(ملک محمد بلال)
میں اور علی اس وقت علاقے کی مشہور سوپ شاپ پر بیٹھے سوپ سُڑک رہے تھے، علی ہمارے محلے کا سب سے کم گو لڑکا ہے جس کی اگر کسی سے بنتی ہے تو وہ صرف میں ہوں۔ جب کبھی بھی اسے دل کا غبار نکالنا ہوتا ہے وہ اسی طرح مجھے کسی کافی شاپ، سوپ شاپ پر لے جاتا ہے اور مجھے دو گھنٹے اس کی باتیں سننے کے بدلے ریفریشمنٹ کا کافی سامان میسر رہتا ہے۔
آج بھی ایسا ہی ہوا تھا وہ صبح سے کہیں جانے پہ بضد تھا اور میں اپنی مصروفیات اور ازلی کام چور طبیعت کی وجہ سے ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا۔ لیکن سر شام جب سردی نے اپنا آپ دکھایا اور علی نے سوپ کی آفر کی تو مجھ سے انکار نا ہوسکا۔
اور اب ہم علاقے کی مشہور سوپ شاپ پر ایک ایک بڑا باؤل چکن کارن سوپ کا سامنے دھرے محو گفتگو تھے اور گفتگو کا موضوع تھا پاکستان کے مسائل اور ان کا حل۔
ایسی کسی بھی نشست میں میری حیثیت محض سامع کی ہوتی ہے۔ باقی تمام کام علی بخوبی سرانجام دے لیتا ہے۔ وہ پولیٹیکل سائنس کا طالب علم ہے اور اسے پاکستان اور بین الاقوامی سیاست کے موضوع پر عبور حاصل ہے۔
علی کا دعوٰی یہ تھا کہ پاکستان کا مسئلہ منیر نیازی کی نظم “ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں” کے مصداق دیر کر دینا ہے اور میرا اس سے اختلاف ممکن ہی نہیں کیونکہ اس کے پیسوں سے خریدا سوپ کا پیالہ میرا سامنے میز پر دھرا ہے۔
علی کہتا ہے کہ ہم من حیث القوم تاخیر کا شکار ہیں جس کی سب سے بڑی مثال تو یہ ہے کہ ملک بننے کے ستائیس سال بعد تک ہم اسے کوئی آئین ہی نہیں دے سکے ہیں۔
ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے قاتل کو پکڑنے میں تاخیر کا شکار نا ہوا جاتا تو بعد میں قتل ہونے والے تمام لیڈران کو شائد بچایا جاسکتا تھا۔
علی یہ بھی کہتا ہے کہ ہم نے ابھی تک اس قضیے کو بھی نہیں نپٹایا کہ ہم نے بطور قوم کون سا نظام اپنانا ہے کبھی مارشل لاء بھگتنے پڑتے ہیں تو کبھی لولی لنگڑی جمہوریت۔ بات صرف سیاست کی نہیں۔ علی کہتا ہے ہم نے ہر معاملے میں دیر کی ہے۔ ہم نے اس ملک پر پہلا مارشل لاء لگانے والے جرنیل کو قرار واقع سزا دی ہوتی تو بعد میں آنے والے مارشل لاؤں سے بچا جاسکتا تھا۔
اس کا موقف ہے کہ ملک کی حالیہ بدحالی کی ذمہ دار فوجی حکومتیں ہیں کیونکہ کوئی بھی ریاست اپنے اداروں سے پنپتی ہے اور فوج جب بھی برسراقتدار آئی اس نے کوئی ادارہ مضبوط نہیں ہونے دیا۔ وہ کہتا ہے 71ء میں ہم نے ایک غلطی کی اور وہی غلطی ہم دوبارہ بلوچستان میں دہرانے جارہے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر نواب اکبر بگٹی غدار تھا تو اسے پہچاننے میں اتنی تاخیر کیوں؟
ایم کیو ایم دہشت گرد تنظیم ہے تو اس پر بین لگانے میں دیر کیوں کی جارہی ہے۔ اگر جہادی تنظیمیں ملک کے لیے عفریت ہیں تو انہیں پنپنے کیوں دیا جاتا ہے؟ اگر ملک کے اصل حاکم وردی والے ہیں تو آئین میں ترمیم کرکے انہیں اقتدار سونپ کیوں نہیں دیا جاتا؟ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ سسٹم کو چلنے دیا جائے کیونکہ چلتی کا نام ہی گاڑی ہوا کرتا ہے۔ کھڑی گاڑی کو چھکڑا کہا جاتا ہے سسٹم میں انقلاب چلتے رہنے سے آئے گا۔ لیکن ہمارے ہاں ہر تین سال بعد سسٹم ڈی ریل کردیا جاتا رہا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ ملک میں کرپشن کی سزا غداری کے برابر ہونی چاہیے۔علی ناجانے اور کیا کیا دکھڑے سناتا لیکن تب تک سوپ ختم ہوچکا تھا اور میری برداشت بھی اور یہ بات شائد وہ بھی محسوس کرچکا تھا اس لیے خود ہی کہتا ہے کہ اب چلنا چاہیے۔ گھر واپس پہنچ کے سوچ رہا ہوں کہ علی سے سو اختلاف سہی لیکن اسکی باتیں غور طلب ہیں اگر کبھی سٹار پلس سے فرصت ملے تو سوچیے گا ضرور!