طلبا میں منشیات کا بڑھتا استعمال، ذمہ دار کون؟
از، عصمت اللہ مہر
کل ہی کی ایک خبر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے نجی تعلیمی اداروں کے تقریباً 53 فیصد طلبا میں منشیات کا استعمال ہو رہا ہے۔یہ طلبا منشیات کی جدید اقسام کا استعمال کر رہے ہیں۔ جن میں شیشہ سموکنگ بھی شامل ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس اہم ایشو پر نوٹس لیا ہے اور اسلام آباد کے ذمہ داروں سے اس کا جواب مانگا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ یہ طلبا زیادہ تر آسودہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ان منشیات کے استعمال کرنے والے طلبا میں آٹھ سال تک کے بچے بھی شامل ہیں۔ اور ان کو منشیات کینٹین اور اساتذہ سے فراہم ہوتی ہے۔جو منشیات کے عوض منہ مانگی رقم طلب کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے یہ نوجوان طلبا کہاں اور کب منشیات استعمال کرتے ہیں ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ منشیات ایک فیشن کے طور پر ہمارے نوجوانوں کی زندگیوں میں داخل ہوتی ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے انھیں غلام بنا لیتی ہے۔ یہ فیشن ہے ’’شیشہ سموکنگ‘‘ کا__شیشہ سموکنگ کو عموماً بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ والدین بھی اسے ایک فیشن یا سٹائل کے طور پر ہی لیتے ہیں۔ بڑے بڑے کلبوں اور ہوٹلوں میں اس کی اجازت دے دی گئی ہے، جہاں یہ نوجوان کش لگاتے اور مزہ لیتے نظرآتے ہیں۔ پوش آبادیوں میں تقریباً ہر مارکیٹ میں شیشہ کلبوں کا رواج عام ہے۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے اس پر پابندی بھی لگائی اور ان کلبوں کو بند کرنے کے احکامات صادر کیے مگر ان پر خاطر خواہ عمل نہ ہوسکا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ یہ شیشہ سنٹرز دوبارہ سے سرگرمِ عمل ہیں۔
اسلام آباد کے تعلیمی ادارے اس حوالے سے خاص متاثر ہیں۔ منشیات سب سے پہلے شیشہ سنٹرز کے ذریعے ہی ان بچوں تک منتقل ہوتی ہے اور پھر افیون، چرس اور دیگر خطرناک نشے ان بچوں کا مقدر بن جاتے ہیں۔
یوں تو سگریٹ نوشی پر پابندی کا پر چار تسلسل سے جاری ہے۔ اب تو سگریٹ کے پیکٹوں پر بھی، سگریٹ پینا مضر صحت ہے، جیسے اقوال درج ہیں، اس کے باوجود سگریٹ نوشی میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی لوگ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، بلکہ سگریٹ کے ساتھ چرس اور ہیروئن کے استعمال میں اضافہ ہوا۔ غالباً نشے کے عادی افراد اس سرگرمی میں ذہنی سکون تلاش کرتے ہیں۔ مگر ان کی صحت پر ان منشیات کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا احساس انہیں بعد میں ہوتا ہے۔ حقہ تو سگریٹ کی آمد سے پہلے ہی عام تھا۔ دیہی علاقوں میں تو اس کو تہذیب کا حصہ خیال کیا جاتا تھا۔ حقہ نوشی کی نشستیں ہوتی تھیں، اب تو یہ حال ہے کہ حقّے کی ایک جدید قسم ’’شیشہ‘‘نے حاصل کرلی ہے۔ ’’شیشہ ‘‘حقے کی طرز پر بنا ہوا ایک آلہ جو کہ سموکنگ کی ایک جدید شکل ہے۔ یہ نشہ ابھی تک پوش ایریاز تک محدود ہے۔ اس لیے کہ اس میں استعمال ہونے والی اشیاء خاصی مہنگی ہیں۔ انہیں بیرونی ممالک سے منگوایا جاتا ہے۔ شیشہ کا آمیزہ لاہور ، اسلام آباد اور کراچی کے بڑے سٹورز پر مختلف فلیورز دستیاب ہے۔
