سکول میں ایک دن (دوسری قسط)
از، نصیر احمد
اور کھیل ہی تو ہماری اصل تعلیم تھی اور ہم لوگوں میں سے اکثر کو کھیل سے دلچسپی بھی تھی اور جو پڑھائی میں لائق تھے، ان میں سے بہت کم اچھے کھلاڑی تھے۔ یہ دلچسپی تو ہونا ہی تھی کہ پڑھائی میں بوریت اور تکلیف تھی اور کھیل میں لطف اور خوشی۔ سب سے اہم وجہ ہمارے خیال میں معاملات میں شرکت تھی اور اس شرکت سے بہت سارے امکانات جڑے تھے۔
سوچنے ،سمجھنے، منصوبہ سازی، مسائل کے حل کرنے، کام کرنے، سیکھنے، سیکھ کر آزمانے، آزما کر بہتر بنانے، بہتر بنا کر شاندار کرنے، دوسروں کو سمجھنے، ان کو کسی مقصد کے لیے استعمال کرنے، فرد اور گروہ کے درمیان انصاف کرنے، جیتنے، ہارنے، نئے خیالات کو اپنانے، پرانے خیالات کو مسترد کرنے،بے ایمانی کرنے، ایمانداری کرنے اور جسم کا خیال رکھنے اور جسم کو آزمانے کے امکانات۔
کھیل کے سلسلے میں ہم لوگوں سے بڑے کالجی لڑکوں اور ٹیلی وژن سے بھی ہم لوگ بہت رہنمائی لیا کرتے تھے۔ اور اچھے کھلاڑیوں سے ہماری ایک جذباتی وابستگی بھی ہوتی تھی۔ کرکٹ اور فٹبال جیسے کھیل ہماری نفسیاتی، سماجی، جسمانی اور سیاسی تربیت کے لیے بہت سازگار تھے۔
تعلیم کے باب میں یہی ایک خزینہ معرفت تھا جس کی ہم لوگوں کے اساتذہ اور والدین اکثر مخالفت کیا کرتے تھے۔ یہ کھیلیں کھیلتے ہم جاہل سے طالب علم اچانک ہی بہت بڑے آدمی بن جاتے تھے۔ فلسفی، سیاستدان، سائنسدان، منصوبہ کار، سازشی، سیاستدان، اہم افراد اور ایک اہم گروہ بھی۔ اور ان کھیلوں میں بھی ہمارے معاشرے کی اچھائیاں برائیاں شامل ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی میچ فکسنگ کی بھی کوششیں ہوتی تھیں۔
‘بھائی آج آپ لوگ یہ میچ بری طرح ہار جائیں۔ اگر آپ ہارے تو مجھے سکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا دیں گے۔
اور بھائی سلیجنگ سے لے کر شرح و اوسط ہر قسم کی بے ایمانی کیا کرتے تھے لیکن اس دن انھیں جانے کیا ہوا کہ مجسم ایمانداری بن گئے اور ہم کپتانی کی خواہش کو بارہا باؤنڈری پار کرتے دیکھتے رہے۔ لیکن اس کے بعد میچ فکسنگ کے ایسے مخالف ہوئے کہ کبھی کبھی ایمانداری کے جوش میں اپنی ہی ٹیم کو ہرا دیتے تھے۔
تفریح میں کچھ ٹولیاں مقامی زبان میں بیت خوانی میں بھی گم رہتی تھیں۔یہ بیت خوانی ایرانی اثرات اور یونانی ذوق اور مقامی سادگی کا ایک اعلی آمیزہ ہوتی تھی۔ ع عاشق نے قبر وچ آہ لتی، لوکی کہندے بھجل ہویا کہ یہ زلزلہ یا بھونچال در اصل عاشق کی آہ و فغاں ہے۔
ابھی تک زلزلوں کے سلسلے میں عشاق کرام اور قہر خداوندی اہم ہیں۔ کہ یہ جو ہزاروں لاکھوں لوگ سیلاب میں مرتے ہیں اس کا کارن ابھی تک یروشلیم کی بیٹیوں کی بدکاری ہے۔ ابھی تک یہی سمجھا جاتا ہے کہ انسانی ترقی کے ابتدائی مراحل ابھی تک انسانی تنزلی کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔
اور جب تک یہ فطرت عقدہ و معمہ رہے گی، شاید تب تک یہ اسباب موجود رہیں گے۔
چلیں تفریح ختم ہوئی۔ اب کیمیا کی باری ہے۔ اس کلاس میں ایسی اردوئے معلی بولی جاتی تھی۔
‘سر جی اس نے میری نویاں پنسلاں کڈھ لی ہیں’
کیمیا کے تجربات کے لیے ایک تجربہ گاہ بھی موجود تھی۔
‘خبردار تجربہ گاہ کے پاس نہیں جانا، کچھ ٹوٹ ووٹ گیا تو تم لوگوں کی خیر نہیں’ جب تجربے کے ساتھ خوف متعلق کریں گے تو ظاہر ہے تجربہ تو کم ہی ہو گا اور تبصرے ختم ہونے میں ہی نہیں آئیں گے۔ یہی ہم لوگوں کے ساتھ ہوا۔ ہم بہت بڑے تبصرہ گو، تبصرہ ساز، تبصرہ نگار بن گئے لیکن کام کی بات کبھی بھی پلے نہیں پڑی۔
‘یہ جو حکیم نطشہ کا فوق البشر ہے یہ کائنات کی کائناتی صداقت کی آرزو کو مہمیز کرنے والے کن فیکون کا ایک معمولی سا پر تو ہے۔’
اف فوہ یہ کیا کرڈالا، تم تو بالکل ہی احمق ہو، بھلا پلاسٹک کی بالٹی میں پانی کون گرم کرتا ہے؟
کیمیا کی طرف لوٹتے ہیں۔
ذرا یہ تو بتاؤ یہ بھاری پانی کیا ہوتا ہے؟
سر جی، در اصل فی الحقیقت یہ جو بھاری پانی ہوتا ہے یہ ٹھوس گیسوں کی مائع شکل ( ہے(اجی آپ تو ہنس پڑے، روزانہ اخباروں میں اسی قسم کی احمقانہ باتیں بڑی سنجیدگی سے پڑھتے ہیں اور رنجیدہ ہوتے رہتے ہیں، بس ایک ہماری حماقتیں آپ کو نہیں بھاتی)
یہ آپ کی اپنی تحقیق ہے؟
نہیں سر جی، کتاب میں لکھا ہے؟
یہ دیکھو کتاب میں میں تو نہیں لکھا ہے
وہی تو میں کہہ رہا ہوں
ہاتھ باہر نکالو اور پھر وہی سزا کے مرحلے سے گزرنا اور دیر تک ہاتھ مسلتے رہنا۔ کیمیا کے ہمارے یہ استاد بڑے شریف اور مہذب تھے لیکن وہ جیسے ہمارے علاقے میں کہتے ہیں کہ غصے کے بڑے کتے تھے۔ ایک دفعہ کسی نے ان کی قمیص پر سیاہی الٹ دی۔ ان کی نظر پڑ گئی اور وہ اگلے تین دن تک گالیاں بکتے رہے تھے جو اس قدر ناگفتنی ہیں کہ ہماری بھی ہمت نہیں پڑتی انھیں درج کریں۔
کبھی کبھی برطانیہ عظیم میں ہم اپنی ابتدائی تعلیم کے تجربات اپنے دوستوں کو بتاتے تھے۔تو ان کے چہروں پہ لکھا ہوتا تھا کہ حیران ہوں کہ دل کوروووں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ ان کی تعلیم کی بات ہی اور تھی، بہت ساری محبت، بہت ساری شفقت، بہت ساری عزت۔ پھر دماغی نفسیاتی اور جسمانی صحت کا خیال اور معاملات میں بھرپور شرکت۔
ہم والہ و شیدا و حیران ہو کر خوش سے ہو جاتے تھے کہ چلیں کوئی تو ہے جسے اچھا سودا دستیاب ہے۔ لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ کن لوگوں کو منتخب کر رہے ہیں تو وہ ساری محبت، عزت اور شفقت اک سراب سا لگنے لگتی ہے۔ یا پھر سبک روی اور تیز گوئی کے ہنگام میں محبت، عزت اور شفقت کے معیار میں کوئی بہت بڑی خامی رہ گئی تھی۔ وہ خامی بھی کچھ سمجھ آتی ہے کہ یہاں ہماری انسانیت کا انکار ہمارے ساتھ حیوانوں والا سلوک کر کے کیا جاتا تھا اور وہ لوگ اپنے معاشرے کے لیے جیتے جاگتے وجود ہونے کے باوجود قابل فروخت شے کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔
