ورکنگ مدرز اور میڈیا

Irfana Yasser photo
عرفانہ یاسر

ورکنگ مدرز اور میڈیا

از، عرفانہ یاسر

اگر آپ خاتون ہیں اور پاکستان کے میڈیا سیکٹر میں کام کرنا چاہتی ہے تو حالات بہت ہی کم سازگار ہیں؛ خاتون ہونے کے ساتھ آپ زندگی کے اس مرحلے میں ہوں کہ شادی شدہ بھی ہیں تو ایسا سوچنا کسی قدر اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک قدم اور آگے آگے بڑھیے۔ اگر آپ خاتون بھی ہیں اور بچوں کی ماں بھی ہیں تو سمجھیں یہ ایک انتہائی مشکل کام بھی مشکل کے اس درجے تک پہنچنا شروع ہو جائے گا جِسے آپ ناممکنات کی سرحد کہیں۔ دل پر بھاری پتھر رکھ کر ہی سوچیے کہ آپ کو جاب مل جائے گی۔

اگر جاب مل بھی جائے تو آپ کو قدم قدم پر دو ثبوت دینا پڑیں گے۔ یہ ثبوت کیا ہوں گے؟ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں کسی مرکزی دھارے کے مذہب و فرقے سے تعلق نا رکھنے والے نصیب مارے کی طرح پہلے آپ کو یہ داغ دھونا ہو گا کہ وہ غدار نہیں؛ پھر اسے غداری کے لیے نشان زد میدان سے بھاگ کر اول تو زیرو لائن پر آنا ہو گا۔ پھر دوبارہ بھاگنا پڑتا ہے کہ وہ محبِ وطن بھی ہے۔ یہاں پر بھی پہلے بطور خاتون آپ کو دفتری سپیس میں موجود تعصبات کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کے بعد آپ کو اپنا مقام بنانا پڑتا ہے۔

اگر میڈیا سیکٹر، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا، میں دیکھا جائے ہمارے آس پاس بہت ساری ایسی خواتین رہی ہیں جو شادی سے پہلے تک ملازمت کرنے کے تو قابل تھیں۔ ان میں سے کچھ نے اپنی چیلنجز قبول کرنے والی عادت و فطرت سے حوصلہ پا کر شادی کے بعد بھی اس ملازمت کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن بچوں کی پیدائش کے بعد ان کو  اپنے اندر کی اس بہادر اور حوصلہ مند فطرت کو چھوڑنا پڑا۔ اس ایک حقیقی مکالمے کی نسبتًا generalize کی گئی صورت دیکھیے:

جب آپ کہیں انٹرویو دینے جاتے ہیں تو پہلا سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ شادی شدہ ہیں؟

جواب: جی ہاں

سوال:  تو بچے ہیں؟

جواب: جی ہاں

تو جاب کیسے مینیج کریں گی؟

جواب:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

(بھائی مینیج کر سکتی ہیں تو تبھی تو انٹرویو دینے آئی ہیں۔)

مزید سوال: دیکھ لیں میڈیا میں کبھی کبھی زیادہ ٹائم بھی ہو جاتا ہے۔ شہر سے باہر بھی جانا پڑ جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

یعنی آپ کی ہمت بڑھانے کی بجائے الٹا آپ کو پریشان کیا جاتا ہے۔ کچھ دن یا چند گھنٹے بعد آپ کو آنے والی اطلاع سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھا ہے۔

اب اپنی بات میں آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بچوں کے بعد نوکری کیوں چھوڑنی پڑ جاتی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں ایک قسم معاشرتی، نفسیاتی اور ذاتی ہوتی ہے۔ ان وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ذاتی اور نفسیاتی احساس ہے کہ انجانے میں شاید آپ کہیں بچوں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے کی عمومی فضا میں موجود سوچ اور رویوں سے آپ کے گرد ایسی سماجی دباؤ کی دیوار کھڑی ہوتی ہے کہ آپ کے داخلی دباؤ مزید بڑھ جاتے ہیں۔