پاکستان میں پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی کی ممانعت ہے۔ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ شیشہ پبلک پارکوں اور بڑے ریستورانوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ جہاں اس کا سر عام استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔ پوش ایریاز اور بڑے ہوٹلز میں’’ شیشہ‘‘ فیشن کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے اور روز مرہ زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ لوگ اس کو قانون اور اخلاقیات کی خلاف ورزی نہیں سمجھتے۔ یوں بھی شیشہ سموکنگ پر ہمارے ہاں کوئی سخت پابندی بھی نہیں بلکہ ابھی تک اس کو نشہ ڈیکلیئر ہی نہیں کیا گیا۔ بڑے ہوٹلز میں شیشہ سموکنگ کیلئے نہایت دلفریب ماحول مہیا کیا جاتا ہے جس سے نوجوانوں میں اس کی کشش بڑھتی جا رہی ہے۔ شیشے کا حقہ بذات خود ایک دلفریب صورت میں بنا ہوتا۔ جو مختلف ڈیزائنوں میں دستیاب ہے اس کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف اقسام کے فلیورز بھی مل جاتے ہیں۔ جسم قسم کاتمباکو چاہتے اس فلیور میں مل جاتا ہے۔ اس کی ڈبیا پر ان پھلوں کی تصاویر بنی ہوتی ہیں فلیورزکے ساتھ ساتھ ان کے نرخ بھی مختلف ہوتے ہیں نوجوان جوڑوں کے لیے تو یہ خاصا پر کشش نشہ ہے جو اس کی عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ممی ڈیڈی گروپ کی لڑکیاں اور لڑکے ان شیشہ بار میں دیکھے جاتے ہیں جونیم تاریک اور رومانوی ماحول میں موسیقی کی آواز میں شیشہ نوشی کرتے ہیں۔
شیشہ نوجوان نسل کے لیے دراصل ایک نئی چیز ہے شیشعربی حقے کی ایک شکل ہے، لبنان اور معر میں اسے نر گلا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ اب متعارف ہوئی ہے جبکہ ترکی میں گذشتہ 500سالوں سے یہ رسم جاری ہے۔ عرب ممالک میں بھی یہ وبا کی طرح پھیل رہی ہے ایران افغانستان اور پاکستان مین اسے حقہ کہا جاتاہے۔ اس میں سب سے اوپر کے حصے میں ایک چلم ہوتی ہے۔ جس پر فلیور اور تمباکو پر مشتمل لئی یا آمیزہ رکھا جاتا ہے۔ جسے جلتا ہوا کوئلہ حرارت پہنچاتاہے۔ جس سے دھواں پیدا ہوتا ہے۔ حقے اور شیشے میں یہ ایک بنیادی فرق ہے کہ شیشے میں تمباکو براہ راست نہیں جلتا بلکہ اسے حرارت پہنچا کر پگھلاتا ہے۔ چلم کے نیچے لوہے کی ڈنڈی سے دو نلیاں نکلتی ہیں جن کا کام دھوئیں کو باہر چھوڑنا ہے۔ جبکہ دوسرے کو منہ سے لگا کر کش لگانا ہے۔ جس میں سب سے نیچے شیشے کی بیس ہوتی ہے جس میں پانی یا محلول وغیرہ بھرا جاتا ہے ایک مہنگا شیشہ یعنی حقہ خریدنے کے لیے چھ سے بارہ ہزار روپے درکار ہیں۔
عالمی صحت کاادارہ اسے ایک نشہ فراز دہتا ہے اس ادارے کی حالیہ روپورٹ میں بنایا گیا ہے۔کہ یہ مضر صحت ہے اسے پینے والے عموما 20 سے 80 منٹ تک حقے یا شیشے کی منہ میں دبائے رہتا ہے اس دوران وہ پچاس سے دو سو کش لیتا ہے اس طرح وہ ایک ہی منٹ میں پچاس سے سو سگریٹوں کے برابرزہر یلا دھواں جسم کے اندر اُتارتا ہے۔ شیشے سے کاربن مونو آکسائیڈ اور کئی دوسرے زہریلے اجزاء بڑی مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔ کاربن مو نو آکسائیڈ وہی گیس ہے جو گاڑی کے سائلنسر کوکا لا کرتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی سے سالانہ گیا ہزار افرار موت کے مطابق منہ میں چلے جاتا ہیں جن میں سے 70 فیصد کا تعلق پاکستان جیسے ممالک سے ہیں۔