جب قابل فروخت شے کو مالی نقصانات کا خوف لاحق ہوا تو محبت، شفقت، عزت اور انسانیت اپنا حسن کھونے لگے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ بھی قابل فروخت شے سے انسانیت کی طرف واپس آجائیں اور ہم بھی اپنی ایذا پرست ثقافت کے چنگل سے آزاد ہوں۔
اسلامیات کےاستاد صاحب یوں گویا ہوئے او شیعو، اسلامیات کی یہ کتاب تمھارے لیے ایک آئینہ ہے۔ خود دیکھ لو لکھا ہے کہ مسلمان خانہ خدا میں نماز ادا کرنے سے خوفزدہ رہتے تھے مگر جب فاروق اعظم نے اسلام قبول کیا تو کہا چلو خانہ خدا میں نماز پڑھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کون مائی کا لعل ہمیں روکتا ہے؟
سر جی ایسے ہی انھوں نے کہا تھا؟
اور کیسے ؟ ایسے ہی کہا ہو گا ناں
لیکن اس سکول میں اسلامیات کی کلاس پارسائی اور خوف میں رچا ہوا ایک المیہ تھی۔ اعراب و تلفظ کی اغلاط پارسائی کو تشدد کی آزادی عطا کرتی تھیں۔اور یہ تشدد کی آزادی خوف فزوں کرتی رہتی تھی۔
خوف اور تشدد کے ماحول میں علم، تعلیم اور تربیت جیسے مقاصد کھڑکیوں سے کودتے تھے ، ڈیسک پھلانگتے تھے اور دروازے توڑتے تھے۔ لیکن ہم لوگ کچھ سمجھے بوجھے بغیر آموختہ دہراتے رہتے تھے کہ کافروں اور نافرمانوں کے لیے جہنم کی اذیت ہے۔ کیوں ہے؟ پٹتے ہوئے جانورسوال اٹھانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔
لیکن ہم لوگ انسان ہی تھے، سوالوں کا گلا تو گھونٹ دیتے تھے اور سوال پوچھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے تھے لیکن ہنس تو سکتے تھے۔
کھڑکھڑانے والی۔ تمھیں کیا معلوم کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟
یار یہ قیامت تو تمھاری غصیلی خالہ کی طرح ہے؟
کئی باتیں دل کو بھی لگتی تھیں کہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ لیکن ذات پات کے حوالے سے تعصبات ہمارا معمول تھے۔ گہری سے گہری دوستی بھی ہوئی، جیسے ہی کوئی بات بگڑی۔ یہی کچھ کہا جاتا تھا۔ موچی کے موچی رہے، تم لوگوں کی ذات ہی یہی ہے،احسان فراموشی کے علاوہ تم کر ہی کیا سکتے تھے۔
ہمارے ہاں بڑی بڑی جاگیروں کی کمی کی وجہ سے ذات پات کے حوالے سے پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت ظلم و ستم کم تھا مگر وہ برطانوی نو آبادیات نظام کا دیا ہوا جنگجو نسلوں کا غرور مو جود تھا۔ ذات پات تو قدیم ہندوستان کے وقت سے ستم کاری کی ایک بڑی وجہ تھے۔ ازمنہ وسطی کے مسلمان اور ہندو حکمرانوں نے بھی اسے قائم رکھا اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے برطانویوں نے اسے جدید علوم کے پہناوے پہنا دیے تھے۔
