ہمارا سوشل میڈیا، عمومی مباحث اور اخلاقی احساس برتری کا مسئلہ
از، یاسر چٹھہ
اس مضمون کے شروع میں ہی عرض کرتا چلوں کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ قارئین کو یہ ادق لگے اور مجھے کہتے جائیں کہ ان کا کیوں وقت کا زیاں کیا؛ دوسری بات یہ کہ اس مضمون میں موجودہ حالات میں جبکہ پانامہ کیس کی پیش رفتوں کی اس مقام پر جب جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع ہو چکی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور حزب اختلاف و حزبِ اقتدار کے قائم مقام میڈیا گروپوں کے میزبانوں کی جانب سے پہلے اخلاقیات، پھر عزت نفس اور اب غیرت اور بے غیرتی جیسے الفاظ و تراکیب کا برت و استعمال شروع ہوچکا۔ راقم نے سیاست میں اخلاقیات اور عمومی سماجی مباحث میں اخلاقی احساس برتری کا تجزیہ و مطالعہ کیا پیش کیا ہے۔
اس مطالعے میں Justin Tosi اور Brandon Warmke کے مضمون Moral grandstanding: there’s a lot of it about, all of it bad میں پیش کردہ خیالات کو بنیاد بنایا ہے۔
اس چیز کو فی الوقت ایک طرف رکھیے کہ سیاست اور اخلاقیات کے باہمی تعلق کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔ پر یہ بات کافی حد تک واضح ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک بہترین اور متاثر کن اخلاق کے حامل مرد یا عورت کے طور پر پیش کرنے کے عادی ہیں۔
مثال لیجیے کہ ایک بندہ جسے اپنے احباب کے سامنے اپنے اعلی و مضبوط کردار کو باور کرانا ہے، کہتا ہے کہ میں تو ہمیشہ سے غریبوں اور کمزوریوں کا حامی اور طرفدار رہا ہوں۔ … میں یہ نا انصافی کسی طور پر بھی برداشت اور پسند نہیں کرسکتا اور نا ہی کوئی اور بھلا مانس ایسا کر سکتا ہے۔
وطنِ عزیز میں تو خیر اخلاقیات کی دیواریں اور بھی بلند کر دی گئی ہیں۔ حالیہ دنوں ہی میں فواد چودھری سے منسوب ایک بیان سامنے آیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اس وقت (مابعد جے آئی ٹی رپورٹ) کوئی بے غیرت ہی شریف خاندان کا دفاع کر سکتا ہے۔ یعنی پی ٹی آئی کے موقف سے من و عن موافقت نا رکھ سکنا نہ صرف آپ کو اخلاقیات کے عالی مراتب سے بے دخل کرنے دینے کے لیے کافی ہے، بلکہ مسلم لیگ ن کا حامی ہونا، یا آپ کوان کا حامی قرار دے دیا جانا آپ کے اندر غیرت کی غیر موجودگی کی بھی بین نشانیوں میں سے ایک ہے۔
اسی طرح کی کیفیت کو Justin Tosi اور Brandon Warmke اخلاقی برتری کے احساس سے سے عنوان دیتے ہیں
اخلاقی برتری کا احساس محض یہ نہیں کہ صرف افسوسناک ہے بلکہ یہ افسوسناک ہونے سے بھی بد تر ہے۔ اخلاقی برتری کے احساس سے بچنے کے پشت پر پختہ اور پائیدار اخلاقی وجوہات ہیں۔ یہ کسی لوگوں کے ساتھ برتاؤ کے دوران انتہائی اور ناقابل قبول دعوے کرواتا ہے۔ اس کا ایک اور ضمنی نتیجہ ہوتا ہے کہ اس سے اخلاقیات سے متعلق بحث عامہ سستی سطح پر چلی جاتی ہے:
لیکن یہ اخلاقی برتری کا احساس یا moral grandstanding کیا ہے؟
اور اخلاقی برتری کے احساس کے دعویدار کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں؟
