مسئلہ پنجاب : پرانے سٹیریوٹائیپس کو بھی پرکھنے کی ضرورت ہے
از، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
شرمیلا بوس ایک معروف صحافی ہیں۔ وہ امریکی شہری ہیں اور ان دنوں آکسفورڈ (برطانیہ) میں مقیم ہیں تاہم ان کا آبائی وطن بھارت کا صوبہ مغربی بنگال ہے۔ شرمیلا کہتی ہیں ایک بنگالی ہونے کی حیثیت سے انہیں سن 1971 میں مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات میں بہت دلچسپی تھی۔ جب انہوں نے مختلف ذرائع سے اس ضمن میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ کچھ مخمصہ کا شکار ہونے لگیں، کیونکہ ہر سورس سے ایک مختلف، بلکہ متضاد کہانی سامنے آئی۔ اس موقع پر انہوں نے سوچا کیوں نا وہ خود اس کے متعلق گہرائی سے تحقیق کریں اور معروضی حقائق تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ اس تحقیق سے جو کچھ سامنے آیا اس نے، بقول ان کے، انہیں حیران کر کے رکھ دیا۔ اسی تحقیقی سفر کو انہوں نے اپنی کتاب Dead Reckoning : Memories of the 1971 Bangladesh War میں مِن و عن نقل کیا ہے۔
اس کتاب میں ایک جگہ انہوں نے بہت دلچسب مشاہدہ قلمبند کیا۔ مقامی لوگوں سے بات چیت کے دوران پاکستانی فوج کے متعلق ایک بڑا الزام یہ سننے کو ملا کہ اس نے مارچ اور دسمبر 1971 کے بیچ مشرقی پاکستان میں بہت مظالم ڈھائے۔ تاہم ساتھ ہی یہ بات بھی تواتر سے کہی گئی کہ اس فوج میں شامل بلوچ دستے بہت اچھے لوگ تھے اور انہوں نے بڑے پیمانے پر مقامی آبادی کی حفاظت بھی کی اور محفوظ علاقوں تک جانے میں ان کی مدد بھی کی۔ تاہم پنجابی سپاہی بہت ظالم تھے۔ شرمیلا بوس نے لکھا، جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ایسٹرن کمانڈ کے تحت تعینات فوجیوں میں بلوچ افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اور جس قدر ان کے اچھا ہونے کی بات کہی جا رہی تھی اتنی تعداد میں بلوچ سپاہی اور افسر تو کسی صورت اس وقت مشرقی پاکستان میں تعینات نہیں تھے۔ جب میں نے اس کے متعلق مزید جانچ کی تو یہ بات سامنے آئی کہ یہ سب ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ تھا۔ بلوچ کا ذکر صرف اس لیے تھا تاکہ کوئی بھی اچھی بات کسی پنجابی سپاہی کے حوالہ سے عوام میں نہ جانے پائے کیونکہ اس وقت کا بیانیہ “پنجابی” فوج کے خلاف بنایا گیا تھا اور اسے ہر قیمت پر قائم رکھنا تھا تاکہ عوام کی رائے میں تبدیلی نہ آنے لگے۔ چنانچہ ہر شکایت پنجابی فوج سے تھی اور ہر اچھی بات “بلوچ” سپاہیوں کے کھاتے میں۔ جبکہ ، وہ لکھتی ہیں ، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت وہاں پر موجود واحد بلوچ افسر (ایک نوجوان کیپٹن) کو مُکتی باہنی نے گلا کاٹ کر نہایت بے دردی سے مار ڈالا اور اس کے بلوچ ہونے کا ذرا لحاظ بھی نہ کیا.
