کیا صرف مولوی کو گالی دینا ہی لبرل ہونا ہے؟
جمیل خان
میرا خیال ہے کہ ابھی ہمارے ہاں پروگریسیو سوچ کا ابلاغ شاید درست طریقے سے نہیں ہوسکا ہے۔ ہمارے ہاں صرف مولویوں کو گالیاں دینا ہی لبرل ہونا سمجھ لیا گیا ہے. میں اپنی کئی مضامین میں اس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ مجھے پشہ ور مولوی سے اتنی شکایت نہیں ہے کہ جتنی مجھے ان مولویوں سے شکایت ہے جو پڑھے لکھے کلین شیو ہیں اور اتنی روانی سے انگریزی بولتے ہیں، جتنی روانی سے ہم اردو نہیں بول پاتے۔
میں نے ایسے ماحول کو بھی دیکھا ہے جہاں مخلوط میل جول پاکستانی مڈل کلاس کے برعکس معیوب نہیں سمجھا جاتا اور بہت سی ایسی باتیں عام ہیں جن کا پاکستان کے عام معاشرے میں تصور بھی محال ہے۔
مجھے پاکستان کی اشرافیہ کو بھی پچھلے بیس سالوں کے دوران بہت نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا ہے. جس کی اکثریت ہماری لوئر کلاس سے کم پسماندہ نہیں. یہ لوگ صرف انگریزی فرفر بول سکتے ہیں. اس کے علاوہ ان کی فکری پسماندگی اور شعوری استعداد کی کمی کا حال اس مثال سے باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ اس طبقے کے بہت سے ماڈرن نوجوان جن کی زندگی کے معمولات اور جن کی فکر عام پاکستانیوں کی کی فکر اور زندگی سے یکسر مختلف اور آزاد ہے، ایک جگہ آپس میں یہ بات کر رہے تھے کہ ہیپی کرسمس کہنا جائز ہے یا نہیں. ایک ذرا ’’سمجھدار‘‘ نے یہ کہہ کر بحث ختم کی کہ کیا حرج ہے، ہم کون سا دل سے کہتے ہیںٕ.
میں تو یہ سمجھا ہوں کہ ہماری قوم کی اصلاح کا اب کوئی رستہ باقی نہیں رہا کہ تبدیلی کا راستہ صرف اشرافیہ اور پڑھے لکھے لوگ ہی بناتے ہیں اور ہمارے ہاں اس طبقے میں بڑی اکثریت انتہائی درجے کی کھوتی ہے، یا شاید انہیں گدھے سے مشابہہ بھی نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس میں گدھوں کی بے عزتی کا خدشہ ہے۔
اپر کلاس کے ایسے بہت سے لوگوں اور کسی ویلڈر یا دودھ دہی والے میں مجھے کوئی فرق نہیں محسوس ہوتا، مجھے تو دونوں کا شعور ایک ہی جیسا لگتا ہے. کیسا ملک ہے کہ ایک طرف اسی فیصد ایسے لوگ ہیں جو دن بھر محنت کرنے کے بعد بمشکل پانچ سو روپے کماتے ہیں، دوسری طرف پانچ سے پندرہ فیصد ایسے لوگ ہیں جو صرف ایک دن میں سگریٹ نوشی اور آنٹی نوشی پر اتنی ہی رقم خرچ کردیتے ہیں، جو ایک عام مزدور پورے مہینے میں بھی نہیں کما پاتا ہے۔
اشرافیہ طبقے کے اکثر نوجوان جو عام پاکستانی نوجوانوں کے برعکس شادی کے بغیر سیکس کے تجربات کرلیتے ہیں، ہر ویک اینڈ پر پارٹیوں میں ڈرنک کرتے ہیں، کچھ ڈرگز بھی لیتے ہیں، لیکن جب کوئی مصیبت یا پریشانی آجائے تو پریکٹیکلی سوچ اپنانے کے بجائے مصلّا بچھا دیتے ہیں۔
انہی لوگوں کی وجہ سے ہی معاشرے میں سدھار کا راستہ نہیں کھلتا ہے. میرے پاس اس بات کی دلیل یہ ہے کہ مڈل کلاس ہمیشہ اپر کلاس کی ہی پیروی کرتی ہے. جب کراچی میں شادی میں کھانا کھلانے پر پابندی تھی، تو میں نے اشرافیہ طبقے میں کبھی بھی اس پر عمل ہوتے نہیں دیکھا .چنانچہ مڈل کلاس کے حرام خور بھی پولیس کو پیسے کھلا کر اس پابندی کو توڑنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اور جو افورڈ نہیں کرسکتے تھے انہیں بھی ایسا رشتہ داروں یا بیٹی یا بیٹے کے سسرال والوں کے دباؤ کے نتیجے میں کرنا پڑتا تھا۔
لہٰذا ایک اچھی روایت ہمارے ہاں پنپ نہیں سکی.
بالکل اسی طرح اشرافیہ طبقے کی مذہب پرستی اور محدود سوچ ہے جو اس ملک سے تواہم پرستی کو ختم نہیں ہونے دیتی اور اسی طبقے کی حرام خوریاں ہی ملک کی اکثریت کو حرام خور بننے پر مجبور کرتی ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.