اخلاقی برتری کے احساس کے حاملین دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کو اخلاقی طور پر قابل احترام ہونے کی حیثیت سے، حتٰی کہ اخلاقی طور پر نمایاں فرد کے طور پر یاد بھی کیا جانا چاہیے؛ ایسے لوگ مختلف عوامی سطح کی اخلاقیات کی بحثوں میں حصہ بھی اس نیت سے ڈالتے ہیں کہ ان کی اس خواہش کو تعبیر ملے۔
اس کے بعد، اپنی بات کو فروغ دینے کے لیے اور اس کی اشاعت کے لیے اس دوران کی گئی اخلاقی باتوں استعمال میں بھی لایا جاتا ہے۔ بے شک، جب اخلاقی برتری کے احساس کے شکار لوگ انصاف اور انسانی حقوق کے بارے میں اپنے ریا کاری سے عبارت دعوے کرتے ہیں، تو وہ اس کام میں کسی حد تک مخلص ہوسکتے ہیں۔
ایسا کل وقتی شک ان پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ (حقیقت میں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ عام طور پر مخلص ہی ہوتے ہیں۔) نسبتا کم مخلص اخلاقی احساس برتری کا شکار لوگوں کو کسی معاملے کے متعلق ییش کردہ دعوے کے متعلق تو کوئی خاص سر درد نہیں ہوتا، لیکن اس بات سے انہیں بہت سروکار ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ کسی معاملے سے متعلقہ ان کے بیانات کے وثوق و اخلاص کی بابت کیا سوچتے ہیں۔ ان کی یہ دلچسپی اس بات میں شدید ترین ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جو ان کی رائے پرتنقید و تنقیص کر رہے ہوتے ہیں وہ انہیں ان کی جانب سے بیان کردہ پوزیشن پر سنجیدہ جانیں۔
اخلاقی برتری کے احساس کے شکار کسی مرد و زن کا دعوی آثار و قرائن سے مزین اور بالکل سچا بھی ہو سکتا ہے۔ کسی معاملے اور مسئلے کی بابت نقطہِ نظر کی جو بھی تفصیلات و ضمنیات ہوں، اخلاقی احساس برتری کا حامل مرد و زن ہر ممکن حد تک یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ تو سر تا پا معصوموں اور دنیاوی آلائشوں سے پاک تر فرشتوں کا ہی طرفدار ہے۔
لیک اب یہ سوال بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوسکتا کہ اخلاقی احساس برتری کا احساس یعنی moral grandstanding کس درجے تک عام ہے؟ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ دوسروں کو اپنی اخلاقی گفتگو کے بلند شانوں پر سوار ہوکر متاثر اور رام کرنے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سماجی علوم کے ماہرین کےکئی ایک تجرباتی مطالعات کا دعوی ہے کہ ہم انسان اپنے آپ کو دوسروں سے کئی ایک بنیادوں پر معتبر گردانتے ہیں اور اسی شبیہ پر اپنے آپ کو پیش بھی کرتے ہیں۔ ان اخلاقی اصولوں کی وجودیات میں ذہانت، دوستانہ رویہ اور زندگی میں آگے بڑھنے کی امنگوں کی تفصیلات و ضمنیات شامل ہیں۔
لیکن جب بات اخلاقیات کی آ جاتی ہے تو ہمارے اندر خود کو دوسرے سے اخلاقی طور پر بر تر اور افضل مانے جانے کی خواہش زیادہ کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ کچھ حالیہ تحقیقی مطالعات واضح کرتے ہیں کہ ہم میں سے بیشتر اپنے آپ کو اخلاقی طور پر افضل جانتے سمجھتے ہیں۔ ہم یہ باور کرتے ہیں کہ صرف ہم ہی انصاف اور قانون کی بالا دستی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں؛ کسی بد عنوان شخص اور عوامی عہدیدار کو نکال باہر کرنے کو ناقابل تردید و نظرِ ثانی رائے سمجھتے ہیں، یا ظلم کا شکار کسی شخص سے زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں۔