درحقیقت پنجاب اور پنجابی کی اصطلاح کا استعمال مشرقی بنگال کے سیاستدانوں نے ایک سیاسی چال کے طور پر شروع کیا۔ ملک کے مشرقی بازو سے تعلق رکھنے والے لوگ عددی اعتبار سے پورے مغربی حصہ سے زیادہ تھے۔ مغربی پاکستان میں پنجاب سب سے زیادہ آبادی والا علاقہ تھا۔ انہوں نے اسے دباؤ میں رکھنے کے لیے پنجاب کا لفظ “اصطلاحاً” بولنا شروع کر دیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب کو ایک ولن کا روپ دے کر مغربی پاکستان کے باقی تین صوبوں کو بھی ہمنوا بنایا جائے۔ یہ بات ون یونٹ کے قیام کے بعد اور بھی زیادہ زور شور سے کہی سنی جانے لگی کیونکہ مغربی یونٹ کا دارالخلافہ لاہور بن گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ملک کا دارالخلافہ بھی کراچی سے منتقل ہو کر اسلام آباد آ گیا جو کہ پنجاب ہی کے پوٹھوہار علاقہ میں واقع ہے۔ تاہم ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد پاکستان کی سیاسی قیادت اور افسر شاہی کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے نہ تھا اور نہ ہی فوج کے کمانڈر ان چیف پنجاب سے تھے لیکن مشرقی پاکستان کی سیاسی لغت میں یہ سب بھی “پنجابی” تھے۔ دارالخلافہ کی تبدیلی بھی جنرل ایوب خان کا منصوبہ تھا اور ان کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا۔
بنگلہ دیش بن جانے کے بعد “پنجاب” کی اصطلاح اب بقایا پاکستان منتقل ہو گئی ۔۔۔۔ صوبے اپنی پرانی شکل میں بحال ہو گئے لیکن پنجاب اپنی آبادی کی بنیاد پر وفاقی سروسز اور فوج میں عددی برتری کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر “پنجاب” بن گیا۔
پنجاب کا اپنا مسئلہ یہ ہے کہ اس صوبہ میں، بشمول بھارتی پنجاب، سن 46 تک تو یونینسٹ پارٹی کا زور تھا جو نیشنلسٹ رجحان رکھتی تھی اور تقسیم کی کچھ خاص حامی نہ تھی۔ اس حساب سے جس جغرافیہ پر پاکستان کا قیام عمل میں آنا تھا پنجاب ان علاقوں میں قریب آخری صوبہ تھا جو مسلم لیگ کا حامی بنا۔ البتہ سن 47 کے خون آشام فسادات اور لٹے پٹے خاندانوں کی آمد نے پاکستانی پنجاب میں بیک وقت جوابی مظالم اور بھارت سے نفرت کا ردعمل پیدا کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد بھارت کے خلاف جذبات کے اظہار میں پنجاب کا آہنگ نسبتاً بلند رہا۔ پنجاب نے سمجھا کہ بھارت سے متعلق یہی جذبات سارے پاکستان کے ہوں گے ۔۔۔ یعنی اس شدت سے۔ دوسری جانب اس توقع کو پاکستان کی دیگر اکائیوں نے ضرورت سے زیادہ “حب الوطنی” کے اظہار پر محمول کیا اور یہ سمجھا گیا کہ آخر وقت “مسلمان” ہونے والا پنجاب اب سب کو سکھا رہا ہے کہ مسلمانی کیا ہے۔
دوسری جانب، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اس دوران پنجاب اور پنجابی کے ذکر نے پنجاب کو ایک کٹہرے میں کھڑا کر دیا، اور وہ آج بھی وہیں کھڑا ہے۔
