قوم کی قسمت نہ بدلی تو وجہ اپوزیشن ہو گی
از، معصوم رضوی
امریکہ، ایران کشیدگی، عراق میں عدم استحکام اور نائجیریا کی خانہ جنگی کے پیچھے گزشتہ حکومتوں کا ہاتھ ہے، میں حلف اٹھانے پر تیار ہوں کہ جو عالمی مسائل مستقبل قریب اور دور پیش آئیں گے اس کا سبب بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی نا اہلی ہو گی۔ آپ میری بات نہ مانیں مگر دیکھ لیجیے گا کہ یورپ میں بریگزٹ، افریقہ میں ایبولا وائرس، گلوبل وارمنگ، وکی لیکس، ایلزیبتھ ٹیلر کی طلاقوں اور می ٹو مہم کے پیچھے بھی یہی عُناصر نکلیں گے۔
آٹا مہنگا ہوا تو روٹی کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ، تندوری نان اب دس کے بَہ جائے پندرہ روپے کا ملے گا، چینی پہلے ہی مہنگی ہو چکی ہے سو اب بیکری آئٹمز اڑان کے لیے تیار ہیں۔ گیس مہنگی ہوئی پکوان مہنگے ہو گئے، سی این جی اور پیٹرول کی قیمت بڑھی تو اناج، سبزی، گوشت، پھل، گھی، تیل سب مہنگا ہو گیا، ڈالر کی قیمت بڑھی تو کاریں 4 سے 5 لاکھ مہنگی ہو گئیں، ادویات کی قیمتیں آسمان پہلے ہی تمام حدیں پار کر چکی ہیں۔
بھائی یہ سب فضا بنائی جا رہی ہے نیک نیت حکومت کے خلاف، وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور اپنے شبر بھائی تو کھل کر چیلنج کرتے ہیں ایک بھی ٹیکس لگایا ہو تو بتائیں؟ اس سے پہلے حکومتیں عوام کو لوٹا کرتی تھیں مگر نئے پاکستان میں ایسا ممکن نہیں، جب دیانت دار حکومت کہہ رہی ہے کہ مہنگائی صرف اور صرف حکومت کے خلاف سیاسی پروپیگنڈہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ یقین نہ کیا جائے۔ بھائی سچی بات ہے یہ سب نئے پاکستان کے خلاف سازش ہے۔
آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے ڈالر کے ڈھیر منگوائے مگر پھر بھی ڈالر ہے کہ مہنگا ہوتا جا رہا ہے، تاجر پیسہ روکے بیٹھے ہیں، جائیداد کی قیمتیں گرتی جا رہی ہیں، سیاسی سازش اور کیا۔
وزیر اعظم فرماتے ہیں بائیس کروڑ میں سے صرف ایک فی صد پاکستانی ٹیکس ادا کرتے ہیں، خدا کی پناہ، کیسا ظلم ہے یعنی بائیس لاکھ افراد، بائیس کروڑ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، استغفر اللہ، حضور یہ ہے گزشتہ حکومتوں کی کار کردگی، یہ ہے وہ ٹیکس ٹریل جس نے ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
قومیں ایسے نہیں بنا کرتیں، بھائی قربانی تو دینی ہو گی، مستقبل کا سوال ہے؟ تجویز ہے کہ افسانہ نگار اور شاعروں پر فی لفظ، مصوروں پر خیال اور صحافیوں کی سوچ پر ٹیکس ضروری ہے، موسیقی میں سر تال اور گلو کاروں کے انترے، مکھڑے پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔
دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملا کرتی، زندہ قومیں یہ حقیقت بَہ خوبی جانتی ہیں، دھوپ، چاندنی اور بارش مفت تو نہیں مل سکتی، میں تو کہتا ہوں کے گہری سانسوں، جمائیوں اور انگڑائیوں کی عیاشی پر بھی ٹیکس واجب ہے۔
بھائی اب کیا کہا جائے گزشتہ حکومتیں اندھیرے کے افادیت سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھیں، خدا کی قسم لوڈ شیڈنگ پر سیلز ٹیکس لگائیں لوگ بجلی بھول جائیں گے۔ اشرافیہ پر نہیں لگ سکتا تو غربت پر ٹیکس لگایا جائے، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھا جا سکتا ملک و قوم کا مستقبل ایسے تو نہیں سنورتا۔ سگنل پر بھیک مانگتے فقیر، گاڑیوں کا شیشہ صاف کرتے بچے، ریڑھی پر پھل سبزی بیچنے والے ٹیکس نیٹ میں شان دار اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
سائیکل اور موٹر سائیکل پنکچر، سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لیے ترستے بچوں اور سڑکوں پر مفت لنگر بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہو سکتے ہیں، مریضوں پر مرض کی نوعیت کے اعتبار سے محصول عائد کیا جا سکتا ہے۔ سرکار کی بنائی سڑکوں پر لاکھوں لوگ پیدل چلتے ہیں، ہر قدم پر ایک پیسہ ٹیکس کچھ زیادہ تو نہیں، درخت کم ہیں مگر گرمی میں ٹھنڈی ٹھار چھاؤں میں لوگ مفت اینڈتے ہیں۔