ہم اس زعم کو بھی پال لیتے ہیں کہ ہماری اخلاقی سوجھ بوجھ اور بصیرت کسی زید بکر سے بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں ما بعد جے آئی ٹی رپورٹ اس کے گرد گھومتا سوشل میڈیا پر عوامی ڈسکورس (بلکہ اس میں کافی عمدہ اور خواصی نوعیت کی بحثیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں؛ ناصر عباس نیر صاحب سے معذرت کے ساتھ کہ راقم ڈسکورس کو جدید لسانیات کے تناظر میں برتتا ہے، حوالوں کے لیے وہ یہ تین لنکس: 1۔ آکسفورڈ؛ 2۔ کیمبرج اور 3۔ ویبسٹر لغات ملاحظہ کر سکتے ہیں،) کے شرکاء اپنے اپنے پورے اخلاص کے ساتھ اپنی اپنی دانست کی اخلاقی احساس برتری کے زیر دام تھے۔ راقم کا یہ تجزیہ سنجیدہ مباحث میں حصہ لینے والے، تازہ کار اور ابھرتے ہوئے نئے اور تھوڑے پرانے لکھاریوں کی اصطلاحات اور ترکیبات کو مد نظر رکھ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ خواتین و حضرات آئیں و قانون کی بالادستی، احتساب و مواخذہ اوپر کی جانب سے شروع کرنے کے بھلے بھلے تصورات کو اپنے دلائل کی بنیاد بنا رہے ہیں، اور اپنے آپ کو ان پر کار بند اور شعوری روشنی لیتے باور کراتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ وہ دوسرے گروہ کی جانب کی آراء کو سٹیٹس کو سے پیوستگی، غلامانہ ذہنیت سے عبارت، مفاد پرستی کے سطحیت سے منسلکہ سمجھنے کی رد کر دینے کی طنز اور چبھتی ہوئی جملہ بازیاں بھی کرتے ہیں۔ یعنی کہ اخلاقی احساس برتری کا ایک خالص احساس اپنی پوری آب و تاب سے (راقم کا جھکاؤ اس مکتبہ فکر سے مختلف ہے، بلکہ دوسرے مکتبہ فکر سے ہے۔ دوسرے کا لفظ استعمال کرنے سے کسی جامع و مانع binary کا تصور پیش کرنا مقصود ہر گز نہیں۔ لہذا اس کا کسی حد تک تعصب اس تجزیاتی مضمون میں دکھائی دے سکتا ہے۔ شعوری کوشش ہوگی کہ اس تعصب اور جھکاؤ کو اس مطالعہ میں نا آنے دیا جائے۔)
جبکہ ان سے مختلف رائے رکھنے والے بھی اپنے آپ کو کچھ کم اخلاقی اصولوں پر کاربند ہونا باور نہیں کراتے۔ ان کے نزدیک جمہوری ارتقاء کے سفر کو جاری رہنے دینا چاہیے؛ طاقت کے مختلف مراکز کو اپنی اپنی حدود میں رہنا سیکھنا چاہیے؛ مہذب دنیا کے باقی ممالک کی شبیہ پر سلامتی کے اداروں کو سیاست و کاروبار سے دوری اختیار کر کے اپنے آپ کو تقدس اور ناقابل مواخذہ و جوابدہی کے تصور سے باہر آ جانا چاہیے؛ انہیں پر چیز کو قومی سلامتی کی عینک سے دیکھنے کی تڑپ اور لگن کو کچھ محدود کرنا چاہیے؛ خارجہ پالیسی اور دفاع کو باہم گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ منظم ادارے کی طرح اپنے راعی کو پہچاننا چاہیے، نا کہ باقی کی پوری ریاست کے متوازی ایک ادارہ کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیے۔ مختصرا پاکستان کو برما جیسے ممالک کی راہ کا سالک نہیں بننا چاہیے۔
بادی النظر میں ہر مکتبہ فکر بہت عمدہ اخلاقی اصولوں پر استوار نظر آ رہا ہے۔ ایک پر تجسس طالب علم کے لیے آج کل کے حالات میں یہ تقسیم بہت سارا سیکھنے کا سامان مہیا کر رہی ہے۔ اب پھر سے اپنے زیر نظر موضوع کی بات آگے بڑھاتے ہیں۔