جو خواتین میڈیا سیکٹر میں کسی نا کسی طرح کام کر رہی ہیں ان کے مسائل ایک اور طریقے سے الگ ہیں۔ اگر ایک خاتون میڈیا میں کام کر رہی ہے تو اس سیکٹر میں کام کی ڈیمانڈ اور نوعیت ایسی ہے یا اکثر دفعہ تو خواہ مخواہ میں بنا دی گئی ہے کہ ورکنگ آورز کے فکسڈ ہونے جیسی کوئی چیز نہیں۔ شکاگو کے مزدوروں کی طرح ورکنگ آورز ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ورکنگ آورز کی بے ترتیبی کا اعلان موقع بر موقع چہرے پر بغیر کسی احساس نا معقولی کے کیا جاتا ہے کہ جیسے اس کے بغیر گزارا ہی نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ بعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس طوق کو پاکستان کے اس نجی شعبے نے خواہ مخواہ اور جانے کیوں اپنے گلے میں ڈالا ہوا ہے۔


مزید ملاحظہ کیجیے: میڈیا میں خواتین کا کردار اوردرپیش چیلنجز از، انعم حمید

خواتین کے حقوق سے وابستہ قوانین ہمارے  معاشرے کو بدلیں گے؟ از، ثمرین غوری


خواتین سے ہمارے معاشرے کی جانب سے وابستہ توقعات بھی ان کے لیے حالات مشکل کرتی ہیں۔ گھر گرہستی کا کام بھی ایسا کام ہوتا ہے جو کسی گنتی میں بھی نہیں آتا۔ بطور پروڈیوسر ایک دھائی سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا میں کام کرتے ہوئے میں بہت کم ایسی خواتین کو جانتی ہوں جنہوں نے فیملی کے ساتھ ساتھ اپنی پروفیشنل زندگی کو ابھی تک  جاری رکھا ہوا ہے۔ اور جنہوں نے رکھا ہوا ہے وہ کس طرح حالات کی رسی کے کونوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں۔

حالیہ دنوں ایک نئے آنے والے ٹی وی چینل نے ایک بڑا اچھا قدم اٹھایا۔انہوں نے اپنے چینل میں 50 فیصد خواتین کو ملازمت پر رکھنے کی عمدہ پالیسی کو عملی شکل دینے کے لیے کافی تعداد میں خواتین کو ہائیر کیا۔ لیکن کچھ دن بعد ہی ابھی چینل آن ایئر بھی نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے خواتین کو ملازمت سے نکالنا شروع کر دیا۔ آخر ان پر اچانک ایسا کیا آشکار ہوا کہ انہوں نے اپنی سنہری پالیسی سے ابتدائے عشق ہی میں رُو گردانی شروع کر دی؟

اس کی ایک وجہ بیان کی گئی کہ (جس میں بد قسمتی سے کوئی شک  بھی نہیں ہے) خواتین کو کام کرنے کے لیے معاشرتی و سماجی پنڈورا باکسوں کی وجوہات اور تقاضوں کے سبب ایک خاص با سہولت ماحول چاہیے ہوتا ہے۔ ایسا ماحول 50 فی صد افرادی کے لیے فراہم کرنا شاید ان کے مشکل ہو رہا تھا۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی ایسے ادارے کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو ملازمت کے انصاف پر مبنی تقاضوں کی فراہمی کے لیے مناسب ماحول مہیا کرے۔ آپ ان کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا ضرور موقع دیں لیکن ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ان سے کیا کام لینا ہے۔ مثال کے طور پر اگر نائٹ شفٹ ہے تو اس میں کوشش کی جا سکتی ہے کہ خواتین کو نہ رکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ رات میں کام نہیں کر سکتیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے گھر والے مختلف سماجی و معاشرتی دباؤ کے زیرِ اثر شاید اس کے لیے اس بات کو پسند نہ کریں اور ان کو جاب چھوڑنی پڑے۔

