پاکستانی مسلمان : اپنے سایوں سےبھی آما دہ پیکار کیوں ہیں؟
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
ثاقب اکبر صاحب کے ادارے ‘البصیرہ’ کے زیر اہتمام علامہ اقبال کے تصور اجتہاد کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس، بتاریخ، 20 اپریل، بمقام اسلام آباد ہوٹل میں شرکت کا موقع ملا۔ اس میں دیگر اہل علم کے علاوہ محترم خورشید ندیم صاحب نے بھی خطبہ ارشاد فرمایا جو اپنی معنویت میں بہت جامع تھا۔ ذیل میں راقم کے الفاظ میں خورشید ندیم صاحب کا خطبہ اور خطبے کے بعد خورشید ندیم صاحب کے ساتھ تفہیمِ اقبال اور دو قومی نظریہ پرراقم کے سوالات اور خورشید ندیم صاحب کے جوابات پیش بھی کیے جاتے ہیں۔
محترم خورشید ندیم صاحب نے اقبال کے تصورِ اجتہاد پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ بدقسمتی سے علامہ اقبال کی درست تفہیم اب تک نہیں ہو پائی۔ انہوں نے کہا کہ ان سے پہلےڈاکٹرانیس صاحب نے جو یہ فرمایا کہ اقبال کے خطبات میں شریعت اور فقہ میں فرق کیا گیا ہے، اقبال نے اسلامک لاء یا محمڈن لاء کے الفاظ استعمال کیے ہیں شریعت کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ یعنی جو کچھ اقبال قانونِ اسلامی کے بارے میں فرماتے ہیں اس سے مراد فقہ ہے نہ کہ شریعت، خورشید ندیم صاحب نے اس خیال کا رد کیا اور کہا وہ اقبال کے خطبہ اجتہاد میں ایسے کسی فرق کے وجود سے ناواقف ہیں۔ اقبال جب قانون کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو شریعت اس کا حصہ ہوتی ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے کہا کہ علماء، اقبال کو اجتہاد کا حق دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئے تھے، لیکن آج اقبال کے تصور اجتہاد کو نہ صرف قبول کیا جا رہا ہے بلکہ اس کو روشنی میں اجتہاد کی راہیں بھی تلاش کی جارہی ہیں۔ انہوں نے اقبال کے تصورِ اجتہاد کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ اقبال کے تصور اجتہاد کی دو پرتیں ہیں، ایک تو اجتہاد کی فنی بحث ہے، مثلاً اجتہادِ مطلق، اجتہادِ مقید، ا جتہاد فی المذھب وغیرہ اور دوسری اسلام کے اصولِ حرکت کی روشنی میں فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو کی پرت ہے۔ دوسری پرت کے نتیجے میں اقبال، تفسیر، حدیث اور استنباطِ احکام کی ساری روایت پر اجتہادی بصیرت کے ساتھ نظرِ ثانی کرتے ہوئے نیا عالمی نقطہ نظر پیش کرناچاہتے ہیں۔ اس کو اقبال، ‘فکر اسلامی کی تشکیلِ نو’ کہتے ہیں۔
خورشید ندیم صاحب نے ڈاکٹر انیس صاحب کے اس خیال کہ اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا ا ور یہ کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہونا یہ ایک گھڑاہوا افسانہ ہے، اور یہ کہ قرآن کی 800 سے زائد تفاسیر اس کی گواہ ہیں کہ اجتہاد ہر دور میں جاری رہا، پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجیدکی درحقیقت 4 یا 5 تفاسیر ہی لکھی گئی ہیں، یعنی تفسیرِ ابن کثیر، کشاف، تفسیرِ کبیر اور کوئی ایک فقہی تفیسر جیسے قرطبی وغیرہ۔ باقی تمام تفاسیر انہی تفاسیر کی تفاسیر ہیں، انہی سے ماخوذ اور الفاظ اور اسلوب کے فرق سے باربار لکھی گئی ہیں، نیز فقہ میں بھی اجتہاد کواجتہاد فی المذھب کے دائرے میں مقید کردیا گیا ہے، اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ عملاً بند کردیا گیا تھا۔ اور اسے کھولنے کے لیے لوگ اب بھی تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی تناظر میں اقبال کے تصورِ اجتہاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس اجتہاد کی بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقبال نے اپنے خطبے میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پیغمبر بھی جب اپنی قوم کے سامنے شریعت پیش کرتا ہے تو اس وقت کے مزاج اور حالات کو مدِ نظر رکھ کر کرتا ہے، اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ فقیہ کو بھی چاہیے کہ اپنے اجتہادات میں عرف کو مدِ نظر رکھے۔ مزید کہا کہ اقبال نے محمد بن عبد الوھاب کی تحریک کی مدح کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے آئمہ اربعہ کی تقلید سےباہر نکلنا ممکن ہوا، لیکن اس تحریک کا حدیث پر اصرار، ماضی کو بلا تنقید قبول کرانے کے مترادف ہے، جو ایک بار پھر تقلید کی روش کی طرف لے جاتا ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے کہا کہ حدیثِ قرطاس کی روایت جو شیعہ اور سنی میں وجہ نزاع رہی ہے، اقبال اس کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں، وہ حضرت عمر فاروق کی مدح کرتے ہوئے انہیں حریت فکر کی اولین آواز قرار دیتے ہیں، جنھوں نے یہ کہنے کی جرات کی کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے ڈاکٹرجاوید اقبال کے حوالے سے کہا کہ اگر اقبال کے تصورِ اجتہاد کو قبول کر لیا جائے تو نہ اس میں ولایتِ فقیہ کی کوئی گنجائش رہتی ہے اور نہ افغانوں کے علماء کی مجلسِ شوریٰ کی۔ اس لیے کہ اقبال اجتہاد کا حق کسی خاص فرد یا طبقے کو نہیں دیتے ۔ مزید کہا کہ اقبال کو جو لوگ اپناتے بھی ہیں ان پر بھی فکرِ اقبال کے یہ گوشے مخفی رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کی فکرِ اجتہاد کا کوئی مصداق انہیں اس عہد میں نظر نہیں آتا۔ اقبال بڑی حد تک اپنی تفہیم کے اعتبار سے لاوارث ہی اس دنیا سے چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اقبال پوری کائنات کی ایک روحانی تشکیل و تعبیرکے قائل ہیں اور یہی ان کا اصولِ اجتہاد ہے اور اسی بنا پر وہ جمہویت اور جمہوری اداروں کو ایک روحانی تعبیر کے تناظر میں قبول کرتے ہیں اور روحانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔
خطبے کے آخر میں جناب خورشید ندیم صاحب نے اقبال کے خطبہ الہ آباد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کے ہاں ہندوؤں سے مسلمانوں کے اختلاف کی بنیاد تصورِ مذھب نہیں، بلکہ تصورِ سماج ہے۔ ہندو طبقاتی تقسیم کے قائل ہیں جو خود ان کو ایک قوم بننے نہیں دیتا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک قوم کیسے بن سکتے ہیں۔ مسلمان مثلاً، اہل کتاب کے ساتھ تو ایک قوم بن سکتے ہیں لیکن ہندوؤں کے ساتھ نہیں۔
رسمی طور پر مجلس برخاست ہونے کے بعد، میں نے موقع پاتے ہی خورشید ندیم صاحب سے اجازت لے کران سے کچھ سوالات پوچھے۔ میرا سوال علامہ اقبال کے تصورِ قومیت اور دو قومی نظریے کے بارے میں تھا۔ میں نے پوچھا کہ مسئلہ اگر سماجی اور طبقاتی تقسیم کا تھا تو پچھلے ہزار سال سے ہندو مسلم ایک قوم کی طرح کیوں کر رہ پائے تھے اور اب بھی مسلمان بھارت میں ہندوؤں کے ساتھ ایک قوم بن کرکیسے رہ رہے ہیں۔ خورشید ندیم صاحب نے جواب دیا کہ پہلے دور میں مسلمان حکمران تھے اس لیے کام چل گیا، دورِ حاضر میں یہ ہوا کہ ہندوؤں نے سیکولرازم کی اقدار کو اپناتے ہوئے مخلوط معاشرت قبول کر لی یوں ہندو مسلم کا ایک قوم بن کر رہنا ممکن ہو گیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ اقبال مستقبل کی کروٹ کا درست اندازہ لگا نہیں پائےکہ ہندو معاشرہ اس طرح ارتقاء کر جائے گا۔ اس پر خورشید ندیم صاحب نے تائید کی کہ شاید ایسا ہی ہے۔ تاہم اس دور میں، ان حالات میں اقبال کی بات درست تھی۔
میں نے دوسرا سوال پوچھا کہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے الگ قومیت کا تصور اور اس کی بنیاد پر الگ ملک کا نظریہ ہندو سماج کی طبقاتی تقسیم کی بنا پر دیا تھا تو اس کے لیے الگ ملک جن علاقوں میں تجویز کیا تھا یعنی بنگال، سندھ، پنجاب، سرحد ور بلوچستان پر مشتمل ملک، وہاں تو مسلمان اکثریت میں تھے، انہیں ہندوؤں کی طبقاتی تقسیم سے کوئی نقصان یا خطرہ نہیں تھا، جب کہ ہندو کلچر یا ہندو سماج کی طبقاتی تقسیم سے متاثر ہونے والا مسلمان درحقیقت ان علاقوں میں تھا جہاں ہندو اکثریت میں تھے، لیکن الگ مسلم ملک وہاں نہیں بن رہا تھا، نہ بن سکتا تھا۔ گویا مرض کسی اور کا تھا اور علاج کسی اور کو تجویز کیا گیا۔ اس پر خورشید ندیم صاحب نے کہا کہ ان سوالوں کے حتمی جوابات دینا شاید ممکن نہیں۔ شائد اقبال سمجھتے تھے کہ مسلمان اگر سیاسی طور پر خود مختار ہوں تو اپنی شناخت بچا سکتے ہیں۔ خورشید ندیم صاحب نے یہ بھی کہا کہ ان کے علاوہ بھی کچھ سوالات ہیں جن کے شافی جوابات انہیں اب تک نہیں مل پائے۔ ایک یہ کہ ہجرت کے نتیجے میں جو لاکھوں لوگ کام آئے،کیا اس سے بچا نہیں جا سکتا تھا؟ دوسرا یہ کہ بھارت رہ جانے والے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ خورشید ندیم صاحب نے کہا کہ کیبنٹ مشن کی تجاویز کو اگر قبول کر لیا جاتا تو شایدآج حالات بہتر ہوتے۔
