آج پیپلز پارٹی کی 52 ویں سال گرہ ہے

پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء بَہ وساطت ٖفیس بک

آج پیپلز پارٹی کی 52 ویں سال گرہ ہے

از، اسلم ملک

1966ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو سیاسی اختلافات کی بنا پر صدر ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہوئے تبھی سے وہ ایک سیاسی جماعت کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔

اسی زمانے میں لاہور میں کچھ دانش ور، جن میں اخبار نویس، اساتذہ وکلاء، ادیب اور سرکاری ملازم شامل تھے، ایک ہفتہ وار ادبی اجلاس میں ملک کے مسائل پر بحث کر کے ان مسائل کے ممکنہ حل کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے۔

یہ اجلاس ڈاکٹر مبشر حسن کی اقامت گاہ 4-کے گلبرگ میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ ان افراد نے مسٹر بھٹو سے رابطہ قائم کیا اور مسٹر بھٹو اور جے اے رحیم کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

تیس نومبر اور یکم دسمبر 1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی اقامت گاہ پر اس نئی پارٹی کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا جس میں پارٹی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی تجویز کیا گیا اور پارٹی کے چار رہنماء اصول منظور کیے گئے:

(ا) اسلام ہمارا دین ہے

(ب)  جمہوریت ہماری سیاست ہے

(ج) سوشلزم ہماری معیشت ہے

(د) طاقت کا سَر چشمہ عوام ہیں

پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں جو افراد شریک ہوئے، ان میں رسول بخش تالپور، حنیف رامے، شیخ محمد رشید، حیات محمد خان شیرپاﺅ، عبدالوحید کٹپر، معراج محمد خان، حق نواز گنڈا پور، ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، بیگم شاہین رامے، ملک حامد سرفراز، اسلم گورداسپوری، رفیق احمد باجوہ اور امان اللہ خان وغیرہ شامل تھے۔

اس اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین اور جے اے رحیم کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔


دیگر متعلقہ تحاریر:

پاکستان پیپلزپارٹی کی نظریاتی سیاست سے کارپوریٹ سیاست تک از، افتخار بھٹہ

پیپلز پارٹی کے ناراض جیالوں کی پارٹی میں آنے جانے کی ایک تاریخ از، انور عباس انور

پنجاب میں پیپلز پارٹی کو کیا ہوا؟ اسے کیا کرنا ہو گا از، منو بھائی

فرحت اللہ بابر کو اب  پیپلز پارٹی کی ترجمانی کب ملے گی؟ از، عرفانہ یاسر

پیپلز پارٹی کا عام آدمی سے کٹتے چلے جانا قومی المیہ ہے از، یاسر چٹھہ

چکی والا پیپلز پارٹی کا کارکن تھا  از، مبشرعلی زیدی


پاکستان پیپلز پارٹی کو بہت جلد ملک کے غریب طبقے کی حمایت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ پارٹی کی اصل قوت مغربی پاکستان کا نو جوان طبقہ تھا جو ملک میں سوشلزم اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کا خواہش مند تھا۔ یوں یہ پارٹی مغربی پاکستان کی مقبول ترین پارٹی بن گئی اور 1970ء کے انتخابات میں اس نے اپنی یہ مقبولیت ثابت بھی کر دی۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے 1977 کے عام انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی، لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے انتخابی نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور پہلے ایک تحریک اور پھر مارشل لاء کے ذریعے اس پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے شدید مشکلات کا سامنا کیا، لیکن 1988ء کے عام انتخابات میں یہ پارٹی پھر بَر سرِ اقتدار آ گئی۔

اس کے بعد یہ پارٹی 1993ء اور 2008ء میں بھی بَر سرِ اقتدار آنے میں کام یاب ہوئی۔

اس وقت اس پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے فرزند بلاول بھٹو زرداری ہیں۔

پاکستان کرونیکل

یہ  تصویر پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس  کے موقع کی ہے۔