پاکستان کو درپیش دو اہم مسائل اور ان کا حل
از، سمیہ خان
پاکستان مسلمانوں کے لئے اللہ کی جانب سے بہت بڑا احسان ہے۔ خلافت کے بعد دنیا کے نقشے پر آنے والی پہلی نظریاتی ریاست پاکستان تھی۔جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان با آسانی اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو سکیں۔ اس ملک کی بنیاد ڈالنے کے لئے محمد علی جناح، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور دیگر رہنما نے انتھک محنت اور جد و جہد کی اور بالآخر ان اکابرین کی محنت رنگ لے آئی اورپاکستان وجود میں آ گیا۔ یہ ملک بے تحاشہ قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ اس ملک کی تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان یہاں پر با آسانی رہ سکیں۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک ہمارے ملک پاکستان کو بےتحاشہ مسائل سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے جس کے باعث پاکستان کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں پاکستان کو پیش آنے والے اہم مسائل اور انکے حل مندرجہ ذیل ہیں۔
پاکستان میں افزائش آبادی کے مسائل اور ان کا حل
آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے ۲۰۱۷ کی سینسس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی ۲۰ کروڑ ۷۴ لاکھ ۳۷ ہزار ہےاس مردم شماری کا آغاز ۱۵مارچ ۲۰۱۷ سے ۲۷ مئی ۲۰۱۷ تک ہوا ان میں ۱۰ کروڑ ۶۰ لاکھ چ۴۰ ہزار مرد جب کہ ۱۰کروڑ ۱۳ لاکھ ۱۴ ہزار عورتیں شامل ہیں اس مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سرا کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کی تعداد ۱۰ ہزار ۴۱۸ بتائی گئی ہے۔
افزائش آبادی کے مطابق سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جس کی آبادی ۱۱ کروڑ ۱۲ ہزار ۴۴۲ افراد پر مشتمل ہے پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے باعث ملک میں دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں یہ آبادی دیہات کے علاقوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے دیہات کے علاقوں میں فی خاندان میں آٹھ بچوں کی پیدائش ایک عام سی بات ہے لیکن غربت اور وسائل نہ ہونے کے باعث ان بچوں کو نہ ہی تعلیم دی جاتی ہے اور نہ ہی صاف کھانا مہیا ہوتا ہے اور نہ ہی پانی۔
پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کو اختیار کرنے اور آبادی کو کم کرنے کے لئے کوئی بھی اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں جس کے باعث آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس کے ساتھ ہی آبادی کے بڑھنے کی ایک اہم وجہ لڑکیوں کا پیدا ہونا بھی ہے کیونکہ دیہات کے علاقوں میں اب تک لڑکے لڑکیوں میں تفریق کی جاتی ہے جس کے باعث اگر لڑکی پیدا ہوتی ہے تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسری بار بیٹا پیدا ہو اور اسی طرح سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے آخرکار ۸، ۹ لڑکیاں جنم لے لیتی ہیں۔
دوسرے ممالک نے اپنی آبادی پر بہت حد تک قابو پا لیا ہے جس کے باعث تیسری دنیا کے ممالک بڑی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جب کہ پاکستان میں افزائش آبادی ہونے کے باعث حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے کمپین چلائی جائے جس میں مردوں اور عورتوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں آگاہی دی جائے دیہات میں لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ افزائش آبادی کے باعث مسائل پر قابو پانا مشکل ہوتا جا رہا ہے ان بچوں کو صحیح تعلیم دینا اپنا مستقبل سنوارنا ہے بجائے اس کے کہ آٹھ نو لڑکیوں کے بعد لڑکا پیدا ہو جائے اور سب کے سب صحت،تعلیم سے محروم زندگی گزاریں۔
آلودگی کی وجوہات اور ان کا حل
جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی ہے ویسے ویسے معاشرے میں جدت پیدا ہوئی ہے دنیا کے ۱۹۵ ممالک اس بات پر متفق رائے رکھتے ہیں کہ صنعتوں سے خارج ہونے والا کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسز زمین میں حرارت بڑھنے کی وجہ بن رہی ہے جس کے باعث گلوبل وارمنگ میں تبدیلی آ رہی ہے اور درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے باعث پاکستان میں قدرتی آفات میں بھی اضافہ دیکھنے کو آ رہا ہے رپورٹ کے مطابق سال ۲۰۱۵ کے دوران پاکستان میں قدرتی آفات سے ۲ ہزار ہلاکتیں،اربوں روپے مالیت کی سرکاری و نجی املاک، پاور ہاؤسز، فصلیں، سڑکیں اور پل تباہ ہوئے ہیں سب سے زیادہ خیبرپختونخواہ،گلگت بلدستان اور کراچی شہر متاثر ہوئے ہیں۔
پختونخواہ میں طوفان سے ۴۹، سیلاب سے ۲۵۰ جب کہ کراچی میں ہیٹ اسٹروک کے باعث ۱۳۰۰ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں نہیں ہوتا جہاں موسمی تبدیلیاں ہوں لیکن پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مبتلا ہوتا ہے رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث ملک کا ۲۲ فیصد اراضی جب کہ ۵۰ فیصد آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔ ان مسائل پر اسی وقت تک قابو پایا جا سکتا ہے جب کوئی منصوبہ بندی بنائی جائے۔
صنعتوں سے خارج ہونے والے دھواں کی روک تھام کے لیے بھی کوئی قانون لاگو کیا جائےساتھ ہی ماحولیاتی آلودگی پر بھی نظر ثانی کی جائے کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث افراد مختلف اور جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ بچے بھی اس کے زیر اثر آرہے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے کمپین چلائی جانی چاہیے۔ عوام کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے جس میں آلودگی سے بچنے کے طریقے بتائے جائیں۔ مثلا; پلاسٹک بیگ کی جگہ کاغذ کے تھیلے استعمال کریں۔ کیونکہ پلاسٹک۔ بیگ سڑ جاتے ہیں۔مگر ختم نہیں ہوتے ہیں ۔ جو کہ ماحول میں جانلیوا بیماریاں پیدا کرتی ہے۔
حکومت کی جانب سے آلودگی کی روک تھام اور موسمی تبدیلی کے لیے شجر کاری مہم کا آغاز کیا گیا جس میں ہم عوام کو بھی چاہیے کہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