کرونا کو تقریریں سنانی ہیں اور تقدیر و تدبیر کے ڈھکوسلے
از، یاسر چٹھہ
مجھے تو یہ کبھی بھی شک نہیں رہا کہ پاکستان میں چند روزہ لاک ڈاؤن نام کا جو کچھ ہوتا رہا، اس کے پیچھے سوائے عالَمی دباؤ کی فضا اور کچھ نہیں تھا۔
اس ناٹکیانہ لاک ڈاؤن سے:
سکول بند ہوئے، گروسری سٹورز کے باہر ہاتھوں پر نام نہادی سپرے کرنے کے طربیے کھیلے گئے … چندے مانگے گئے (اس پر زیرو ٹالرینس ہی رہا )، آتے ڈالروں پر شفاف اداروں کا ہی ہاتھ رہا، اور کرونا سے ڈرنا، مرنا کیا گیا۔
ملک ریاض طرح کے جادوگروں نے فرشتوں کے رجسٹروں کو ٹی وی کیمروں آنکھ کے عین سامنے رکھ کر اپنے اعمالِ حَسنہ کے ریکارڈ تیار کروائے تا کہ سپریم کورٹ سے ملیر وغیرہ والے معاملات پر نمائشی جرمانے لکھی سلیٹوں پر تھوک لگا کر ان کی صفائی کر لی جائے… وغیرہ، وغیرہ۔
ہم جیسے ملکوں میں عوام کی صحت اور زندگی-موت کوئی خاص سنجیدہ سر درد نہیں ہوتا؛ ورنہ صاف پانی سب سے بنیادی چیز ہوتی ہے، وہ ہمیں کس قدر دست یاب ہے، سب کو معلوم ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے یہاں سال میں پچھلے کچھ برسوں سے ڈینگی کی وبا آتی ہے، اس پر حکومتی اداروں کا کردار اور ردِ عمل کیسا ہوتا ہے؟ سب کے سامنے ہے۔
تو یہ لاک ڈاؤن بھی اسے سلسلے کے ڈرامے کی ایک اور قسط تھا:
جیسے صاف پانی کی دست یابی ہوتی ہے، جیسے ڈینگی سے بچانے کا انتظام ہوتا ہے، کافی حد تک تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ وبا چائنہ سے نا نکلتی، اور امریکہ اس کی اوّل اوّل پراپیگنڈا آلے کے طور پر قوالی نا کرتا، پاکستان میں جتنے مرتے جیتے، یہاں کسی کے کانوں پر جُون اتنی ہی رینگنی تھی، جتنی ڈینگی وغیرہ کے وقت رینگتی ہے۔ (اور ہاں میری اس تحریر کو پڑھنے والے جو کہ غالب امکان میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے افراد ہی ہوں گے، کیوں کہ انٹرنیٹ کی سہولت انھی کے پاس ہے، وہ کبھی کسی غریب ترین فرد کی آخری عمر کو follow کیجیے گا، وہ کیسے مرتے ہیں، یا ان کے بچے کیسے پَل رہے ہیں، اس کو بھی دیکھیے گا، کچھ نئے تناظر واضح ہوں گے۔ میں انھیں دیکھتا ہوں، ان کے متعلق پوچھتا رہتا ہوں، حالاں کہ بَہ ظاہر میری زندگی بڑی cocoonish سی ہے۔ آپ اپنا تجربہ کیجیے۔)
پولیو پر بھی عالمی دباؤ ہی ہے، ساتھ امدادی ڈالر بھی ہیں، اور سفری پابندیاں بھی ہیں تو میلا ٹھیلا لگا رہتا ہے۔ ورنہ
… these filthy damned ignorant lot… They’re damned by God, they’re damned by the godly, and God’s shadows upon this earth.
صحتِ عامہ کے یہی دگر گوں کہ ایسے حالات ہیں کہ لوگ تقدیر پرست ہیں، زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں کہ انسانی جان کے بچے رہنے اور تسلسل کے امکانات انتہائی chance کے نشانے پر ہوتے ہیں؛ جیسے ہماری کرکٹ ٹیم کے جیتنے اور ہارنے کے امکانات… اسی طرح مذہب، پیری مریدی، spiritual healing کے دھندے عروج پر رہتے ہیں۔
مزید ملاحظہ کیجیے:
سائنسی سماج و سائنس دان، سازش کے نظریے اور دنیا جہاں کے لاڈلے از، نصیر احمد
تجزیہ، سازشی تھیوری، ذہنوں کا خطی (linear) اندازِ فکر از، یاسر چٹھہ
اس low quality human resource لیکن تعداد میں کُربل کُربل انسانی تعداد کے بھوک، غربت، اور انسانیت کی زبُوں حالی کے نمونے جا بَہ جا نظر آتے ہیں؛ وہ خاک میں لتھڑے ہوئے، وہ ذلیل و خوار، وہ ٹکڑے ٹکڑے کے لیے خوار ہوتے، جنھیں روزگار کے با عزت مواقع نہیں ملتے، جنھیں اپنے مزدوری کے حقوق کے حاصل حصول کا کوئی یارا نہیں، جنھیں شہر کے پڑھے لکھے دانش ور بھی تقدیر پرست بناتے ہیں:
“سِر سُٹھ کے کَم لَگّا رہو،” اپنے لیے بڑے خواب نا دیکھ …
انسان کی سب سے بڑی ذلت اسے تقدیر پرستی کا سبق دینا ہے، اور اسے غیر محفوظ ہونے سے عارضی بنیادوں کا خوف زدہ رکھنا ہے۔ اسے صبح سے شام تک رکھنا ہے۔
اسی نفیساتی وبا کی ترویج سے آبادی تو بڑھتی ہے، مگر صرف conveyer belt پر چلتے ہوئے کھلونوں کی آبادی… اور جن کے ہاتھوں کی وسائل کے ذرائع تک پہنچ ہوتی ہے ان کے ہاتھوں کرپشن بڑھتی ہے، اور عروج پاتی ہے کہ کل کا کیا پتا ہے کیا ہو، بچوں کے لیے کچھ کر جاؤں…۔