در بَہ در خاک بَہ سر عوام اور سیاست
از، وارث رضا
ایک جانب بھوک و پیاس سے تڑپتے، بِلکتے عوام جن کی قُوّتِ خرید کی طاقت اشیائے خور و نوش کی ہوش رُبا قیمتوں میں دم توڑ چکی ہے تو دوسری جانب تعلیمی اخراجات کے بڑھتے ہوئے رجحان اور علاج و معالجے کی دواؤں کی آسمان سے بات کرتی قیمتوں کی وجہ سے محروم ہوتی عوام کی اکثریت سے دُہری ہوتی ہوئی کمریں ہیں۔
اسی درمیان موجودہ تبدیلی سرکار کی عوام دشمن پالیسی سے ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار ہوتے نو جوان اور افراد جن کی اکثریت گھر چلانے سے محروم کر دی گئی ہے اور ہمارے وزیرِ اعظم نِیرُو کی بانسری بجاتے مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے بر عکس کرپشن کرپشن کا راگ الاپتے خود شوگر مافیا اور آٹا مافیا سے بلیک میل ہو کر اربوں روپے کے غبن کو اب تک تلاش کرنے سے محروم ہیں۔
کمیشن اور احتساب کے بے ڈھب نعرے میں حکومت کرنے میں مست اور بے پرواہ ہیں، جب کہ دوسری طرف ہماری سیاست کی وہ خَرمستیاں ہیں، جو عوام میں احساسِ شکست و نا امیدی کے ساتھ نان نَفقے اور اپنے بچوں کے مستقبل بچانے میں “عوام عوام” پکارنے والے بے حس حکم رانوں سے مایوس ہوتے ہوئے خود کُشیوں اور قتال پر سر بُریدہ لاشوں کے ساتھ اپنی داد و فریاد کی طاقت کو بھی بے اثر دیکھ رہے ہیں۔
حکم ران طاقت ور طبقات اپنے دفاع اور پُر آسائش زندگی کے لیے ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے من پسند چاپلوس افراد کو خزانے پر بوجھ ڈال نوکریاں بانٹ رہے ہیں۔ بَل کہ عوام کے ضمن میں ملازمین کی بھرتی کا راگ الاپ کر عام محنت کش اور روزگار سے وابستہ افراد کو انتہائی دھڑَلّے کے ساتھ بے روزگار کر کے پناہ گاہ اور غریبوں کے لیے دسترخوان کھول کر عوام میں محنت و مشقت اور صلاحیت کی رگ کو ختم کرنے میں انتہائی بے حیائی سے جتے ہوئے ہیں۔
اس کارنامے کو انصاف بر مبنی “ریاستِ مدینہ” کی تاویلات میں الجھا کر محروم عوام کی “بلیک میلنگ” کا کاروبار انتہائی سفاکی سے کر رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست اور کاروبار حکومت کے بارے میں وضاحتوں اور بیانات کا نہ رکنے والے سلسلے کو تجزیہ کار کے علاوہ جرائد و اخبارات بھی تبصروں اور تجاویز کی صورت میں شد و مد کے ساتھ سیاست دانوں سمیت حکم رانوں اور آئینی معاملات میں طاقت ور “اسٹبلشمنٹ” کے پردے چاک کر رہے ہیں۔
معتبر انگریزی معاصر اخبار میں تین سے چار ماہ کی خاموشی کے بعد آئی ایس پی آر کے سربراہ کی پریس کانفرنس پر اداریے میں میجر جنرل بابر افتخار کی جانب سے فوجی قیادت کی سیاست اور حکومتی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی وضاحت کو بیان کی حد تک ایک خوش گوار بات کہہ کر اس کے عملی اظہار پر سوالات اٹھائے ہیں۔
مؤقّر انگریزی روزنامے کے بَہ قول جب فوجی ترجمان کی جانب سے حکومتی معاملات میں دخل اندازی یا اثر انداز نہ ہونے کی بات کی جاتی ہے تو دوسری جانب دکھائی دیتا ہے کہ گذشتہ تین برسوں میں سِول اور عوامی اداروں میں اہم عہدوں پر تسلسل سے حاضر اور ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران کی آئین و قانون سے بالا تعیناتیاں دکھائی دیتی ہیں جو اَز خود حکومتی معاملات میں نہ صرف”اسٹبلشمنٹ”کے اثر و نفوذ کو ظاہر کرتا ہے بل کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی فوجی قیادت کی حکومتی معاملات میں دخل اندازی نہ ہونے کو بھی مشکوک بناتا ہے، بل کہ”ہائبرڈ برانڈ حکومت” کے تصور کو بھی تقویت دیتا ہے۔
