پاکستان میں سیاست کا احساسِ گُناہ: ایک روزن اداریہ
پاکستان میں بیانیہ جات پر بھی چند طاقت ور اداروں کا ہی کنٹرول ہے۔ جن کے ذمے، در اصل، اس جیسے کام ہیں، وہ پیشیاں بھگتنے اور guillotine ہونے میں سرگرداں، اور باقی فُلانے ملک کے صدر سے ملاقات، باہمی دل چسپی پر بات کرتے مسکراتے چہروں کی تصویریں ٹویٹ کرتے پھر رہے ہیں؛ اور کچھ چھٹی والے دن بھی اپنے ذمے کاموں کو ایک طرف کر کے ہم جنس باہم پرواز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کمال سخاوت اور فیاضی ہے کہ ایسے میں تضحیک، شکست، نا کامی اور نا مرادی کا آسان ہدف طبقۂِ سیاست ہے۔
سیاست اور اہلِ سیاست کا کس مقام و محل پر گَلا نہیں گُھونٹا گیا؟ کئی مثالیں ہیں، ایک دیکھیے: کچھ مہینے سال پہلے سندھ میں ایک درسی کتاب میں نمائندہ حکومت اور جابر و غیر قانونی حکومت، جسے نظریۂِ ضرورت کی خلعتِ مروجہ پہن کر جب من بھائے اقتدار کا نیا نکاح نامہ ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے، تقابلی جائزے میں زیادہ نکات کے ساتھ معتبر قرار پائی۔
سوال یہ بنتا ہے کہ ملک کے مالک کون ہیں؟ کیا ہمارے وفاقی بندھن کی بنیاد یعنی دستورِ پاکستان کے مطابق عوام کے منتجب نمائندے، یا غیر منتخب رنگ بَہ رنگے مسیحا؟ کیا وفاقِ پاکستان کی حبل و رسی کا وہ دروازہ جسے ایک مسیحا نے اپنے عود آنے کے تاوان کے طور پر اس کا جُزوِ لاینفک قرار دلوا دیا؛ اور جس دیباچے کے گرد سیاسی و مذہبی بیانیے کی لفظی آتشیں دیوار کھڑی کر دی گئی ہے؛ جسے اس قدر مقدس بنا دیا گیا ہے کہ اس کے رُو بَہ رُو، نعوذ باللہ، مقدس متون بھی اپنے تقدس کا شریک جاننے پر مجبور ہوتے جاتے ہیں۔ جی قراردادِ مقاصد کی بات کر رہے ہیں۔ اسی قاعدے پر آئین کی 62 اور 63 کی شقیں ہیں۔
یاد رکھنا ہو گا کہ جمہوریت وقتِ موجود میں بھلے آپ کے نا پسندیدہ افراد اور گروہوں کے ہاتھ میں ہو، مگر اس کا کم از کم یہ تو فائدہ ہے کہ آپ کو ان کی حرکات پر نظر رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ان پر اپنی زبان و آتشِ دل کو ٹھنڈا کرنے کا موقع تو ملتا ہے، اس دوران کسی مقدس کی توہین اور مورال کی شکستگی نہیں ہوتی۔ اگر تو یہ تقدس و حُب الوطنی اور شیشے کے گھر والوں کے پاس مستقلاً چلی گئی تو پھر تو سانس اور آنکھ کے زاویے بھی کفر و اہانت قرار پائیں گے۔
کچھ حالیہ کیسز میں ایک وفاقی وزیر کی بابت لاہور سرکٹ میں اعلیٰ ترین عدالت کے اعلیٰ ترین ذمے دار کی جانب سے ایک وفاقی وزیر کے حوالے سے ایسا کہا بھی گیا کہ ہم آپ کے ڈیڑھ سال پہلے کے بیان کو بھی یاد رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی ان حالات کا نفسیاتی تجزیہ کرے گا تو جسٹس منیر بھی جنرل ضیاء کی طرح کثرتِ اولاد کے حامل نظر آئیں گے۔
جمہوریت معاشروں کو خود اپنے ہونے کا شعور سکھاتی ہے۔ پہلے ہمیں جمہوریت کو اور نمائندگی کے اصول کو مضبوط کرنا ہے۔ یہی ہمارے معاشرے کو کھولنے اور تعفن سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔
وہ ملک جو ہمارے سامنے پُر کشش حالتوں میں نظر آتے ہیں، کہیں بھی سیاست و تنظیم سازی کو گناہ کے ہم آواز و ہم پلہ نہیں جانا جاتا۔ ہمیں ایسی ثقافت کو جنم دینے اور اس کی افزائش کرنے کی کوشش کرنا ہو گی جو ہماری تنقید سے اپنے اندر تبدیلی لائے؛ وہ ہماری تنقید سے عدم تحفظ کا شکار نہ ہو۔
پہلے پہلے سے اقدام کے طور پر ہر برس دو برس کے وقفے کے بعد ہمیں اس وقت کا فکر و تجزیہ کرنا ہو گا کہ ہم کسی تاریخی ارتقاء کی دو پہر میں ہیں، شام میں، یا پھر یہ جاڑے کی ایسی رات ہے جب چاند بھی مایوس ہو کر سستانے چلا جاتا ہے۔
جواب جو بھی ہو، پھر بھی ہمیں خوب صورت خوابوں کو دیکھنا بند نہیں کرنا ہے۔ یہی زندگی کی جانب مَثبت رویے کا کم از کم ایک ضمنی حوالہ ہے؛ اور ساتھ ہی ہمیں اپنے خوابوں سے ایک عوامی تصوریت کی تشکیلِ نو اور رفو کاری کا عمل جاری رکھنا ہے۔
ہمیں کسی لمحے کے جبر سے حوصلہ ہار کر اپنی مثالیت پسندی سے منھ موڑ کر ادنیٰ، سستی اور خود پرستانہ عملیت پسندی کے آگے اپنا آپ نہیں گرانا؛ آج کی مثالیت پسندی ایک خوب صورت کَل کی بنیاد ہوتی ہے، اور یہی مثالیت پسندی اور اس پر جمے رہنے سے وہی اقوام کے کل میں ایک معمول کے طور پر نکھر کر صورت پذیر ہوتی ہے۔
اگر یہ ایسے ہی صورت پذیر ہوتی رہی ہے تو کیا آئندہ تاریخ اپنے چلن کی ضوابط و عادات بھول جائے گی؟ نہیں، نہیں، تاریخ دن کے وقت کچی کہانیاں نہیں پڑھتی کہ جو رستہ بھول جائے۔ تو خواب و مثالیت پسندی زندہ باد، وطن و عوامُ النّاس کا اچھا مستقبل پائندہ باد۔
ہمیں سیاست کو اور معاشرے میں چھوٹی سے چھوٹی سطح پر انجمنوں، حقوق، اور شعور کی تنظیموں کو قانونی اور انسانی تکریمی نظروں سے دیکھنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