اس طرح کے حالات میں خواتین کے میڈیا سیکٹر میں visibility اور موجودگی بڑھانے کی بڑی انسانی و ترقی پسندی کی قدر اپنی بابت ادارے کی disabling human resource پالیسی اور معاشرتی توقعات اور پریشرز کے ایک غیر فطری اتحاد کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ان حالات میں افرادی قوت اور پالیسی کے نگران افراد، یعنی ہیومن ریسورس کے شعبے کے اندر معاشرتی حقیقت پسندی اور صنفی انصاف کی قدریں رائج ہونا بہت ضروری اَمر ہے۔ اس سلسلے میں وزارت اطلاعت و نشریات اور پیمرا کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے۔

اس موضوع پر مزید آگے بڑھتے ہوئے ایک واقعے کا بیان اور بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک workspace پر ایک صاحب خواتین اور مردوں کے برابری کے حقوق پر بات کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب میں عورت بچہ پیدا کرنے سے ایک دن پہلے تک آفس میں کام کرتی ہے اور جب واپس جاب پر آتی ہے تو اس کے پاس کبھی کوئی عُذر نہیں ہوتا۔ اس لیے وہاں کی عورتیں تو مردوں جتنا کام کر سکتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

اپنے اس خاص ذہنی زاویے سے بات کرتے ہوئے شاید وہ با سہولت طور پر بھول رہے تھے کہ جس عورت کے سامنے وہ یہ بات کر رہے تھے وہ خود چائلڈ ڈیلیوری کے مرحلے سے گزرنے سے ایک دن پہلے تک آفس میں تھی۔

این جی اوز جو انسانی حقوق اور خوب صورت خیالات کی ترویج کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتی ہیں، وہاں کی بھی ایک مثال سن لیجیے۔ اسلام آباد کی ایک معروف این جی او میں تو ایک جاننے والی خاتون کے کانٹریکٹ کو ایکسٹینشن نہ دی گئی کیونکہ ان کے ایچ آر نے پچھلے  کانٹریکٹ کے اختتام سے محض ایک دن پہلے پوچھا تھا کہ آپ زچگی کے لیے چھٹی پر کب جا رہی ہیں؟ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ اس خاتون نے تو ڈھائی مہینے کے تھوڑے سے عرصے بعد ہی زچگی کی چھٹی پر جانا ہے تو انہوں نے کانٹریکٹ کو توسیع نا دینے کا آسان سا کام کر لیا۔ ان کے پاس چوائس تھی کہ وہ ایک مرد اور ایک عورت میں سے ایک  کا کانٹریکٹ بڑھائیں گے لیکن جب ان کے علم میں یہ بات آ ئی تو اپنے علم سے حاصل اس طاقت سے انہوں نے خاتون کی جگہ مرد کے کانٹریکٹ کو بڑھا دیا۔

اوپر ہم نے اپنے ہمسائے بھارت کو عین ملکی سیاسی خصلت کے تحت ایک سیاہ حوالے کے طور پر پیش کیا۔ لیکن وہاں ساتھ ہی ایک بات بڑی روشن مثال کے طور پر سامنے آئی۔ ہمارے ہمسائے ملک بھارت  کی ایک ریاست میں کچھ عرصہ پہلے ایک قانون پاس ہوا ہے جس میں خواتین کو زچگی کے دوران چھٹی کا دورانیہ 12 ہفتے سے 26 ہفتے تک کر دیا گیا۔ قانون کے مطابق اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ خواتین کے کام کرنے کی جگہ پر بچوں کے لیے سہولیات کی فراہمی ہو۔ یہ بات اس چیز کا ایک روشن حوالہ بنتا ہے کہ اگر آپ واقعی خواتین کو پیشہ ورانہ امور میں فعال کردار ادا کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کی پالیسی enabling atomospher بنانے والی ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر آپ خواتین کے عالمی دن پر خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے خالی  lips service کر رہے ہوتے ہیں۔