اخلاقی احساس برتری کی کیفیت و احوال کی مختکف شکلیں اور ان کے آشکار ہونے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اپنے ہم عمروں اور ہم عصروں کو متاثر کرنے کی دھن میں اخلاقی برتری کے احساس کا حامل مرد و زن اخلاقی معاملات کو انتہائی بلند آہنگ انداز میں اٹھاتا ہے، ایسے معاملات کو بھرپور انداز میں اجاگر کرتا ہے جن سے معاشرتی اور سماجی اجتماعی صورت احوال سے شرمندگی کے پہلو نکل کر سامنے آتے ہوں؛ وہ اس چیز کا اعلان کرتے ہیں کہ جو بھی ان سے اختلافی نظر رکھتا ہے، وہ سراسر غلط ہے؛ یا یہ اپنے جذباتی اظہارات میں بہت مبالغہ کرتے ہیں۔ تاہم اخلاقی برتری کے احساس کی ایک انتہائی بگڑی ہوئی شکل کو Justin Tosi اور Brandon Warmke دیوانہ وار افراط Ramping up کا نام دیتے ہیں۔
دیوانہ وار افراط اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہے جب بحث و مباحثے میں شامل افراد ایک دوسرے کو ہرانے اور لا جواب کرنے کے لیے ایک سے بڑی ایک دلیل لا رہے ہوتے ہیں۔ جب اس دیوانہ وار افراط کا رویہ برتا جا رہا ہوتا ہے تو بحث و تمحیص اور مکالمہ جیسے اخلاقی اسلحہ و بارود کی مسابقت کی سطح تک آ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اخلاقی احساس برتری اس قدر ضرر رساں ہو جاتی ہے۔ دیوانہ وار افراط کا ایک نتیجہ معاشرے اور سماج میں تقسیم در تقسیم کی صورت نکلتا ہے؛ اب افراد ایک دوسرے سے مشورہ مشاورت کرنے کے بعد بجائے یہ کہ وہ کسی معتدل سے انداز کے اتفاق رائے کی طرف آئیں، اپنے انداز فکر و نظر میں زیادہ شدت کا رویہ اپنا لیتے ہیں۔
اخلاقی ہتھیاروں کی دوڑ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ انتہاوں کو چھوتے ہوئے اور نا قابل اعتبار خیالات کو اختیار کرتے جاتے ہیں اور دوسری جانب کے دلائل کو سننے سے سرا سر انکاری ہوتے جاتے ہیں؛ یا اگر سنتے بھی ہیں تو صرف اپنے ذہن و دماغ کے اس حصے کو مطلع کرنے کے لیے کہ اب انہوں نے اپنے دلائل کی مقدس کتاب کے کس صفحہ کو پلٹ کر دیکھنا ہے اور اپنا دلیل کا اسلحہ چلانا ہے۔ یعنی اپنی فکر کے اندر دوسرے کی رائے کو سرایت کرکے سمجھنے اور سوچنے کی کسی نئی سطح پر پہنچنے کی بجائے مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ اپنی اخلاقی احساس برتری moral grandstanding کی اناء کی تسکین کیونکر بجا لانی ہے۔
قطبی تقسیم صلح جوئی اور اور باہم تسلیم و رضا کے امکانات کو مخدوش تر کر دیتی ہے۔ اخلاقی ہتھیاروں کی دوڑ کا فاتح صرف اور صرف خالص ہی خالص اعتقادات اور آدرشوں کا حامل ہوسکتا ہے۔ اور ہم اخلاقی طور پر نا خالص سے آخر کیوں سمجھوتہ کریں؟ یہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں خاص طور پر ایک شر انگیز نتیجے کی صورت میں بر آمد ہوتا ہے۔
باہمی مکالمہ اور معاشرتی سطح کا مکالمہ بانجھ پن کے بالکل آس پاس آ جاتا ہے۔ باہمی تسلیم و رضا کے نا ہونے یا نظر انداز کرنے کی حد تک ہونے کی وجہ سے خیالات کی بار آوری cross fertilization نہیں ہو پاتی؛ جی ہاں، صرف مناظرہ کے انداز گروہ بندیاں ہیں اور دوسرے کی دم کو اس کا چہرہ جاننے کی نفسیاتی الجھن جاری و ساری رہتی ہے۔ ایک اور بات کہ آپ کی یہ مجبوری بنا دی جاتی ہے کہ اس اخلاقی احساس برتری کا کوئی سرمئی علاقہ grey area نہیں بچتا۔ آپ کو پورے کا پورا داخل ہونا پڑتا ہے، یا پورے کا پورا خارج ہونا پڑتا ہے۔