ہم لوگ بھی اپنے محدود تجربات کو کائناتی اصول بنا لیتے تھے۔ ہمارے سکول کے دنوں میں جنرل ضیا کی جعلی دینداری کی تبلیغ عروج پر تھی لیکن پیپلز پارٹی اس وقت زندہ تھی اس وجہ سے ہم لوگوں کی اکثریت جماعت اسلامی کو جماعت شیطانی ہی سمجھتی تھی اور ملاؤں کو مولوی نزیر احمد کے باغی کرداروں کی طرح ٹکڑ گدے اور بھک منگے ہی جانتی تھی۔
نالائق ہونے کے بھی فائدے تھے اور دینی تعلیم میں تشدد کی موجودی کی وجہ سے ہم میں سے کچھ کی ہمدردیاں کافروں کے ساتھ بھی تھیں۔ پھر دیہاتی ہونے کے بھی فائدے تھے کہ کبھی مذہب کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا تو کبھی کبھار جھڑکی مل گئی، زیادہ تر لوگ ہنس ہی دیتے تھے۔ کہ ان میں سے اکثر کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا کہتے ہی رہتے تھے۔ذرا بارش نہ ہوئی تو شان کریمی سے شکوے شروع کردیے۔ زیادہ بارش ہو گئی تب بھی شان کریمی سے مقامی انداز میں گلے شروع کر دیے۔روزے کے درمیان پیاس لگی، کوئی حادثہ ہوا، اے خدا تم ہمارے نواسے کو صحت نہیں عطا کرتے۔، کیسے خدا ہو، اتنا سا کام تو تم سے ہوتا نہیں۔ یہ لیجیے، اپنا روزہ اپنے پاس ہی رکھیے اور غٹاغٹ پانی کا کٹورا چڑھا گئے۔
پھر مذہب کے حوالے سے بہت ساری بچگانہ قافیہ بندی ہم لوگوں سے پہلے ہی جاری تھی۔ اس طرح کے بہت سارے لطائف، کثائف اور خبائث ہمارے ہاں مروج تھے جن کے باعث ہم سے بہت سارے ابھی تک اس مذہبی شدت پرستی سے محفوظ رہ گئے جو مکمل اطاعت اور قتل و غارت کے نذرانے ہر وقت مانگتی ہے اور معصوموں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ لیکن سب سے اہم وجہ ہمارے خیال میں پرانی پیپلز پارٹی تھی کہ وہ آمریت کے خلاف مسلسل احتجاج کرتی تھی اور آمریت نے مذہب کے جبے، خرقے، عمامے اور دستاریں اوڑھی ہوئی تھیں لیکن پیپلز پارٹی کی وجہ سے اسے مقبولیت میسر نہ تھی۔
پارسائی کے سارے دعوؤں کی پیپلز پارٹی والے قلعی کھول دیتے تھے۔ پھر میدان صاف ہونا شروع ہوا اور صاف بھی ہو گیا اور اب تو ہر طرف دینداری اور پارسائی کے چرچے ہیں۔ ہر ظلم ہمہ دم با وضو رہتا ہے اور ہر زیادتی رنگ برنگی نقابوں میں چھپی رہتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے نام پر ہم بھی سکول اور کالج کے دنوں میں اس کے لیے نعرے لگاتے۔ اب راج کرے گی خلق خدا تاج اچھالے جائیں تخت گرائے جائیں گے ہم لوگ کیا راج کرتے، ابھی تک دل کی بات نہیں کہہ پاتے۔ زندگی کی بھیڑ میں اچھل اچھل کر گرتے رہے، گر گر کر اچھلتے رہے لیکن تاج اور تخت ایک نواحی گاؤں کے محل میں فضل ربی پہ شکر گزار ہیں اور شاید کرپشن کے حوالے سے امتیازی سلوک پر جائز طور پر شکوہ کناں بھی۔