وطن عزیز میں بے شمار کچے مکان اور جھگیاں اب تک بنا ٹیکس عشروں سے قائم ہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں جہالت کی اکثریت ہے، معاشی تقاضا ہے کہ جہلاء کو بھی معاشی ترقی میں کردار عطا ہو، گزشتہ حکومتوں کی کوتاہی ہے کہ اکثریتِ عظیم کو جائز حق سے محروم رکھا مگر اب نئے پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا۔
بھئی کہتے ہیں ناں کہ شکل اچھی نہ ہو تو بات تو اچھی کرو، بس کیا بتاؤں گزشتہ حکومتیں لکیر کی فقیر رہیں۔ بھلا کیا بات ہوئی لیوی ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس، ویلتھ اور پراپرٹی ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، تعلیمی ٹیکس، سیلاب ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کیسی بے ہودہ اور لَغو تراکیب ہیں۔
ذرا تخلیقی ذھن استعمال کریں غریب پر دولتانہ لگائیں گے تو خود کو امیر جان کر کتنا خوش ہو گا، اسی طرح جاہل پر عالمانہ محصول لگے تو پھولوں نہیں سمائے گا، دھوپ کے لیے آفتابہ اور چاندنی کے لیے مہتابہ محصول کیسے جاذب اور پُر کشش لگتے ہیں، نئے پاکستان میں عزت نفس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
انصاف کا حصول مشکل تو نا انصافی پر ٹیکس لگنا چاہیے، کرپشن کینسر ہے لیکن اگر کوشش کے با وجود یہ ختم نہ ہو تو کرپشن پر 40 سے 50 فیصد ایمنسٹی دی جا سکتی ہے، بار بار کرپشن کرنے پر 25 فیصد رعایتی پیشکش بھی خوب رہے گی۔ سخت اور مشکل فیصلے تو کرنے ہوں گے۔
ارے بھائی، معاف کیجیے گا بھول گیا اپوزیشن کا کام صرف اور صرف مخالفت، حزب اختلاف کی بیانات، ٹوئٹر اور فیس بک پر اختلافی محصول اور سیاسی جگتوں پر دو گنا جگتانہ عائد ہونا چاہیے، جلسے، جلوسوں پر فی کار کن ٹیکس لگائیں، لگ پتا چل جائے گا کون کتنا مقبول ہے۔
وزیر اعظم اٹھارہ سال برطانیہ میں رہے ہیں جمہوری اقدار اور اخلاقی معیار ان سے بہتر کون جان سکتا ہے، مگر یہ دیسی اپوزیشن کیا جانے۔ اب بتائیے کہتے ہیں ٹرین حادثات پر وزیر ریلوے مستعفیٰ ہو جائیں، عمران خان گزشتہ حکومتوں سے یہی مطالبے کرتے تھے، لو جی کر لو گل، یہ سب گزشتہ حکومتوں کی تو سازش ہے۔
سعد رفیق کے دور میں حادثات کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا گیا، اب شیخ رشید جیسا بیبا وزیر خود تو ٹرین نہیں چلا سکتا ناں، ایک سال میں 79 حادثات ہو گئے تو شیخ جی کیا کریں۔ بے قدرے نہیں جانتے کہ ایسا غازی گفتار چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔
ویسے بھی آج کل اپوزیشن آڈیو وڈیو کھیل رہی ہے اور اخلاقیات سے عاری میڈیا دھڑادھڑ پیٹ رہا ہے، اداروں کا تقدس اور احترام بھی کوئی چیز ہے، کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، برطانیہ میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ کا اونٹ کا تو پہلے ہی خیمہ زن ہے اب منافع خور تاجر ہڑتالوں پر تلے بیٹھے ہیں۔
ابھی رمضان میں تین گنا منافع کمانے والے حاجی صاحبان عوام کے غم میں گھلے جا رہے ہیں، کیا حکومت نے تقدس رمضان میں ان کا ہاتھ روکا، بھائی سمجھیں یہ سب اپوزیشن کی سازش ہے۔ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ پہلے ٹیکس کرپشن کی نذر ہوا کرتا تھا اس لیے لوگ گزشتہ حکومتوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے، مجھے لگتا ہے تاجر برادری خبروں سے دور رہتی ہے ان کو شاید ابھی تک پتا نہیں چلا کہ نہ صرف حکومت بدل چکی ہے وزرا ایسے صادق اور امین کہ باسٹھ، تریسٹھ کی چھلنی سے بار بار بے دھڑک گزرا کرتے ہیں، بس انہیں بتانے کی دیر ہے کہ تبدیلی آ چکی، مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہو جائے گا۔
ویسے آپس کی بات ہے وزیر اعظم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، حکومت بہت کچھ کرنا چاہتی ہے مگر سب سے بڑا مسئلہ گزشتہ حکومتیں اور حاضر اپوزیشن ہے۔ پھر نہ کہیے گا پہلے کیوں نہیں بتایا، چار سال بعد بھی اگر تبدیلی نہ آئی، قوم کی قسمت نہ بدلی تو اس کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ حکومتیں اور اپوزیشن ہو گی۔