لفظ پاکستان کا خالق کون ؟
(طلحہ شفیق)
جب بھی لفظ پاکستان کی تخلیق کا ذکر چھڑتا ہے، تو یہی کہا جاتا ہے کہ اس مملکت کا یہ نام چوہدری رحمت علی صاحب نے وضع کیا تھا۔ اور یہ کہ یہ نام پنجاب کا پ، شمالی مغربی سرحدی (کا الف، کشمیر کا ک، سندھ کا س اور بلوچستان کے تان کا مرکب ہے۔ چوہدری رحمت علی نے یہ نام اپنے مشہور کتابچے نو آر نیور (اب یا کبھی نہیں) میں تجویز کیا تھا جو 28جنوری 1933ء کو3 ہمبر اسٹون روڈ، کیمبرج سے شائع ہوا تھا۔ اس کتابچے پر چوہدری رحمت علی کے علاوہ محمد اسلم خان خٹک (صدر، خیبر یونین)، شیخ محمد صادق (صاحبزادہ) اور عنایت علی خان (آف چار سدہ) (سیکرٹری، خیبر یونین) نے دستخط کیے تھے۔
درسی کتب میں یہی پڑھتے آئے پر اب یہ کہانی کچھ الجھ سی گی ہے۔ ابھی کچھ روز قبل جناب عقیل عباس جعفری صاحب کا مضمون لفظ پاکستان کا خالق کون؟ چوہدری رحمت علی، خواجہ عبدالرحیم یا علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی پڑھا۔ مضمون تو پرانا ہے پر بات کچھ نئی ہے بلکہ چونکا دینے والی ہے۔
عقیل عباس جعفری صاحب کے مطابق یہ لفظ سب سے پہلے علامہ مولانا سید غلام حسن شاہ کاظمی نے استعمال کیا۔ علامہ سید علامہ غلام حسن شاہ کاظمی کا تعلق کشمیر سے تھا۔ علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی 1904 میں طوری ضلع ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کی۔
علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار سے وابستہ ہوگئے۔ 1935ء میں علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی ہفت روزہ پاکستان کے اجراء کی درخواست داخل کی۔ درخواست منظور ہوئی اور یکم مئی 1936ء کو انہوں نے ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پاکستان کی اشاعت کا آغاز کیا۔
یہ اخبار 1938ء تک جاری رہا۔ علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی نے مختلف موضوعات پر کتابیں تحریر کی تھیں (تقریبا 100 سے ذیادہ)۔ ان کا انتقال 14 ستمبر1984ء کو ہوا۔ وہ مظفر آباد کے مضافاتی گاﺅں ٹھنگر میں آسودہ خاک ہیں۔
عقیل عباس جعفری صاحب کے مطابق علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی نے یکم جولائی 1928ء کو ایبٹ آباد سے ایک ہفت روزہ اخبار ”پاکستان“ کے اجراء کے لیے ڈیکلریشن کی درخواست دی۔ ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی۔ مولانا غلام حسن شاہ کاظمی صاحب نے یہ درخواست ایس اے عزیز چشتی کے توسط سے ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کی خدمت میں روانہ کی تھی۔
ایس اے عزیز چشتی ضلعی مجلس اتحاد ملت ایبٹ آباد کے صدر، سٹی مسلم لیگ ایبٹ آباد کے سیکریڑی تھے۔ عقیل صاحب کا کہنا ہے کہ سید غلام حسن شاہ کاظمی نے جب ہفت روزہ پاکستان کے اجراء کی درخواست روانہ کی تو اس زمانے میں چوہدری رحمت علی، ہندوستان ہی میں مقیم تھے۔
قیاس کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کسی خبر یا کسی اور ذریعہ سے غلام حسن شاہ کاظمی کی اس درخواست یا لفظ پاکستان کے حوالے سے کچھ سنا ہو اور یہ لفظ ان کے حافظے کا حصہ بن گیا ہو۔ (ممکن ہے ان حضرات نے مولانا غلام ربانی لودھی کے اخبار ’’خیبر” راولپنڈی 1928 کے دورانیہ میں ’’پاکستان‘‘ اخبار کی نسبت ڈیکلریشن کے استرداد کی خبر پڑھی ہو گی جو ان کے حافظہ میں موجود رہی ہوگی۔)
جنوری 1933ء میں چوہدری رحمت علی نے اپنے مشہور کتابچے ناؤ اور نیور میں یہ لفظ پہلی بار استعمال کیا اور یوں دنیا انہی کو اس لفظ کا خالق سمجھ بیٹھی۔
تو یوں عقیل صاحب نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لفظ پاکستان کے خالق علامہ سید غلام حسن شاہ کاظمی صاحب ہیں۔ لیکن یہ بات یکسر فراموش نہیں کی جاسکتی کہ چودھری رحمت علی نے بھی 1936ء میں انگلستان سے ہفت روزہ پاکستان جاری کیا تھا۔
