(افتخار احمد)
پانی کی عدم دستیابی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے مسئلہ پر لڑی جائیں گی۔ مگر ہم اس قوم کا حصہ ہیں جسے آنکھیں بند کرکے “آج” میں جینے کی عادت ہے اور کل کی ذرا برابر پروا نہیں۔ ہمیں خبر تو ہے کہ ہمارے ملک کو پانی کی کمی کے مسائل کا سامنا ہے اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز PCRWR کی ایک رپورٹ میں تو اس خدشہ کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا خطرہ ہے۔ مگر چونکہ ابھی2017 ہے اور 2025 میں نو سال باقی ہیں تو ہمیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ جب 2025 آئے گا دیکھا جائے گا۔ ابھی ہماری ترجیح اورنج لائن ٹرین، موٹر وے ، میٹرو اور سی پیک ہیں ۔ ہمیں اس بات کی قطعی پروا نہیں کہ پانی کے بغیر انہیں استعمال کرنے کے لئے انسان ہی نہیں بچیں گے۔
1951 میں ہر فرد کے لئے دستیاب پانی کی سطح 5260 کیوبک میٹر تھی جو کہ2010 میں کم ہو کر 1032 کیوبک میٹر رہ گئی ۔ بین الاقومی معیار کے مطابق ہر فرد کو 1000 کیوبک میٹرپانی کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان میں یہ سطح 2020 تک محض 877 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔ زیر زمین پانی کی سطح میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے ،محکمہ آبپاشی پنجاب کے مطابق 20 سال قبل 20 سے 40 فٹ کھودائی پر پانی دستیاب ہوتا تھا، اب یہ سطح 800 فٹ پر پہنچ چکی ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کی کم سے کم پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 120 دن ہونی چاہیئے۔ جبکہ پاکستان کے پاس یہ صلاحیت صرف 30 دن تک محدود ہے۔
دوسری طرف یو این ڈی پی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے لا پروائی جاری رکھی تو آئندہ چند برسوں میں یہاں پانی کی قلت بحران کی شکل اختیار کر جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے اب تک دریائے سندھ میں سرحد پار سے آنے والے پانی کا مناس انداز کا تحقیقی مطالعہ نہیں کیا اور وہ بھارت سے آنے والے پانی کے حوالے سے اپنا مقدمہ ورلڈ بینک کے پاس لے جانے میں مسلسل تاخیر کر رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباََ 31 ملین ایکڑ فٹ قابل استعمال پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے ۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اگر ہم اپنے پانی کو استعمال نہیں کرتے تو بھارت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس پانی کو اپنی ضرورت کے لئے استعمال کرے۔
پاکستان میں پانی کی قلت کی بڑی وجوہات میں منصوبہ بندی کا نہ ہونا، آبادی میں تیزی سے اضافہ، ماحولیاتی تبدیلیاں، شہر کاری، آبپاشی کا ناقص نظام اہم ہیں۔ مگر بنیادی وجہ ہمارا غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ 2013 میں ڈرافٹ کی جانے والی واٹر پالیسی تاحال منظور نہیں کی جا سکی۔ جب پالیسی کی منظوری میں ہی سنجیدگی نہیں توعملدرآمد کی امید رکھنا بے کار ہے۔ اسی طرح ویژن 2025 کے مطابق ہمیں بین الاقوامی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو 2018 تک 45 دن تک، جبکہ 2025 تک نوے دن تک لے جانا تھا۔ مگر سرکاری ذرائع کے مطابق تاحال اس پر پیش رفت نہیں ہو سکی، جس کی ایک بڑی وجہ دیامیر بھاشا ڈیم پر فنڈز کی عدم دستیابی ہے۔
کالا باغ ڈیم پر اختلاف رائے شاید ہم علاقائی اور لسانی مسائل کی وجہ سے دور نہیں کر سکتے، اب تو ہم نے کوشش کرنی بھی چھوڑ دی ہے۔ہماری سب سے بڑی امید دیامیر بھاشا ڈیم ہے، جس کی تکمیل فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث تاخیر کا شکارہے۔ ہمارے پاس اس منصوبے کا کوئی متبادل موجود نہیں۔ اگر یہ ڈیم نہیں بن پاتا تو ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟
بڑے ڈیم ہم بنا نہیں پائے مگر ہم چھوٹے ڈیم بنانے، پانی کو ضائع ہونے سے بچانے، نہری نظام کی بہتری، زرعی اصلاحات کی منصوبہ بندی تو کر سکتے تھے۔ ہم عوام کو یہ تعلیم تو دے سکتے تھے کہ پانی ایک نعمت ہے اور اسے سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے۔ مگر جس ملک کے سیاستدان صوبوں میں پانی کی تقسیم کے مسائل کو احسن طریقے سے حل نہ کر پائیں اور ہر مسئلہ کو علاقائی اور لسانی رنگ دے دیں وہاں بہتری کی امید رکھنا بے کار ہے۔
ہم بھارت اور افغانستان سے اپنے پانی کے حق کی جنگ کیسے لڑیں گے، جب ہم اپنے ملک میں پانی کے مسئلہ پر صوبوں میں اختلافات دور نہیں کر سکے۔ ہم پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کی منصوبہ بندی کیسے کریں گے جب ہمارے سیاستدانوں کے پاس سب سے اہم کام سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کر اپنے لیڈر کا دفاع کرنا ہو، اس بات کی فکر کسے ہو گی کہ ہمارے ملک میں پانی ختم ہو رہا ہے۔
ہم پالیسی اور عمل کی سطح پر صرف “آج” میں زندہ ہیں اور ہمارا آج اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ کس نے کس کے بارے میں کیا کہا! صبح سے شام تک ہماری ٹی وی سکرین پر یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے اور اگلے دن کے اخباروں میں یہی ہیڈلائن کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اور اس سب شور کے بیچ ہم آہستہ آہستہ اجتماعی موت کی طرف جا رہے ہیں۔ میں اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور عدم برداشت دیکھتا ہوں تو اس خوف میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ ہم اپنے بچوں کے لئے کیسا معاشرہ چھوڑ کر جائیں گے۔ مگر ہم تو شاید اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو اپنے بچوں کے لئے زندگی بھی نہیں چھوڑ پائیں گے۔
(بشکریہ مصنف اور روزنامہ جنگ)