کتابی حوالوں سے پاکستان بھی خواتین کی gender mainstreaming میں کچھ خاص پیچھے نہیںں۔ پاکستان کے آئین کی شق 37 کے مطابق ریاستی پالیسی کے رہنما اُصول تقاضا کرتے ہیں ملک میں مختلف ادارے ملازمت پیشہ خواتین کے لیے زچگی سے متعلق مراعات و سہولیات فراہم کرے۔ لیکن ریاست اس سہولت و تقاضے کو کماحقہ پورا نہیں کر پا رہی۔ ویسٹ پاکستان میٹرنٹی بینیفٹ آرڈیننس 1958 کے مطابق خواتین کو 12 ہفتوں کی زچگی چھٹی دی جانی چاہیے، لیکن اس قانون میں بہت سارے نقائص موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اس قانون کو سرکاری اداروں میں تو کسی طور پر نافذ کروا لیا جاتا ہے لیکن  پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے ہر ادارے نے اپنے حساب سے قوانین بنائے ہوئے ہیں۔ کچھ ادارے تین ماہ کی چھٹی دیتے ہیں جبکہ کچھ ادارے 45 دن کی چھٹی دیتے ہیں۔ اور کچھ دن پہلے میرے علم میں اضافہ ہوا ہے کہ ایک مشہور و معروف میڈیا مالک کی ملکیت میں تعلیمی ادارے خواتین کو صرف 21 دن کی چھٹی دیتے ہیں۔

جب آپ خواتین کو زچگی جیسی اہم طبعی حالت کے لیے 45 یا 21 دن کی چھٹی دیں گے تو پھر آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ خواتین آپ کے معاشرے میں ویسے ہی کام کریں گی جیسے کہ مرد کرتے ہیں۔

ساتھ ہی خواتین کے مسائل سے منسلک ایک اور پہلو بھی ہے۔ جن خواتین کو تین مہینے کی چھٹی دی جاتی ہے ان پر بھی احسان جتایا جا تا ہے کہ آپ تو اتنا عرصہ چھٹی کر کے آئی ہیں۔ اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ انسانی نسل کے استقلال سے وابستہ کتنا بڑا کام کر کے آئی ہے۔ اور تو اور اگر آپ کو کبھی دوبارہ چھٹی کی ضرورت پڑ جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ابھی ہی تو آپ تین مہینے کی چھٹی کر کے آئی ہیں۔

اس پوری بات کو پیش کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ ایسی طبعی حالت سے گزرتی خواتین کو چُھٹی دینے کے اندر بھی اسے قانونی حق اور فرض کے تناظر میں دیکھنے کی نسبت اسے ایک احسان اور بَخشِیش کی سرپرستانہ عینک سے دیکھا جاتا ہے۔

ایک طرف تو زچگی کی چھٹی کے مسائل ہیں تو دوسری طرف خواتین کے لیے کام کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کیونکہ بہت کم ادارے ایسے ہیں جن میں ڈے کیئر سینٹرز موجود ہیں۔ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں ڈے کیئر سینٹر بنایا گیا۔ اسی طرح وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی اور اصلاحات میں بھی اسی سال ڈے کیئر سینٹ بنایا گیا۔ لیکن پرائیویٹ اداروں اور خصوصا میڈیا سیکٹر میں ڈے کیئر سینٹرز تا حدِ نظر دکھائی نہیں دیتے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے قوانین وضع کیے جائیں اور سہولیات دی جائیں کہ خواتین پر سکون ہو کر کام کر سکیں۔ کیونکہ ضمیر کی خلش سے آزاد  خاتون اور ماں ہی ایک اچھی پروفیشنل ثابت ہو سکتی ہے۔

About عرفانہ یاسر 13 Articles
عرفانہ یاسر پچھلے ایک عشرہ سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری کے سر کردہ چینلوں، جن میں جیو نیوز اور ایکسپریس نیوز شامل ہیں، سے بطور نیوز ٹی وی پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ کچھ عرصہ وفاقی وزارت پلاننگ، ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز میں بطور میڈیا مینیجر کے فرائض ادا کرتی رہی ہیں۔ کچھ عرصہ فری اینڈ فیئر الیکشنز نیٹ ورک (FAFEN)میں بھی آئینی ترقی، گورننس اور پارلیمانی امور پر ریسرچ رپورٹ رائٹر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ ان دنوں اے آر وائی نیوز میں شعبہ حالات حاضرہ کے ایک پرائم ٹائم پروگرام کی پروڈیوسر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