اخوند آف پاکستان (از، ایڈورڈ لئیر کے جواب میں) پاکستان کے اخوند؟
از، نصیر احمد
لمبے تڑنگے گورے چٹے ہیں، اکڑوں نہیں کرسی پر بیٹھتے ہیں،کرسی پر بیٹھے جانے کیا کرتے ہیں، جینے کا حکم دیتے ہیں تو لوگ مرتے ہیں۔
پاکستان کے اخوند
ابھی تو جوان ہیں، ابلہ نہیں دانا ہیں، چائے ٹھنڈی کر کے پرچ میں پیتے ہیں، ذاتی جہاز میں بیٹھے ٹوپیاں سیتے ہیں، پچھڑوں میں بانٹیں گے، اپنے لیے نہیں، تیرے لیے جیتے ہیں۔
پاکستان کے اخوند
نہ گاتے ہیں، نہ بکتے ہیں، وہ تو بات کرتے ہیں۔ کسی نہ کبھی سرپٹ نہیں دیکھے، نہ وہ دلکی چلتے ہیں۔ شیر کی طرح دوڑتے ہیں۔ حضور والا کچھ کام بھی ہو جائے، سنا ہے منتری ان کے پاؤں پڑتے ہیں۔ ہاتھ جوڑ کر ایسے کہتے ہیں۔ لیکن وہ دوڑتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے اخوند
پہنتے نہ ٹوپی ہیں، نہ پگڑی، نہ قراقلی، عقال باندھ کر جاگتے ہیں۔ سونے کے لیے نہ چارپائی ہے، نہ چٹائی، نہ بستر نہ گدا، لیکن جب کوئی مندوب آئے، تو مسجد کی سیڑھیوں پر لیٹ کر اسے استغنا سے تاکتے ہیں۔ اور اس بے چارے پر کبھی گرجتے ہیں کبھی برستے ہیں۔ پیسے دے، دیتا کیوں نہیں؟
پاکستان کے اخوند
لکھیں ان کے دشمن۔ سطروں اور نکتوں کے لیے وہ کب بنے ہیں۔ وہ تو بس خطبہ دیتے ہیں۔ جس میں ان کے سب دشمن… کے جنے ہیں۔
پاکستان کے اخوند
وہ اور پاسخ مکتوب؟ چہرے مگر تندی کے معتوب کہ گفتگو کشائش کا عقدہ مشکل۔ لیلا در صحرا مجنوں در محمل۔ سونے کا چمچہ، جس کے لیے تم مری جا رہی ہے، ان کے لیے زہرِ ہلاہل۔ مگر اسے چھوڑتے بھی نہیں۔
پاکستان کے اخوند
کیسے باغی؟ کیسی سازش؟ کیسی یورش؟ ان کی رعیت یہ سب جانتی نہیں۔ حکم مگر ان کا ایک بھی مانتی نہیں۔ اخوند مگر ایک دن میں ڈیڑھ سو فرمان دیتے ہیں۔ جن پر عمل نہیں ہوتا۔ لوگ لیکن ان پر جان دیتے ہیں۔
پاکستان کے اخوند
بوڑھی مافیا کو پکڑتے ہیں۔ نہ پھانسی دیتے ہیں، نہ گولی مارتے ہیں۔ بس کچھ دن اکڑتے ہیں۔ پھر چھوڑ دیتے ہیں۔ چھوڑ کر پچھتاتے ہیں اور سپنوں ہی سپنوں میں ان کی ہڈیاں توڑ دیتے ہیں۔
پاکستان کے اخوند
کیسی تنگ گلی؟ کیسی بند گلی؟ وہ پارک کے خوش خرام ہیں۔ کیسی شب سیاہ؟ کیسا دل تباہ؟ انھوں نے دن روک لیا ہے؟ رکے ہوئے دن میں ہنسی ہی ہنسی۔ کیسے آنسو ؟ کیسی آہ؟ زندگی ھاھا، مرگ ھاھا۔
پاکستان کے اخوند
رعیت کا مطالعہ؟ پَگلاء تو نہیں گئے، رائے عامہ کی فکر؟ وہ تو محتسب ہیں۔ ان باتوں کی انھیں کیوں ہو پروا، وہ تو منتخب ہیں۔ ذرا چھیڑ کر دیکھو، پھر اپنی ہی فکر کرو گے۔ پچھواڑے پر ہاتھ رکھے، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، خانہ بہ خانہ، دے جا سخیا راہ خدا کہتے پھرو گے۔
پاکستان کے اخوند
کیسی تم کرتے ہو شکایت؟ راتوں کو پچھتا کر وہ کیوں چیخیں؟ تم کس لیے ہو، وہ کچھ کیوں سیکھیں۔ جاؤ کڑاہی گوشت لاؤ کہ دل پر ہر داغ ہے بَہ جز داغِ ندامت۔
پاکستان کے اخوند
وہ شال کیوں پہنیں؟ شلجم کیوں کھائیں؟ قہوہ کیوں پئیں؟ لندن سے پلٹے ہیں، جیسے وہ چاہیں ایسے وہ جئیں، تم کو اس سے کیا؟
پاکستان کے اخوند
کشتی میں نہیں چھول داری میں لیٹتے ہیں۔ خاتون دور اُفتادہ نہیں، شیر ہیں وہ شیر۔ چپ کر جاو، ورنہ ابھی ان کے حامی تمھیں پیٹتے ہیں۔
پاکستان کے اخوند
ان کی نگاہوں میں اگر سمندر بپھرا نہیں تو جینے کا مزا نہیں۔ دھرتی کی سہانی مخمل ہے، پھر غاروں میں کیوں سوئیں؟ محل میں سوتے ہیں خطروں کے کھلاڑی، کام کے اناڑی
پاکستان کے اخوند
نہ پیالہ، نہ صراحی، نہ گلاس ، نہ ڈونگا نہ مگ۔ پانی چلو میں پیتے ہیں، جھٹا جھٹ، فٹا فٹ، غٹا غٹ۔ فطرت کے مقاصد کے نگہبان ہیں۔ مرگ اگر مقصد فطرت ہے تو راہ فطرت میں حائل ہونا حماقت ہے۔ فطرت کے سنگ جیتے ہیں۔
پاکستان کے اخوند
کیسی ٹائی؟ کیسا سُوٹ؟ انگریز دیکھتے ہی چیں چیں کرتی جوتیاں اور پہن لیتے ہیں شلوار قمیص۔
پاکستان کے اخوند
وہ کیوں کھائیں سری پائے؟ اور ڈھلتے سورج پر لکھیں غزلیں؟ ہوا کو باؤلنگ کرنا جو آتا ہے۔
پاکستان کے اخوند
اب بھی اگر تم سمجھے نہیں کہ کون ہیں کیا ہیں کیسے ہیں اپنے اخوند؟ تو بھاڑ میں جاؤ اے فرزند۔
پاکستان کے اخوند