عقیل عباس جعفری صاحب نے اپنے مضمون میں خواجہ عبدالرحیم صاحب کہ لفظ پاکستان کہ خالق ہونے کا رد بھی کیا ہے۔ خواجہ عبدالرحیم صاحب سابق گورنر پنجاب، خواجہ طارق رحیم کے والد تھے۔
معروف صحافی اور ماہر لسانیات خالد احمد صاحب نے اپنی کتاب ”دی برج آف ورڈز”میں بھی لفظ پاکستان کی شروعات کے حوالے سے دو ابواب تحریر کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا لفظ سب سے پہلے خواجہ عبدالرحیم نے استعمال کیا تھا۔ خالد احمد کا کہنا ہے انہیں یہ بات سید افضل حسین کے صاحبزادے عظیم حسین نے بتائی تھی۔
خالد احمد کے مطابق عظیم حسین کا کہنا تھا جب خواجہ عبدالرحیم لندن میں مقیم تھے تو ایک دن سر اولف کیرو کی کتاب”سوویت سلطنت” کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی نظریں ایک نقشہ پر ٹک گئیں جس میں وسطی ایشیا کی ایک ریاست کا نام قراقل پاک ستان تحریر تھا۔ یہیں سے انہوں نے لفظ پاکستان اخذ کیا۔
عقیل عباس جعفری صاحب کا کہنا ہے کہ “قراقل پاک ستان ” نامی خطہ آج بھی موجود ہے اور ازبکستان کا حصہ ہے۔ اس کا رقبہ 160000 مربع کلو میٹر (61776 مربع میل) اور آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔
یہاں جو زبان بولی جاتی ہے اس کا نام بھی قراقل پاک ہے اور یہ زبان قازق اور ازبک زبانوں سے بھی ملتی جلتی ہے۔ یہ خطہ بحر ارل کے کنارے واقع ہے۔ لیکن اس مملکت کا نام اردو زبان میں کچھ یوں لکھا جاتا ہے” قراقل پاقستان” نہ کہ اسطرح “قراقل پاک ستان ” عقیل صاحب کی اس غلطی پر جناب سہیل احمد صدیقی صاحب نے بھی تنقید کی ہے۔ لیکن اس مملکت کے نام کو اگر پنجابی میں لکھا جائے تو یہ “قراقل پاکستان” ہی بنتا ہے۔
عقیل عباس جعفری صاحب کو اس آرٹیکل پر آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) نے 16 اپریل 2012 کو ایوارڈ کا حقدار بھی قراردیا۔ عقیل عباس جعفری صاحب کے علاوہ جنہوں نے علامہ کاظمی مرحوم کے لفظ پاکستان کے خالق ہونے کا ذکر کیا ہے ان میں، جناب سبط حسن ضغیم (’’لفظ پاکستان کا خالق کون؟‘‘ کے عنوان سے مورخہ 26 مارچ 2006 میں ایک رپورٹ شائع کی) اور جناب پروفیسر عبدالحمید کریمی صاحب (یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر کے شعبہ انسٹیٹیوٹ آف کشمیر سٹڈیزکے سہ ماہی مجلے ’’شاردہ‘‘ اشاعت جولائی / ستمبر 2010 میں انگریزی زبان میں تحقیقی مقالہ بہ عنوان The Primordial User of Word Pakistan لکھا) اور آزاد کشمیر کے سابق ایڈووکیٹ جنرل جناب راجہ گل مجید صاحب شامل ہیں۔ راجہ گل مجید صاحب روزنامہ ’’ جنگ‘‘ میں ایک کالم میں علامہ کہ بارے یوں رقم طراز ہیں۔
’’مرحوم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی بار لفظ ’’پاکستان‘‘ استعمال کرتے ہوئے، ایک اخبار نکالا۔ لیکن مرحوم نے کبھی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کی۔ بلکہ گمنامی کی زندگی کو ترجیح دی….
کشمیریوں کا مختلف حوالوں اور ادوار میں استحصال کیا جاتا رہاہے۔ اس تاریخی حقیقت کو چھپا کر کشمیریوں کے ساتھ ایک اور ستم کیا گیا لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق بھی کشمیری ہی ہیں…۔‘‘
چوہدری رحمت علی مرحوم کی خدمات کا اعتراف اپنی جگہ، لیکن ان تاریخی حقائق میں یہی بات نظر آتی ہے کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کی موجودہ املاء کے اولین مجوز اور شارح علامہ کاظمی ہیں۔ حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کی نسبت ریکارڈ کو درست کریں۔ ’’پاکستان‘‘ اخبار کی فائل کو علامہ کاظمی کے فرزند جناب امام کاظمی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے کئی سالوں کی محنت کے بعد تقریباً مکمل کیا ہوا ہے۔ حکومت کو چاہیے کے علامہ کاظمی مرحوم کی لائبریری میں موجود ’’پاکستان‘‘ اخبار کی فائل کو محفوظ کروائے۔