پاکستان میں لبرل ازم اور مذہب کی چپقلش کا کوئی جواز تو نہیں؟
از، نصیر احمد
کہتے ہیں کہ لبرل ازم تحلیل ہو جائے گا۔ جو بات علم اور معیار کی بہتری کی ضمانت ہے، وہی نہ رہے گی تو نقصان بڑھ جائے گا۔ نقصان بڑھا کر چند لوگوں کے لیے بے پناہ دولت اکٹھی ہو جاتی ہے، چند لوگ بہت زیادہ با اختیار ہو جاتے ہیں اور چند لوگوں کی انا کی بھی تشفی ہو جاتی ہے لیکن معیار پست ہوتے جاتے ہیں۔
جہاں تک لبرل ازم کے تحلیل ہونے کا تعلق ہے جب تک انسان رہیں گے علم کی آرزو بھی رہے گی اور معیار کی بہتری کی خواہش بھی۔ علم اور معیار کی بہتری کی احسن شکلوں کے لیے آزادی کی ضرورت ہے کیونکہ تخلیق کے لیے آزادی کی ضرورت ہے اور اگر شاندار قسم کے صوفے بھی درکار ہیں تو وہ بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کی تخلیقی آزادی کا نتیجہ ہیں۔ اور تخلیقی آزادی جمہوری نظام کے تحت ہی فزوں ہوتی ہے۔
آمریتوں میں بھی یوری گاگرین چاند پر پہنچ جاتا ہے، لیکن یوری گاگرین چاند پر تخلیقی آزادی کے ذریعے ہی پہنچتا ہے۔ لیکن وہ آزادی محدود لوگوں کو میسر ہوتی ہے لیکن جب کسی آزاد معاشرے سے تخلیق کاری کا مقابلہ ہو جاتا ہے تو تخلیق کاری کے لیے معاشرتی اصلاح کرنے کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے کہ جن کو غلام رکھا ہوتا ہے، وہ کچھ نیا نہیں کر پاتے۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے اور ایک ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے چکر میں سلطنت ہی بکھر جاتی ہے۔
وائمر ری پبلک کے دور تک جرمنی میں بھی کافی تخلیقی آزادی تھی۔ میکس ویبر معاشرہ دانی میں مصروف تھے۔ آئین سٹائین سائنسدانی میں اپنا نام پیدا کر چکے تھے، ارنسٹ ہیکل آبی اورخاکی جانوروں پر تحقیق کر رہے تھے، فرٹز ہیبر کیمیا میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ پھر ہٹلر کی تیسری پادشاہی فطرت کے مقاصد کی نگہبان بن گئی اور کتابیں جلنا شروع ہو گئیں اور تخلیقی آزادی کو فطرت کے مقاصد کے ماتحت کر دیا گیا۔ لیکن جب آزاد معاشروں سے مقابلہ ہوا تو جرمنی یہ مقابلہ ہار گیا کہ ناٹزی ریاست انسانی چہروں پر ٹھڈے مارنے کے چکر میں تخلیقی آزادی کا سفر ترک کر چکی تھی اور علم سے دوری اور معیار کی پستی کے نتیجے میں یہ مقابلہ ہار گئی۔
آج کل چین کی بڑی دھوم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے کافی حدتک اپنے شہریوں کو تخلیقی آزادی دی ہوئی ہے اگرچہ چینی ریاست ناٹزیوں اور سوویت یونین کے اشتراکیوں کی طرح اس آزادی کوفطرت کے مقاصد کے ماتحت رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن ابھی چین بھی اپنے سے زیادہ آزاد معاشروں سے تخلیق، تخیل، دریافت اور ایجاد کے معاملے میں بہت پیچھے ہے جس کے نتیجے میں چین کے عوام کا معیار زندگی بھی چین کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اپنے سے آزاد معاشروں کے مقابلے میں ابھی تک پست ہے۔
مستقبل میں چین کو بھی تخلیقی آزادی میں اپنے سے آزاد معاشروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی جبر معطل کرنا پڑے گا۔ یا پھر چین بھی کسی آزاد معاشرے سے یہ مقابلہ ہار جائے گا کہ اس مقابلے میں جیت کا دارومدار ہمارے خیال میں تخلیقی آزادی کے معیار پر مبنی ہے۔ اور تخلیقی آزادی کا معیار تخلیق کاری میں روز بروز فزوں ہوتی انسانی شمولیت سے ہی بلند ہوتا ہے۔
جو معاشرے چین جیسے آزاد ہیں، وہ بھی کچھ عرصے سے کمپنیوں کی اجارہ داری کے ذریعے تخلیق و تخیل کو محدود کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں جمہوریت کا معیار پست ہو رہا ہے۔ اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو ان معاشروں میں سے بھی علم سے دوری کی ثقافت کے نتیجے میں زندگی اور مصنوعات کا معیار بھی پست ہو جائے گا۔