لو جی ہم تو کہیں دور نکل آئے۔ خیر اسلامیات کے بعد فزکس کی کلاس ہوتی تھی۔ اس میں ہماری کچھ دلچسپی تھی اور جو پڑھاتے تھے ان کو پڑھانے میں دلچسپی تھی۔ لیکن تجربے سے یہ بھی ہٹی ہوئی تھی۔ اور سائنسی علوم تو تجربے سے ہی اپنے دعوے ثابت کرتے ہیں اور تجربے کی عدم موجودی اسے بھی اسلامیات کی مانند کر دیتی تھی، بس سر ہلاتے جاؤ اور کتاب میں جو لکھا ہے اسے دہراتے جاؤ۔ پھر ان استاد کی تبدیلی ہو گئی اور جو آئے وہ ہم لوگوں کے دوست بن گئے اور تعلیم کرکٹ اور کبڈی کے میچوں اور ان میچوں پر تبصروں کی شاندار وادیوں میں داخل ہو گئی۔
گھت اوئے، چھیکا گھت ( لگاؤ، چھکے لگاؤ) پکڑ اوئے پکڑ، اس کی نپ) ( پکڑو، اسے پکڑو)۔ ایسے ہی یہ کلاس گزر جاتی تھی۔
اب ذرا نفرت گاہ جسے مطالعہ پاکستان کہتے ہیں اس کی بھی سیر کر لیں بنیادی پیغام کچھ اس طرح کا ہی ہوتا تھا۔ اقتدار اعلی ذات باری تعالی کا ہے اور دنیا کے سب لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں اور ہمیں بھی دنیا کے سب لوگوں سے نفرت کرنی چاہیے۔
لیکن ہمارے بگڑے ہوئے معاشرے میں بھی اس اجتماعی نفرت کا ہمیں کبھی بھی سامنا نہ ہوا تھا۔ عارضی طور پہ ہم لوگ بھی جوش میں آجاتے تھے لیکن عالمی کرکٹرز کو ہم پسند کرتے تھے، ہیڈلی، رچرڈز، مارشل، گواسکر، بوتھم، مارٹن کرو، ایلن بارڈر، میکڈرمٹ، جانٹی روڈز،عمران خان، وسیم اکرم، کپل دیو، کور ٹنی واش دلیپ مینڈس، ڈی سلوا اور نجانے کتنے۔ اسی طرح فٹبال میں میراڈونا، روماریو، بیکن بائر، روڈی ولر، روجر ملا، ھاجی اور بیگیو۔ ایسے میں ہم لوگوں کو کسی سے کیا نفرت ہوتی۔مختلف قسم کے لوگوں سے متعلق تجربات ویسے بھی نفرت کم کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ جب سے نفرت بڑھی ہے، کرکٹرز بھی یہاں کھیلنے نہیں آتے۔لیکن بنیادی بات وہی نفرت پر مبنی اس تعلیم کی ہمیں اتنی تفہیم ہی نہیں تھی۔ اس لیے نفرت کی ایک مستقل کیفیت بطور قومی فریضہ ہم لوگوں پہ طاری نہیں ہو سکی۔
اب حالات کافی مختلف ہو گئے ہیں۔نفرت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ قلاوزیے علمائے کرام ہو گئے ہیں۔ ہم کیا، ہمارے اشتراکی دوست بھی جعلی دینداری کی مخالفت کرنے سے پہلے دو چار معافیاں ضرور مانگتے ہیں اور پیپلز پارٹی والے بھی سر بسجود ہو گئے ہیں۔
ذرا یہ تو بتاؤ پہلی مردم شماری کب ہوئی تھی؟ 1901 میں، اور کب ہوتی؟ لو جی پھر ڈنڈے پڑ گئے۔ مردم شماری تو 1881 میں ہوئی تھی۔ سر جی یہ انگریز بھی ناں۔ ان کا کیا جاتا جو پہلی مردم شماری 1901 میں کرا دیتے۔ کم ازکم ہمیں تو ڈنڈے نہ پڑتے۔ پھر چھٹی ہو جاتی ہے۔
(جاری ہے)