اس کا ایک ضمنی اظہار ملکی سیاسی جماعتوں میں ایک جماعت چھوڑ کر دوسری میں چلے جانے کے بعد ان کے اپنے پرانے بیانات اور موجودہ بیانات کے تقابل سے با آسانی کیا جاسکتا ہے۔ راقم نے اس مضمون کو رقم کرنے سے پہلے کچھ ایسے سیاستدانوں کے ٹویٹس اور یوٹیوب لنکس ک مطالعہ کیا ہے۔ ایک بات اور بتاتا چلوں کہ شخصیات کی مثالیں دینے اور لنکس دینے سے شعوری طور پر احتراز کر رہا ہوں کہ مبادا مضمون شخصیات کی سطح پر اتر کر قریبی سیاق سے گھل مل کر اسے جامعیت دینے کی کوشش ہوا کی نذر نا ہو جائے۔
ایک مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ یہ بتانا محال امر ہے کہ کوئی زید یا بکر واقعی اخلاقی برتری کے احساس کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ کیوں محال ہے؟ اس کے لیے دیکھتے ہیں کہ عین اسی بات کی طرح یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ کوئی جھوٹ بول رہا ہے یا اس کے بجائے کہ اس سے محض نا دانستہ غلطی ہو رہی ہے، کیونکہ جھوٹ کی تعریف میں یہ بات ہو سکتی ہے کہ یہ ایسا بیان ہوتا ہے جس میں جان بوجھ کر دھوکا شامل ہوتا ہے۔ کسی اور کے دل و دماغ میں کیا ہے، یہ جاننا بہت مشکل ہے، ہر چند کہ کبھی کبھار کسی دروغ گو کی باتوں میں کچھ اشارے ڈھکے چھپے ہوتے ہیں۔
عین یہی بات اخلاقی احساس برتری کے شکار فرد کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ ایسے افراد اخلاقی طور پر باعزت دکھائی دینا چاہتے ہیں۔ لیکن کسی زید یا بکر کی اس خواہش کو محض چال چلن کے انداز و اطوار سے جانچنا آسان کام نہیں۔ یہ حقیقت اس بات کی دلیل بنتی ہے کہ دوسروں کو اخلاقی برتری کے عارضے کا الزام دھرنے سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے۔
وجہ یہ ہے کہ ہم سب آپ کے پاس اس قدر مواد جمع نہیں ہو پاتا کہ الزام کو سچ ثابت کر سکیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہم اکثر بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس ناقابل تردید شہادتیں اور ثبوت جمع ہو گئے ہیں۔ اس کی بھی ایک وجہ یہ ہوتی ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ ہمارا مشاہدہ ہمارے مقام مشاہدہ کے دست برد سے متعین و متخیف (reduce) ہوتا ہے۔
پس اخلاقی احساس برتری کے خیال کے متعلق غور و فکر کرنا در اصل خود بینی کی وجہ تسمیہ ہونا چاہیے؛ اس احساس کا مطلب کسی طور پر مقابلہ بازی پر اتر آنے کا نہیں ہونا چاہیے۔ اخلاقی احساس برتری کے رویے کے خلاف دلائل کی جمع بندی کے وقت ہمیں اپنے آپ کو اس بات سے مامون و محفوظ رکھنا ہوتا ہے کہ ہماری کوئی دلیل ہم سے اختلاف رائے رکھنے والے کسی فرد کے لیے ہماری جانب سے دھتکارنے کا تاثر نا بن جائے۔
بلکہ یہ تو اس بات کی حوصلہ افزائی کرنے کا نام ہے کہ ہم اپنا ایک بار پھر سے تجزیہ کریں۔ ہم جاننے کی کوشش کریں کہ ہم اخلاقی و سیاسی معاملات کو لے کر اپنے سے باہر کے دوسرے کے متعلق کیوں اور کس انداز میں سوچتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا بنتا ہے کہ آیا ہم اپنی دانست میں اخلاقیات پر بحث کر کے کچھ خیر و بھلائی کا کام سر انجام دے رہے ہیں؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کسی ایسے سرو کار کو اپنا مقصد بنائے بیٹھے ہیں کہ لوگ ہمیں اچھا اور بھلا جانیں؟