میڈیا اینکرز یا نشریاتی راؤ انوار ؟
از، وسعت اللہ خان
ایک راہ گیر نے پوچھا بیٹے کیا تلاش کر رہے ہو۔ بچے نے کہا انکل میری اٹھنی پچھلی گلی میں کھو گئی ہے۔ تو بیٹے پھر وہیں تلاش کرو جہاں کھوئی ہے۔ مگر انکل وہاں اندھیرا ہے اس لیے یہاں روشنی میں تلاش کر رہا ہوں۔ اگرچہ ہم سب ناسمجھ میڈیا کو سمجھ دار اور ذمہ دار بنانا چاہتے ہیں مگر ہمارا حال اسی بچے کی طرح ہے جس کا سکّہ کھو گیا تھا۔
جب ہم بطور مالک یا ایڈیٹر کسی اخبار یا چینل میں سب ایڈیٹر، رپورٹر، فوٹو گرافر، کیمرہ پرسن، این ایل ای ( نان لینیئر ایڈیٹر )، نیوز کاسٹر، پروڈیوسر، نیوز ایڈیٹر بھرتی کرتے ہیں تو دنیا کے کسی بھی ادارے کی طرح اس کا بائیو ڈیٹا دیکھتے ہیں، ٹیسٹ لیتے ہیں، انٹرویو کرتے ہیں اور اس کے بعد تنخواہ سمیت دیگر شرائطِ ملازمت طے کرتے ہیں۔
اگر امیدوار اپنے شعبے میں ادارتی یا تکنیکی لحاظ سے کمزور ہے مگر باصلاحیت ہے تو اس کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ادارے کی پیشہ ورانہ پالیسیوں کی تعارفی بریفنگ دیتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ ان پالیسیوں کے دائرے میں پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرے اور کوئی ایسی غیر پیشہ ورانہ حرکت نہ کرے جس سے ادارے کی بدنامی ہو یا غیر ضروری مشکلات پیدا ہوں۔
مگر ٹاک شو اینکر کے لیے ایسا کوئی لگا بندھا معیار نہیں۔ اس کا صحافیانہ پس منظر ہو تو اچھی بات ہے، نہ بھی ہو تو چلے گا۔ اس کا مطالعہ کتنا ہے، حالاتِ حاضرہ پر کیسی گرفت ہے، علاقائی و بین الاقوامی سیاست کی کس قدر شدہ بدھ ہے، جس ملک میں بیٹھ کر وہ ہفتے میں چار یا پانچ دن رائے عامہ پر اثر انداز ہو رہا ہے اس ملک کی مختلف قومیتوں کی سیاسی، سماجی و اخلاقی نفسیات کیا ہے، حساس رگیں کون سی ہیں؟ آبادی کی اکثریت جس عقیدے سے وابستہ ہے اس عقیدے کے موٹے موٹے اصول یا باریکیاں کیا ہیں؟
اینکر کو زبان و بیان پر کتنا کنٹرول ہے، کیا وہ صرف بول سکتا ہے یا لکھ پڑھ بھی سکتا ہے، اس کا اپنا نظریہِ زندگی کیا ہے؟ مذہبی، سیاسی و سماجی جھکاؤ کس جانب ہے؟ طبعاً انتہا پسند ہے، اعتدال پسند ہے یا غیر جانبدار؟ یہ سب ایسے ہی دیکھا جانا چاہیے جیسے بیٹے یا بیٹی کے لیے رشتہ دیکھا جاتا ہے۔
لیکن اینکر کے چناؤ میں فی زمانہ جو ’خوبیاں‘ عملاً دیکھی جاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ کس کے ریفرنس سے آیا ہے، سکرین پر کیسا نظر آئے گا یا آئے گی، کتنا بے تکان بول سکتا ہے، سوالات میں عقل جھلکے نہ جھلکے مگر نیزے کی انّی ضرور چھبنی چاہیے، مسئلہ کیسا ہی سادہ ہو اسے متنازع جلیبی بنانے کا گر آنا چاہیے اور اگر ہر شو میں خود کو عقلِ کل بھی ثابت کر سکے تو سبحان اللہ۔
آئیڈیل اینکر وہ ہے جو کچھ بھی بولے، کچھ بھی بلوائے۔ افواہ، خبر، تحقیق، آدھے یا پورے سچ کا سہارا لے یا نہ لے، اس کی گفتگو سے سماج کے کسی حصے، کسی ادارے یا کسی شخص کا بھلے دھڑن تختہ ہو جائے مگر ریٹنگ آنی چاہیے۔
کیونکہ ریٹنگ ہی میں چینل کی دونی چوگنی شہرت ہے، ریٹنگ میں ہی اشتہار ہیں اور اشتہار میں ہی پیسہ ہے۔ جتنا پیسہ آئے گا اتنا ہی موٹا اینکر کا مالیاتی پیکیج بھی ہوتا جائے گا۔ لہذا ریٹنگ کے لیے سب کچھ کرے گا۔ سب کچھ۔۔۔۔۔
اب تو صورت یہ ہے کہ جس طرح کرکٹرز اور فٹ بالرز کی نیلامی ہوتی ہے اسی طرح زیادہ سے زیادہ ریٹنگز لانے والے اینکرز کی نیلامی ہوتی ہے۔ یہی اینکر طے کرتا ہے کہ کہ کون سا چینل اسے افورڈ کر سکتا ہے، کونسی ادارتی و ٹیکنیکل ٹیم اس کے ساتھ رہے گی جو اس کی ہر ابروئے جنبش کو شہنشاہِ مقبولیت یا ملکہِ عالیہ کا ادارتی آدیش سمجھے۔
جب تک چینلز میں پیشہ ورانہ خود مختاری برتنے والے تجربہ کار ایڈیٹرز اور نیوز ایڈیٹرز نہیں لائے جائیں گے کہ جنہیں میرٹ پر بھرتی کا مکمل اختیار ہو۔ اس ایڈیٹر کی پیشہ ورانہ رائے کو چینل میں پیسہ لگانے والا سیٹھ بھی تسلیم کرے اور ہر فیصلے میں اپنی عقل لگانے یا نافذ کرنے سے باز رہے۔
جب تک پروڈیوسر فائیو سٹار اینکرز کا چپراسی بنا رہے گا، فرشتے بھی ضابطہِ اخلاق بنا لیں تو بھی کچھ نہ ہونے کا۔ بھلے کیسی ہی پابندیاں لگا لیں، کتنی سماعتیں کر لیں۔ مسئلے کی جڑ تک پہنچے بغیر پرنالہ سیدھا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ تب تک اینکر نشریاتی راؤ انوار بنا رہے گا۔