اس کے خلاف مقدمہ یہ تھا “ملک توڑنے والا بھی وہی اور حب الوطنی کا ٹھیکیدار بھی اب وہی بن بیٹھا”۔ رفتہ رفتہ پنجاب نے بھی اس الزام کو قبول کرنا شروع کر دیا اور بجائے یہ کہ وہ وفاقی کائیوں میں سے ایک اکائی کے تحت آئین میں دیے گئے رولز آف بزنس کے مطابق کام کرتا، اس نے نہایت دفاعی پوزیشن اپناتے ہوئے باقی ماندہ وفاق کو “قائم” رکھنے کا اضافی اور نہایت غیر ضروری کام اپنے ذمہ لے لیا۔ وہ “بڑا بھائی” بن گیا۔ این ایف سی میں سے پنجاب کا حصہ کٹے گا ۔۔۔۔ بڑا بھائی جو ہے۔ کالا باغ ڈیم نہیں بنے گا، ملک بچانا بڑے بھائی کے ذمہ ہے۔ لوڈ شیڈنگ پنجاب میں زیادہ ہو گی کیونکہ اس کا اپنا کوئی بجلی گھر نہیں، ساری ٹیکسٹائل انڈسٹری تباہ ہو جائے گی… کوئی بات نہیں پنجاب بڑا بھائی ہے وغیرہ ۔ آپ باقی سب بات الگ رہنے دیں، صرف یہ سوچیں کہ جس ملک کی سالمیت ایک ڈیم کی مار ہو اس کی حالت زار پر تشویش کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔
بہ ہر حال، پنجاب کا یہ بڑے بھائی والا رول ایک غلط فیصلہ تھا۔ اس کی وجہ سے دو بڑے مغالطوں نے جنم لیا۔ پہلا تو یہ کہ پنجاب واقعی “غاصب” ہے جو بڑا ہاتھ مار کر چند ٹکڑے دوسروں کو دے کر حاتم طائی بننے کی کوشش میں رہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کے مظاہرے دراصل پنجاب/ پنجابی اسٹیبلشمنٹ/افسر شاہی کی دانستہ پالیسی ہے تاکہ چھوٹے صوبوں کو لالی پاپ پر ٹرخا دیا جائے اور ان کو اپنے آئینی حقوق کا تقاضا کرنے سے باز رکھا جا سکے۔ جو آئین کی بات کرے اس پر غیر محب وطن ہونے کی بات کہہ دی جائے۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس سب کے مضمرات کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
پاکستان سب کا ہے۔ اسے قائم رکھنا ہے تو سب کو مل کر رکھنا ہے، یہ سب کا مشترک مفاد بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ کسی کو بھی دوسرے سے بڑھ کر پاکستانی بننے کی ضرورت نہیں۔ آئین و دستور کی پاسداری سب پر لازم ہے اور اسی کے تحت سب کو ایک دوسرے سے تعلق رکھنا ہے۔ پنجاب بھی سب بھائیوں میں ایک بھائی ہے۔ جس طرح باقی سب کے حقوق ہیں اسی طرح پنجاب کے ہیں اور جیسے باقی سب کے فرائض ہیں پنجاب کے بھی بس اسی قدر ہیں۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔ یہ بات اہم ہے کہ چھوٹے صوبوں کے پاس یہ آئینی، قانونی اور معاہدہ جاتی گارنٹیاں ہی ہیں جو فیڈریشن میں انہیں جائز مقام کی یقین دہانی فراہم کرتی ہیں۔ اگر یہ تاثر پیدا ہو گا کہ ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو خواہ وہ بجلی کی رائیلٹی ہو یا گیس کی بات کہیں سے کہیں جا پہنچے گی۔
پاکستان تب ہی مضبوط اور توانا ہو گا جب یہ کسی بڑے بھائی کی موجودگی کا رہینِ نہیں ہو گا۔ سب پاکستانی ہیں، اور سب کو مل کر اس ریاست کی اونر شپ لینا ہوگی۔ معاملات کو دستور کے تحت چلایا جائے گا تو درست نتائج کی توقع بھی کی جا سکے گی۔ جذباتی باتوں کا یہاں کوئی کام نہیں۔ دستور پر عمل کا سب سے زیادہ اصرار پنجاب کی جانب سے ہونا چاہیے تاکہ چاروں یونٹس اپنے حقوق اور اپنے فرائض میں یکساں ہو سکیں اور ان کے مابین ٹھوس بنیادوں پر تعلقاتِ کار کا فروغ ممکن ہو پائے۔ مسئلہ کشمیر کا حل ہمارے بس میں نہیں لیکن “مسئلہ پنجاب” کا تسلی بخش حل ضرور کیا جا سکتا ہے۔