خورشید ندیم صاحب کے ساتھ نشست توختم ہوگئی لیکن میں سوچ رہا تھا کہ کیا تقسیمِ ہند کی وجہ سے ہونے والی عظیم قتل و غارت کا اندازہ مسلم لیگ کو نہیں تھا؟ مسلم لیگ نے دیکھ لیا تھا کہ یومِ راست (Direct Action Day) کے اعلان پر ہی سینکڑوں فسادات میں ہزاروں افراد قتل ہوئے تھے۔ یہ کہنا کہ حالات کے درجہ حرارت کا اندازہ ان کو نہین تھا، بالکل بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ نے تقسیم کی خاطر ممکنہ قتل و غارت کو گوارا کر لیا تھا۔
بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لیے کوئی تجویز مسلم لیگ یا دوقومی نظریے میں موجود نہیں تھی۔ ہندوستانی مسلمانون کے لیے مشترکہ قومیت کے امکان کویا عملاً درست مان لیا گیا تھا، اگرچہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے شناخت کے بحران کا مسئلہ اگر تھا تو ان کو درپیش ہو سکتا تھا۔ لیکن اسی برصغیر کے دوسرے حصے کے مسلمانون کے لیے الگ قومیت کا تصور درست سمجھا گیا تھا حالانکہ اس دوسرے حصے کے مسلمان پہلے سے اکثریت میں ہونے کی وجہ سے ہندوؤں کے مقابلے میں قومیت کے کسی بحران کا شکار نہیں تھے اور نہ اس کا امکان تھا۔ یوں دیکھا جائے تو مسلمانون کی مذہبی سیاست میں کنفیوژن پیدا ہو گئی جو آج تک حل نہیں ہوئی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مستقبل کی یہ کروٹ بھی سمجھ نہ سکے کہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں مسلمان مختلف ممالک میں سیاسی طور پر خود مختار نہ ہونے کے باوجود بحیثیتِ قوم اپنی شناخت کے کسی بحران کا شکار نہیں ۔ وہ دوسروں کی قومیت بھی اپنا لیتے ہیں لیکن ان کی اسلامی شناخت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ انہوں نے مخلوط معاشروں میں رہنا سیکھ لیا ہے۔
اقبال جغرافیہ کی بجائے مذہب کو قومیت کی بنیاد قرار دیتے تھے۔ جب کہ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابو الکلام آزاد جغرافیہ کو قومیت کی بنیاد مانتے تھے۔ لیکن حقیقت دیکھیے کہ اقبال کے روحانی قومیت کے نظریہ کو ماننے کے باوجود مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں جغرافیے کی صورت میں ہی اپنی شناخت بنانی پڑی۔ اور آج عملاً مسلمان مختلف قومیتوں اور جغرافیوں کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ قومیائی اور جغرافیائی شناختیں کہیں تو مکمل اسلامی ہیں جیسے سعودی عرب، مصر وغیرہ اور کہیں سیکولر جیسے بھارت امریکہ وغیرہ مگر مسلمانوں کی شناخت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اسی سیمینار میں پروفیسر فتح محمد ملک نے اقبال کے تصور پاکستان کو اقبال کا سیاسی اجتہاد قرار دیتے ہوئے ان کی مخالفت کرنے والے مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابو الکلام کو عصری تقاضوں سے نابلد کہا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقبال ہی ہیں جو مستقبل کے تقاضوں کا درست اندازہ نہیں لگا سکے تھے۔
آج بھارت سمیت ان غیر مسلم ممالک میں عموماً اسلام کو کوئی خطرہ ہے نہ مسلمانوں کو۔ البتہ وہ ملکِ پاکستان جو مسلمانوں کی شناخت بچانے کے لیے بنایا گیا تھا، وہاں بات بات پر شناخت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شناخت کی یہ حساسیت دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی حساسیت ہے جو ہمیں ہمہ وقت اپنے ہمسائیوں بلکہ اپنے سایوں سے بھی آمادہ پیکار رکھتی ہے۔
تاریخ پاک و ہند کا سب سے بڑا المیہ کیبنٹ مشن پلان کی ناکامی تھی۔ برصغیر پاک وہند کے مستقبل کی کامیابی کیبنٹ مشن پلان کی قضا کی ادائیگی میں نظر آتی ہے۔