کے ہندوستان ہجرت کرنے کے بعد پاکستان میں وہ تعلیم یافتہ اشرافیہ تھی ہی نہیں جو ریاست کے عصری تقاضوں کو پورا کر سکے۔

اس خلا کو فوج اور پولیس نے پر کیا لیکن ان عسکری حکمرانوں کے پاس بھی جدید ریاست کا کوئی نظریہ نہیں تھا۔ چنانچہ مذہب کو ہی ریاستی نظریے کے طور پر اپنایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مختصر مدت کے لیے ایک نئے نظریے کے تحت نئی ریاست کی بنیاد رکھنا چاہی لیکن وہ اس میں ناکام ہو گئے اور آخر کار مذہب کے بنیاد پرست نظریے کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد ضیاالحق کی اسلامائزیشن کی اپنی داستان ہے جس کے بارے سبھی جانتے ہیں۔

لیکن ستر کی دھائی تک عوامی سطح پر ایک مخصوص طرز کا توازن قائم تھا جس میں پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں کا دبدبہ موجود تھا۔ اسی کی دھائی میں اور اس کے بعد طوفانی قسم کی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے پرانا توازن ختم ہو گیا: زرعی نظام پیداوار کی جگہ تجارتی اور صنعتی معاشرے نے لے لی جس سے ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی جس میں ایک نئی طرز کی جدید ریاست کی ضرورت تھی جس کی تعمیر ممکن نہ ہو سکی اور ریاست کا وجود برائے نام رہ گیا۔

اسی کی دھائی کے بعد صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی ریاستی اداروں کا زوال شروع ہو گیا۔ نئے تجارتی اور صنعتی انقلاب نے قدیم معاشرے کو اس طرح سے مسمار کیا کہ پورے برصغیر میں فرد اور معاشرے کی پرانی شناخت گم ہو گئی اور ایک نئی طرح کی مذہبی قومیت کا تصور سامنے آگیا۔ پاکستان میں مسلکی تفرقات کی بنیاد پر فرد کی شناخت محدود تر ہوتی گئی اور ہندوستان میں ہندتوا کے فلسفے کے تحت تنگ نظر ہندوازم نے ریاست کو اپنے قبضے میں کر لیا۔

ہندوستان میں کانگریس پارٹی اور جواہر لال نہرو کی قیادت میں ریاست کے مختلف ادارے کافی مضبوط تھے لیکن وہ بھی اسی کی دھائی کے بعد آنے والی طوفانی تبدیلیوں کے سامنے اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکے۔ آج کے ہندوستان میں ریاست مخصوص مذہبی نظریے کا شکار ہو چکی ہے اور اس کا مستقبل بھی مشکوک ہے۔

پاکستان کی ریاست میں ادارے پہلے ہی بہت کمزور تھے لیکن اسی کی دھائی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں تو وہ اور بھی ناتواں نظر آتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) تو شروع سے ہی مذہبی نظریے کو اولیت دیتی تھی لیکن پیپلز پارٹی بھی اپنے ابتدائی دور کے فلسفے سے منحرف ہو کر دوسرے مشاغل میں مصروف ہو گئی۔ اگرچہ میاں نواز شریف نے ایک موقع پر خلیفتہ المسلمین بننے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھا اور ریاست کے نئے نظریے کو جذب کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس کے باوجود ان کی سیاسی موقع پرستی غالب آتی رہی اور وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا حصہ بنتے رہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ اور دوسری جمہوری روایات کو نظر انداز کرکے سیاسی ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وہ جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی بجائے شخصی حکومت کے نظریے پر عمل پیرا رہے ہیں۔

ریاست کے اداروں کی تنزلی کی ذمہ داری ساری سیاسی پارٹیوں کے علاوہ مقتدر اداروں پر بھی ہے۔ پاکستان میں دھرنوں کی سیاست ریاست کے معدوم ہونے کی علامت ہے۔ علامہ طاہر القادری کے پہلے دھرنے سے لے کر فیض آباد تک ریاست نے کہیں اپنی رٹ نہیں دکھائی اور اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی چند ہزار لوگوں کا گروہ ریاست کو بلیک میل کر سکتا ہے۔

جس طرح سے سیاسی پارٹیاں مذہبی اور مسلکی رہنماؤں کی حمایت کر رہی ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری سیاسی اشرافیہ ریاست کے طویل المیعاد مفاد کے بارے میں بے بہرہ ہے۔ اگرچہ عدلیہ (اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ) نے ریاستی مفادات کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی لیکن اس کے احکامات پر عمل نہ ہونا بھی ریاست کے زوال کی بڑی علامت بن گیا ہے۔ ریاست کے ستون گِر نہیں گئے تو لرزاں ضرور ہیں اور ان حالات میں بہتری لانے والا کوئی نظر بھی نہیں آرہا۔

……………………..

یہ مضمون 12 دسمبر 2017 کو روزنامہ جنگ (پاکستان) میں شائع ہونے والے مضمون کی  تدوین شدہ صورت ہے۔