مجموعی طور پر لبرل ڈیموکریسی اور لبرل ازم کی ہزار ہا جہتوں کی تحلیل سے انسانیت کا معیار پست ہی ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آزادی علم کے امکانات میں اضافہ کرتی ہے جس کے نتیجے میں مصنوعات کا معیار بہتر ہوتا ہے اور مصنوعات کے معیار کی بہتری سے زندگی کا معیار بھی بہتر ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں لبرل اور مذہب کا ایک نا جائز جھگڑا جاری ہے۔ نا جائز اس لیے کہ لبرل ڈیموکریسی مذہبی حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور جب وہ مذہبی حقوق کا تحفظ نہیں کر پاتی، وہ آزادی کے معیار کو پست کرتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ لبرل نہیں رہتی۔ اس لیے ایک لبرل ڈیموکریسی جو اپنے آئین میں اپنے سب شہریوں کو ان کے مذہبی اور دیگر حقوق برابری کی بنیاد پر فراہم کرے تو ایسی جمہوریت کا مذہب سے جھگڑا بنتا نہیں۔ لیکن جب یہ کہیں کہ آپ چونکہ ایک مذہب سے متعلق ہیں، اس لیے آپ باقی انسانیت سے زیادہ حقوق کے مستحق ہیں تو اس بات کا کوئی عقلی اور سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ اور کسی بے ثبوت بات پر قومی پالیسی تشکیل کرنا حماقت ہے اور اس حماقت کو آپ چاہے جتنے اچھے نام دیں اور چاہے جتنے شد ومد سے اس حماقت پر اصرار کریں اور چاہے اسے کتنا ہی نقصان دہ بنا لیں، یہ حماقت ہی رہے گی۔
دوسرا سیدھی سچی بات یہ ہے کہ مذہب کے نتیجے میں اخلاقیات کا بہتر معیار تعلیم، صحت، انسانی حقوق، کام اور شہری ذمہ داریوں میں نظر آنا چاہیے۔ اگر آپ ڈاکٹر ہونے کے نتیجے میں اپنے پیسے کما رہے ہیں اور اپنے مریضوں کے انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھ رہے تو چاہے دھرنے دیں، چاہے تہجد گزار ہوں، یا چلہ کش ہوں، آپ کا عمل معیار کو پست کر رہا ہے۔
تعلیم، صحت، انسانی حقوق، کام اور شہری ذمہ داریوں کے حوالے سے دنیا کی لبرل جمہوریتوں میں یہ معیار ہمارے اور دوسرے امکانات پسندوں کے مطابق کتنے ہی خام کیوں نہ ہوں، پاکستان سے بدرجہا بہتر ہیں اور پارسائی کے نام پر لڑھکنیاں اور قلابازیاں کھانے سے ان حقائق کی تردید نہیں ہو سکتی اور تردید کرنے کے لیے جس قسم کی منافقت کی ضرورت ہے، اس کا مسلسل استعمال معیاروں کو اور پست کر دیتا ہے۔ اور معیاروں کی پستی کو اپنا مذہب کہہ دینا تو شاید اپنے مذہب سے بدترین زیادتی ہے۔
اگرچہ میں ایک بد اخلاق، بد عنوان، بد کردار، نالائق اور بد شعار ڈاکٹر ہوں لیکن بفضل خدا میں مسلمان ہوں، اس لیے دنیا کے تمام خوش اخلاق، ایمان دار، خوش کردار، تربیت یافتہ ہندو اور عیسائی ڈاکٹروں سے بہتر انسان ہوں اور خدا مجھے معاف کر دے گا کہ کرم خداوندی بے کنار ہے۔ یہ بات تو ہم نام نہاد، آوارہ اور خونی لبرل نہیں ہضم کر پاتے اور ڈاکٹر صاحب توقع رکھتے ہیں کہ ایک عادل خدا یہ دلیل قبول کر لے گا؟
جیسے جین ہیکمین نے کہا تھا کہ ولیم منی اب جہنم میں ہی ملاقات ہو گی۔ شاید ہماری بھی ایسے ملکی ڈاکٹروں، سیاست دانوں، صحافیوں، افسروں، چپراسیوں، درزیوں، باورچیوں، انسانی حقوق کے علم برداروں اور دیگر پیشوں سے متعلق لوگوں سے جہنم میں ہی ملاقات ہو گی جو اپنا کام کسی لبرل ڈیموکریسی کے اعلی معیار کے مطابق نہیں کرتے۔
ھاھا، کیا پتا نہ ہی ہو کہ دانایانِ راز کے مطابق ہم تو لکھنے پڑھنے کا کام اچھا کرتے ہیں لبرل ڈیموکریسی کی اخلاقیات کا بھی بڑا احترام کرتے ہیں۔ ہمیں جنت کی کوئی آرزو نہیں ہے لیکن اگر میرٹ پر فیصلوں کے نتیجے میں مل گئی تو چھئی چھپا چھئی چھپا کہ چھئی؟
ھاھاھا، جسٹ جو کنگ۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.