مؤقّر روزنامے نے اپنے اداریے میں سوال کیا ہے کہ جب ڈی جی آئی ایس پی آر یہ کہتے ہیں کہ فوجی قیادت آئین اور قانون کے تحت حکومت کا ذیلی ادارہ ہے اور آئینِ پاکستان کی رُو سے وہ ملکی سیاست سے دور ہے، یا عوام کے طبقات سے درخواست کی جاتی ہے کہ اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے تو اخبار اس کے بر عکس سوال اٹھاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں نومبر 2017 میں تحریکِ لبیک کے دھرنے میں حکومتی احکامات پر قانون کے اداروں کی بے بسی جہاں سمجھ سے بالا تر ہے وہیں ویڈیو کی شکل میں دھرنے مظاہرین میں ڈی جی رینجرز کی جانب سے دھرنا دینے والوں میں رقم کی تقسیم یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ ملکی سیاسی معاملات میں”اسٹبلشمنٹ”اپنی ضرورت کے وقت مختلف حیلے بہانوں سے سیاست میں دخل اندازی کرتی ہے، جو ڈی جی آئی ایس پی آر کے دعویٰ سے متصادم بات ہے۔
اداریہ کہتا ہے کہ اگر واقعی “اسٹبلشمنٹ” ملکی آئین کے تحت چلنا چاہتی ہے تو اسے عملی طور سے خود کو سیاست اور حکومتی معاملات سے الگ کرنا ہو گا اور ایک پیج پر نہیں بل کہ”اسٹبلشمنٹ” کے کردار کو محدود کر کے اسے ایک الگ کالم پر لانا ہو گا۔
اس تمام تر صورتِ حال میں حکومتی کارکردگی عوام کے مسائل سے ہٹا کر اپوزیشن کے خلاف کرپشن کے منفی پروپیگنڈے کی جانب موڑ کر حکومت ایک ایسا بیانیہ عوام تک پہنچانے میں مصروفِ عمل ہے کہ گویا ملک تباہ و برباد کر دیا گیا ہے اور یہ تأثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت ملکی بہتری کے لیے اَز سرِ نَو کوشش کر رہی ہے جس کا نتیجہ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور خراب گورننس ہے، جب کہ اس کے بر عکس عوام کا تجربہ ملک کی بیڈ گورننس کے علاوہ کسی بھی سمت میں حکومت کی کارکردگی صفر ہے کے برابر نظر آتا ہے۔
بل کہ عوام میں یہ تأثر ہے کہ ملک میں جان بوجھ کر لا قانونیت کی ایک ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے جس کے سدِّ باب کی کوئی حکومتی کوشش نظر نہیں آتیں، وہ چاہے ہزارہ قبیلے کے بے گناہ مزدوروں کا قتل ہو یا موٹر وے پر ہونے والے سفاک جنسی جرم کا واقعہ یا لوگوں میں مہنگائی سے تنگ آمدہ خود کُشیاں۔
حکومتی سیاست ملکی معاملات میں ہر کام پارلیمینٹ کو بُلڈوز کر کے آرڈیننس سے چلا رہی ہے جو پارلیمانی جمہوری نظام کو کم زور کرنے اور سیاسی معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ایک نا کام کوشش کی نشان دہی ہے۔
ملکی سیاست کے اس دو راہے پر عملی طور سے ملکی معاملات کو روبوٹ کی صورت “اسٹبلشمنٹ” کی جانب سے چلائے جانے کا خیال عوام میں دن بَہ دن تقویت پا رہا ہے جو کہ عوامی بے چینی اور لاوے کی صورت میں کسی بھی بڑے دھماکے کا شاخسانہ بن سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا فوجی ترجمان کی وضاحت اور سیاست سے عملی دوری اقدامات کی شکل میں سامنے آتی ہے یا عوام ماضی کی طرح ملکی سلامتی کی آڑ میں “اسٹبلشمنٹ نواز” حکومتوں کے ہی لا چار و بے بس پرزوں کی مانند اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں…؟